چھپے رہنے کا فیصلہ کرنے کے بعد والدین، بچوں اور اُنہیں بچانے والوں کو مشکل چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ بچے اپنے آپ کو غیریہودی ظاہر کرکے کھلے عام رہ سکتے تھے۔ جو ایسا نہيں کرسکتے تھے، انہيں چھپ کر زندگی گزارنی پڑتی تھی۔ اکثر کو تو تہ خانوں میں چھپنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کرنے والے بچوں کو اپنے ہمسایوں، اسکول کے دوستوں، مخبروں، بلیک میل کرنے والوں اور پولیس سے اپنی یہودی شناخت بہت احتیاط کے ساتھ چھپانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ بات چیت یا رویے میں کسی بھی قسم کی بھول چوک کی وجہ سے بچے اور اس کے بچانے والے کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔

غیریہودی کے طور پر رہنے کے لئے جعلی شناختی دستاویزات درکار تھیں جنہيں مقبوضہ یورپ میں آسانی سے حاصل نہيں کیا جاسکتا تھا اور حکام ایسی دستاویزات کا اکثر جائزہ لیتے رہتے تھے۔ جنگ کے دوران بچوں کو اکثر ایک پناہ گاہ سے بھاگ کر دوسری پناہ گاہ جانے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی۔ اپنے والدین کو پیچھے چھوڑ جانے والے بچوں کو جدائی کا غم لگا رہتا تھا اور اُنہیں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

جغلی کاغذات
یہودیوں کے لئے اپنے آپ کو "آرین" ظاہر کرنے کے لئے جعلی شناختی کا‏غذات درکار تھے جنہيں اکثر نازی مخالف مزاحمتی گروپوں کے ساتھ روابط کے ذریعے حاصل کیا جاتا تھا۔ پیدائشی یا بپتسمہ کی سند جیسے جعلی یا حاصل کئے گئے کاغذات استعمال کرکے یہودی جعلی شناخت کے تحت حکام سے قانونی دستاویزات بھی حاصل کی جا سکتی تھیں۔ ان تراکیب کی وجہ سے دستاویزات رکھنے والوں کو خاص خطرات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ جرمن اور ان کے ساتھ کام کرنے والے پولیس اہلکار یہودیوں، مزاحمتی تحریک کے ارکان اور کانسکرپٹ مزدوری سے بچنے کی کوشش کرنے والے افراد کی تلاش میں شناختی کاغذات کا قریبی معائنہ کرتے رہتے تھے۔

مجھے اپنا یہودی پن چھپانا پڑتا تھا۔ یہ ایک راز تھا جسے موت کے خوف کی وجہ سے کبھی ظاہر نہيں کیا جا سکتا تھا۔ میں نے اپنا پچپن اور بلوغت کے بہترین سال کھو دئے۔ مجھ سے میرا نام، میرا مذہب اور میرے یہودی اعتقادات چھین لئے گئے۔ ریجینے ڈانر

چھپنے کی جگہیں
تمام یہودی بچے اپنے آپ کو "آرین" ظاہر نہيں کرسکتے تھے اور یوں وہ باہر اپنی مرضی سے گھوم پھر بھی نہيں سکتے تھے۔ یہودی "دکھائی دینے والے" بچے مقامی زبان نہیں بولتے تھے اور ایسے بچے جن کی بچانے والوں کے خاندان میں موجودگی سے بہت زیادہ سوال جواب ہونے لگے، ایسے بچوں کو جسمانی طور پر چھپانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ بچوں کو تہ خانوں یا ایٹک میں رکھا جاتا تھا جہاں ان کو گھنٹوں تک ہلے جلے بغیر خاموشی سے رہنا ہوتا تھا۔ گاؤں میں بچوں کو مرغی کے ڈربوں، ہٹوں اور گوداموں میں رکھا جاتا تھا۔ کسی بھی قسم کی آواز مثلاً بات چیت یا قدموں کی آہٹ سے پڑوسیوں کو شک ہوجاتا تھا اور اس سے پولیس کے چھاپے پڑنے کا بھی خدشہ ہوتا تھا۔ بمباری کے دوران یہودی بچوں کو چھپے رہنا ہوتا تھا اور وہ بھاگ کر پناہ نہيں لے سکتے تھے۔ ان حالات میں بچے دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے نہيں تھے اور وہ بوریت اور خوف سے دوچار ہوتے رہتے تھے۔

