"یہ لڑکے اور لڑکیاں ہماری تنظیم میں دس سال کی عمر میں داخل ہوئیں اور اکثر نے پہلی بار تازہ ہوا میں سانس لیا؛ نوعمری میں چار سال تک تربیت کے بعد وہ ہٹلر یوتھ میں شامل ہون گے، جہاں وہ اگلے چار سال تک ہمارے ساتھ رہیں گے۔ . . اور اگر وہ ابھی بھی مکمل طور پر قومی اشتراکیت پسند نہیں بن پاتے تو وہ لیبر سروس میں جائیں گے اور اگلے چھ سات ماہ تک انہیں سیدھا کیا جاتا ہے۔ . . اوراگر اس کے بعد بھی درجے یا سماجی رتبے کے حوالے سے بیداری میں کمی رہ جاتی ہے۔ . . تو وھرماٹ [جرمنی کی مسلح افواج] اس معاملے کو دیکھ لے گی۔"
— ایڈولف ہٹلر (1938)

1920 کے بعد سے نازی پارٹی نے جرمن نوجوانوں کو اپنے پروپیگنڈا پیغامات کے خصوصی سامع کے طور پر نشانے پر رکھا۔ ان پیغامات میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ پارٹی ایسے نوجوانوں کی ایک تحریک ہے: جو متحرک، لچک پذیر، دور اندیش اور پرامید ہیں۔ لاکھوں جرمن نوجوانوں کو کلاس روم میں اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعہ نازی ازم کی طرف مائل کیا گیا۔ جنوری 1933 میں، ہٹلر یوتھ کے صرف 50,000 ممبران تھے، لیکن سال کے آخر تک یہ تعداد بڑھ کر 2 ملین سے زیادہ ہو گئی۔ 1939 میں اسے لازمی قرار دئے جانے سے قبل 1937 تک ہٹلر یوتھ کے ممبران کی تعداد بڑھ کر5.4 ملین ہو چکی تھی۔ پھر جرمن حکام نے نوجوانوں کی حریف تنظیموں کو ممنوع قرار دے دیا یا انہیں تحلیل کر دیا۔

نازی ریاست میں تعلیم

تیسرے ریخ میں تعلیم طلباء کو قومی اشتراکی دنیا کے نکتہ نظر سے تدریس فراہم کرنے پر مذکور تھی۔ نازی اسکالرز اور معلمین خود کو عظیم نارڈک یا دیگر "آریائی" نسل کا مانتے تھے، جبکہ حقیر یہودی اور دیگر مبینہ حقیر افراد خون چوسنے والے "حرامی النسل" تھے جن میں ثقافت یا تہذیب قائم کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ 1933 کے بعد نازی حکومت نے عوامی اسکولوں کے نظام کو ایسے اساتذہ سے پاک کر دیا جنہیں یہودی یا "سیاسی طور پر ناقابل اعتبار" سمجھا گیا۔ تاہم، زیادہ تر معلمین اپنے عہدوں پر برقرار رہے اور نیشنل سوشلسٹ ٹیچرز لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ تمام سرکاری اسکولوں کے 97% اساتذہ نے، جن کی تعداد لگ بھگ 300,000 تھی، 1936 میں لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ واقعتاً نازی پارٹی میں کسی دوسرے پیشے سے وابستہ لوگوں کے مقابلے میں اساتذہ نے سب سے زیادہ شرکت کی۔

کلاس روم اور ہٹلر یوتھ میں تدریس کا مقصد نسلی شعور، وفاداری، اور قربانی دینے والے ایسے جرمنوں کو تیار کرنا تھا جو فیوہرر اور آبائی وطن کیلئے جان دینے کو تیار ہوں۔ ہٹلر یوتھ ٹریننگ کا کلیدی عنصر ایڈولف ہٹلر کے نزدیک وفاداری تھی۔ جرمن نوجوانوں نے رکنیت کو متعارف کروانے کیلئے اس کی تاریخ پیدائش (20 اپریل) کو – قومی تعطیل – کے طور پر منایا۔ جرمن بچے ہٹلرکے لئے وفاداری کی قسم کھاتے تھے اور مستقبل کے سپاہی کے طور پر ملک اور اپنے لیڈر کی خدمت کرنے کا عہد کرتے تھے۔

نازیوں کے خیالات پھیلانے میں اسکولوں نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ جہاں سنسر نے کچھ کتابوں کو کلاس روم سے ہٹا دیا وہیں جرمن معلمین نے ایسی نئی درسی کتابوں کو متعارف کروایا جن میں طلباء کو ہٹلر سے محبت کرنے، ریاستی اقتدار کی فرمانبرداری کرنے، عسکریت پسندی، نسل پرستی، اور یہودیت کی مخالفت کا درس دیا گیا۔

اسکول کے پہلے دن سے ہی جرمن بچوں کو ایڈولف ہٹلر کے فرقے میں شامل کر لیا جاتا تھا۔ کلاس رومز میں اس کا مجسمہ ایک معیاری تنصیب کی حیثیت رکھتا تھا۔ درسی کتابوں میں اکثروبیشتر ایک ایسے بچے کی خوشی کو بیان کیا گیا تھا جس نے جرمن لیڈر کو پہلی بار دیکھا تھا۔

