نازی حکومت کے استبداد اور جنگ کے وحشیانہ اقدامات کی وجہ سے چند پچے اپنی عمر سے زیادہ بڑے ہوگئے۔ ایک بچے نے انہيں اس طرح بیان کیا "بوڑھے لوگ جن کا چہرا بچوں کی طرح تھا اور جن کی شکلوں پر ذرا سی بھی خوشی یا معصومیت نہيں تھی۔" اپنے غیرمعمولی حالات کے مطابق خود کو ڈھالتے ہوئے چھپے ہوئے یہودی بچوں نے اپنے اپنے کھیل ایجاد کئے، تعلیم کے نایاب موقعوں کا فائدہ اٹھایا اور مزدوری کرکے جیسے تیسے اپنا وجود قائم رکھا۔

چھپے ہوئے بچوں کی روزمرہ زندگیوں کا تجربہ مختلف تھا۔ اِس کا انحصار اس بات پر تھا کہ کیا وہ کھلے عام زندگی بسر کر سکتے ہیں یا اسکول جا کر اپنی عمر کے بچوں سے گھل مل سکتے تھے یا پھر اُنہیں چھپنا ہوتا تھا۔ جن لوگوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، چھپتے ہوئے اُن کی زندگی تکلیف، درد اور بوریت سے عبارت ہوتی تھی۔ کتابیں پڑھنے سے، کھیلنے سے اور تخلیق کاری کرکے وقت کٹ جاتا تھا اور بچے کا دھیان عارضی طور پر اپنی صورت حال سے ہٹ جاتا تھا۔

کھلونے اور کھیل
کھیل ایک بچے کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جس سے تخلیق کی صلاحیت اُبھرتی ہے، لوگ سماجی سطح پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اُن کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ یہودی بستیوں اور حراستی کیمپوں میں بھی یہودی بچوں نے کھیلوں میں سکون تلاش کیا۔ ان چھپے ہوئے بچوں کے لئے جن کا ذاتی سامان کم ہی ہوتا تھا، کھلونے خاص معنی اختیار کرتے تھے۔ وہ بچوں اور ان کے بچانے والوں کے درمیان ایک بندھن پیدا کرسکتے تھے یا لاپتہ والدین یا گھروالوں کے ساتھ تعلقات کی توثیق کرسکتے تھے۔ اتنی ہی اہم بات یہ تھی کہ کھلونوں اور کھیل کی وجہ سے غیرمعمولی حالات میں رہنے والے چھوٹے بچوں کی زندگی میں بچپنا کچھ دیر کے لئے لوٹ آتا تھا۔

تعلیم
قدیم زمانے سے تعلیم یہودی ثقافت کا ایک اہم عنصر رہا ہے۔ تاہم جیسے جرمنی نے یورپ پر قبضہ کرلیا، یہودیوں کے لئے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے موقعے کم ہوتے گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہ موقعے مکمل طور پر ختم ہی ہوگئے۔

اسکول جانے اور پڑھائی کرنے والے ایسے بچے جن کی شکل "آریائی" دکھائی دیتی تھی، کلاس میں جانے اور پڑھائی کرنے سے اُن کی زندگیوں میں ایک معمول پیدا ہو گیا تھا اور شاید اُن کے بننے والے نئے دوستوں نے اُنہیں کچھ سکون فراہم کیا جس کی اُنہیں شدید ضرورت تھی۔ جن بچوں کو چھپایا جانا ضروری تھا، اُن کیلئے رسمی تعلیم کا موقع موجود ہی نہیں تھا۔ لیکن اُنہیں جب بھی موقع ملا، اُنہوں نے پڑھنے اور لکھنے کے ذریعے خود کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کی۔

کام
چھپائے جانے والے یہودی بچے عام طور پر اپنے رضاعی گھرانوں میں گھریلو کام اور ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ دیہی علاقوں میں وہ جانوروں کی دیکھ بھال کرتے اور فصل اگانے اور کاٹنے میں بھی مدد کرتے تھے۔ شہروں میں یہودی بچے فیکٹریوں میں کام کرتے تھے یا کھلے بازاروں یا بلیک مارکیٹوں میں کھانے پینے کا یا دوسرا سامان فروخت کرتے تھے۔ چند صورتوں میں بڑے بچے گزارے کے لئے یا نازیوں سے لڑنے والے حامیوں کی مدد کرنے کیلئے جنگلوں میں بھاگ گئے۔

کپڑے
جیسے جیسے یہودیوں کو گھیٹو یعنی یہودی بستیوں یا حراستی مراکز میں منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا، نازیوں نے ان سے ان کا سازوسامان چھیننے کے لئے انہيں اپنے ساتھ بہت ہی کم سامان لے جانے کی اجازت دی۔ یہودیوں کے منتقل ہوجانے کے بعد نازیوں نے ان تک پہنچنے والے سامان کو بھی محدود کردیا۔

چھپنے والے بچوں کو جلدی حرکت کرنی ہوتی تھی تاکہ ان پر آسانی سے نظر نہ پڑجائے اور اس کی وجہ سے انہيں اپنا تھوڑا بہت سازوسامان بھی چھوڑنا پڑجاتا۔ زیادہ تر تو اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کے علاوہ کچھ بھی نہيں لے کر گئے۔ جنگ کے دوران پیدا ہونے والی قلتوں کی وجہ سے نئے کپڑے حاصل کرنا مشکل ہوتا تو بچانے والے یا تو ان بچوں کے کپڑے کپڑوں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بناتے یا پھر انہيں دوسروں کے پرانے کپڑے پہناتے تھے۔