ختنہ
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے چلنے والی ایک روایت کے مطابق خدا کے ساتھ یہودی قوم کے عہد کی نشانی کے طور پر نومولود یہودی لڑکوں کا ختنہ کیا جاتا تھا۔ نازیوں کی طرف سے ایزا رسانی کے دوران بھی یہودیوں نے اس روایت پر قائم رہنے کی کوشش کی۔ چونکہ یورپ میں غیریہودیوں کا عام طور پر ختنہ نہيں کیا جاتا تھا، جرمن اور ان کی اتحادی پولیس چھاپوں میں پکڑے جانے والے مردوں کا عام طور پر معائنہ کرتی تھی۔ اپنی یہودی شناخت چھپانے کی کوشش کرنے والے لڑکوں کے لئے عوامی غسل خانے استعمال کرنے یا کھیل میں حصہ لینے سے وہ پکڑے جا سکتے تھے۔ کبھی کبھار وہ ختنے کے نشانات چھپانے کے لئے تکلیف دہ طریقہ کار اپناتے تھے یا پھر لڑکیوں کے کپڑے بھی پہن لیتے تھے۔

کسی مختلف مذہب کی آڑ لیکر چھپنا
ہزاروں یہودی بچے ہالوکاسٹ میں اس لئے بچ گئے کیونکہ انہيں دوسرے مذہبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں نے پناہ دی۔ مقبوضہ پولینڈ میں درجنوں کیتھلک کانوینٹوں نے یہودی بچوں کو انفرادی طور پر پناہ دی۔ بیلجیم میں رہنے والے کیتھلک افراد نے اپنے گھروں، اسکولوں اور یتیم خانوں میں سینکڑوں بچوں کو بچوں پناہ دی۔ اسی طرح قصبوں کے فرانسیسی لوگوں نے لی چہمبون۔ سر۔ لِگنون کے اطراف میں ھزارون لوگوں کو پناہ فراہم کی۔ البانیہ اور یوگوسلاویہ میں کچھ مسلمان خاندانوں نے یہودی نوجوانوں کو چھپائے رکھا۔

بچوں نے جلد ہی اپنے "اختیار کئے گئے" مذہب کی دعائيں اور دینی رسومات ادا کرنا سیکھ لیں تاکہ ان کے قریبی دوستوں تک کو ان کے یہودی ہونے کی خبر نہ ہوسکے۔ کئی یہودی بچوں کا بپتسمہ کرکے انہيں عیسائی بنایا گیا جاہے اس کیلئے ان کے والدین کی اجازت ہو یا نہ ہو۔

متعدد بچانے والے
بچانے والے کی تلاش کافی مشکل مرحلہ ہوتا تھا، خاص طور پر ایسے افراد جو کئی برسوں تک ان کی دیکھ بھال کرسکیں۔ چند افراد آزاردہی سے گزرنے والے خاندان کے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے پیسے لیکر بھی انہيں مدد فراہم کرنے کے وعدے سے مکر جاتے تھے اورپھروعدہ خلافی کرتے ہوئے اضافی انعام کے لالچ میں اُنہیں حکام کے حوالے کر دیتے تھے۔ زیادہ عام بات یہ تھی کہ نفسیاتی دباؤ، خوف اور مایوسی کی وجہ سے امداد فراہم کرنے والے یہودی بچوں کو اپنے گھروں سے نکال دیتے تھے۔

منظم گروہ اکثر بچوں اور اُن کے رضاعی والدین دونوں کے تحفظ کے لئے بچوں کو ایک خاندان یا ادارے سے دوسرے خاندان یا اداروں میں منتقل کرتے رہتے تھے۔ جرمن مقبوضہ نیدرلینڈ میں یہودی بچے اوسطاً چار سے زائد محتلف جگہوں میں رہے۔ کچھ بچوں نے ایک درجن سے زائد دفعہ چھپنے کی جگہیں تبدیل کیں۔