بورڈ گیمز اور بچوں کے کھلونے جرمن نوجوانوں میں نسلی اور سیاسی پروپیگنڈے کو پھیلانے کا ایک اور ذریعہ تھا۔ بچوں کو عسکریت پسندی کی تعلیم دینے کیلئے کھلونوں کو بھی پروپیگنڈے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

نوجوانوں کی تنظیم

ہٹلر یوتھ اور لیگ آف جرمن گرلز ایسے ابتدائی ذرائع تھے جن کا استعمال نازیوں نے جرمن نوجوانوں کے عقائد، خیالات اور کارروائیوں کو متشکل کرنے میں کیا۔ نوجوان لیڈروں نے سختی سے منضبط اجتماعی سرگرمیوں اور اسٹیج پر پیش کئے جانے والے پروپیگنڈا پروگراموں، جیسے تقریبات اور ڈسپلے کے ساتھ بڑی ریلیوں کا استعمال ایک قومی برادری کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کیا اوران سبھی طبقات اور مذہبی فرقوں تک رسائی حاصل کی جو 1933 سے قبل جرمنی کی شناخت ہوا کرتے تھے۔

1926 میں قائم کردہ ہٹلر یوتھ کا اصل مقصد لڑکوں کو ایس اے (اسٹورم ٹروپرز) میں شریک ہونے کیلئے تربیت دینا تھا، جو نازی پارٹی کا نیم فوجی دستہ تھا۔ تاہم 1933 کے بعد نوجوانوں کے قائدین نے لڑکوں کو نازی قومی برادری میں شامل کرنا اور انہیں مسلح افواج میں بطور فوجی یا بعد میں ایس ایس میں خدمات انجام دینے کیلئے تیار کرنے لگے۔

1936 میں نازی یوتھ گروپ کی رکنیت دس اور سترہ سال کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے لازمی کر دی گئی۔ نازی پارٹی کے مظابق وفاداری اور قوم پرست اشتراکی ریاست کے مستقبل کا قائد بننے کیلئے ہٹلر یوتھ اور لیگ آف جرمن گرلز کی سرپرستی میں ہونے والی اسکول کے بعد کی میٹنگوں اور اختتام ہفتہ کی تفریحی کیمپنگ کے ذریعہ بچوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ ستمبر 1939 تک 765,000 نوجوانوں نے نازی تنظیم برائے نوجوانان میں قیادت کی ذمہ داریاں انجام دیں جس نے انہیں فوج اور جرمن قبضے والے علاقوں میں نوکرشاہی کی ایسی ہی ذمہ داریوں کیلئے تیار کیا۔

ہٹلر یوتھ نے کھیلوں اور بیرونی سرگرمیوں کو اپنے تصورات کے مطابق یکجا کر دیا۔ اسی طرح لیگ آف جرمن گرلز نے اجتماعی کھیل کود جیسے سلسلے وار جمناسٹکس پر زور دیا جسے جرمنی کے صحت سے متعلق حکام نے عورتوں کے جسم کیلئے کم دباؤ والا مانا اور وہ انہیں ماں بننے کیلئے بہتر طور پر تیار بھی کرتا تھا۔ ان اقدار کی عوامی نمائش سے نوجوان مردوں اور خواتین کو آریوں کے اجتماعی نشانوں کے مقابلے اپنی انفرادیت کو ختم کرنے کی ترغیب دی۔

فوجی خدمت

اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد لڑکوں کیلئے مسلح افواج یا ریخ لیبر سروس میں اپنا اندراج کروانا ہوتا تھا جس کیلئے ہٹلر یوتھ میں کی جانے والی سرگرمیوں کے ذریعہ انہیں تیار کیا گیا تھا۔ پروپیگنڈا کے مواد نازی خیالات کے کے حوالے سے اور زیادہ گہری وفاداری کی ترغیب دیتے تھے جبکہ جرمن فوجیں شکست پر شکست کھا رہی تھیں۔

1944 کے موسم خزاں میں جب اتحادی فوجیوں نے جرمنی کی سرحد پار کی تو نازی حکومت نے سولہ سال سے کم عمر کے جرمن جوانوں کو ریخ کے دفاع کیلئے ساتھ ہی 60 سال سے زیادہ کی عمر کے لوگوں کو"وولکسٹرم" (لوگوں کے قتل عام) والے یونٹ میں بھرتی کرنا شروع کیا۔

مئی 1945 میں مسلح جرمن افواج کے بلاشرط ہتھیار ڈال دینے کے بعد بھی کچھ جرمن لڑکوں نے گوریلا جماعت بنا کر جنگ جاری رکھی جسے (ویئروولوس) کہا جاتا تھا۔ اگلے سال اتحادی قبضے والے اقتدار نے نوجوان جرمنوں کو "نازی ازم سے پاکی" کے عمل اور جمہوریت کی تربیت میں شرکت کرنے کیلئے کہا جسے بارہ سالہ نازی پروپیگنڈا کے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا گیا تھا۔