خاندان سے علیحدگی
چھپے ہوئے بچوں کی سب سے تکلیف دہ یادیں ان کے والدین اور بہن بھائیوں کی علیحدگی تھی۔ مختلف وجوہات کی بنا پر کئی یہودی بچے تنہا ہی چھپ گئے۔ ان وجوہات میں جگہ کا ناکافی ہونا، پناہ دینے والے کی طرف سے تمام خاندان کو پناہ دینے کی اہلیت نہ رکھنا یا اس کیلئے راضی نہ ہونا یا پھر والدین کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو گھیٹو یعنی یہودی بستی میں چھوڑ کر نہ جانے کا فیصلہ وغیرہ شامل تھے۔ مثال کے طور پر فرانس میں ای ایس ای یعنی بچوں کیلئے امدادی انجمن بچوں کو تو حراستی کیمپوں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی لیکن ان کے والدین کو نہيں نکال سکی۔

علیحدگی نے بچوں اور والدین دونوں کو ہی تباہ کر کے رکھ دیا۔ دونوں ایک دوسرے کی سلامتی کے بارے میں شدید طور پر پریشان رہے مگر اُن کے پاس اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے کا اکتیار ہی نہیں تھا۔ بچوں اور اُن کے والدین کو اکثر اپنا دکھ خاموشی سے پرداشت کرنا پڑتا تھا تاکہ دوسرے کو خطرہ پیش نہ ہو۔ بہت سے چھپے ہوئے بچوں کےلئے جنگ کے زمانے کی علیحدگی مستقل ثابت ہوئی۔

سلامتی
چھپائے گئے بچے کی سلامتی اور تحفظ کے لئے شدید رازداری کی ضرورت تھی۔ رضاعی خاندان کو اپنے گھروں میں نئے فرد کی آمد کے لئے لمبی چوڑی کہانیاں بنانی پڑتی تھیں اور بچوں کو کوئی دور دراز کا رشتہ دار، دوست یا بمباری میں بچ جانے والا فرد بتاتے۔ کانوینٹ اور یتیم خانے دستاویزات، اسکول کے دوستوں اور عملے سے بچوں کی یہودی شناخت چھپا کر رکھتے تھے۔ اُنہیں بچانے والے منظم گروہ اکثر بچوں کی جگہوں کو تبدیل کرتے رہتے اور اُنہیں پناہ دینے والوں کے بکڑے جانے سے بچنے کے لئے اپنے ریکارڈز کو خفیہ کوڈ میں لکھتے تھے۔ چند نیٹورکس میں والدین کو اپنے بچوں سے ملنے یا ان کی حالت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی اجازت نہيں دی جاتی تھی۔

بچے خود بھی سلامتی کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ ایسی صورت حال سے دور رہتے تھے جن میں ان کی اصلی شناخت سامنے آسکے۔ وہ اپنے جعلی ناموں اور مذہبوں پر برقرار رہتے اور ایسے کلمات یا عادات سے پرہیز کرتے تھے جن کی بنا پر اُنہیں یہودی یا غیرملکی سمجھا جاسکے۔

زیادتی
چھپائے جانے والے یہودی بچوں کو بچانے والے عام طور پر ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ لیکن تمام بچوں کے تجربات ایسے نہيں تھے۔ کیونکہ وہ مدد کے لئے مقامی حکام کے پاس نہيں جا سکتے تھے یا انہيں گھر سے باہر نکالے جانے کا ڈر تھا، چند بچوں کو اپنے محافظوں کی جانب سے جسمانی یا جنسی زیادتی برداشت کرنی پڑتی تھی۔ نیدرلینڈ میں کروائے جانے والے سروے کے مطابق جن بچوں سے انٹرویو لئے گئے اُن میں سے 80 فیصد بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا، 15فیصد کے ساتھ کبھی کبھار برا سلوک کیا گیا اور 5 فیصد کے قریب افراد کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گيا۔