یہودی بستیوں اور کیمپوں سے فرار ہونے والے کچھہودیوں نے اپنے لڑاکا یونٹس قائم کئے تھے۔ اِن لڑنے والے افراد کو حامی کہا جاتا تھا اور وہ گھنے جنگلوں میں رہتے تھے۔ مقبوضہ سوویت یونین کے علاقے میں حامیوں کا ایک بڑا گروہ لیتھوینیا کے دارالحکومت ولنا کے قریب واقع ایک جنگل میں جا چھپا۔ وہ سینکڑوں ریل گاڑیوں کو پٹری پر سے اتارنے اور تین ہزار سے زائد جرمن فوجیوں کو مارنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

جنگل میں رہنے والے حامیوں کی زندگی بہت کٹھن تھی۔ انہيں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہنا پڑتا تھا تاکہ کوئی انہيں تلاش نہ کرسکے۔ کھانے کے لئے کسانوں کے کھانوں پر چھاپا مارنا پڑتا تھا اور لکڑیوں اور درخت کی شاخوں سے بنی ہوئی کمزور سی پناہ گاہوں میں سردی کا موسم کاٹنا ہوتا تھا۔ کچھ جگہوں پر حامیوں کو گاؤں میں رہنے والوں سے مدد مل جاتی تھی، لیکن زیادہ تر ایسا ممکن نہ ہوتا تھا۔ اس کی ایک وجہ سام دشمنی تھی اور دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ لوگ سزا سے ڈرتے تھے۔ ان حامیوں کو ہمیشہ ہی یہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ مخبر جرمنوں کو ان کی خبر دے دیں گے۔

کئی یہودیوں نے باقاعدہ حلیفوں کو جرمن قوتوں کو شکست دینے کے لئے فرانس اور اٹلی میں قائم کئے جانے والے حامیوں کے یونٹس میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے جعلی دستاویزات اور شناختی کارڈ بنوائے، نازی مخالف کتابچے چھاپے اور دشمنوں سے تعاون کرنے والوں کو قتل کردیا۔

ہنگری سے 1939 میں فلسطین ہجرت کرنے والی تئیس سالہ یہودی ہینا سینیش ان بتیس فلسطینی چھاتہ برداروں میں سے ایک تھی جنہيں برطانوی فوجیوں نے مزاحمت اور بچاؤ کی کوششوں کو منظم کرنے کے لئے جرمن صفوں کے پیچھے چھوڑا تھا۔ 7 جون 1944 کو ہنگری کی سرحد پار کرنے سے قبل ہنگری کے یہودیوں کو قتل کے مراکز سے متعلق خبردار کرنے کے لئے سینیس نے، جو ایک شاعرہ تھی، اپنے ایک ساتھی کو ایک نظم لکھ کردی: اس کے آخری مصرعے یہ تھے: "وہ دل طاقت سے مالامال ہے جو عزت کی خاطر دھڑکنا چھوڑ دے۔ وہ ماچس مقدس ہے جو بھڑکی آگ میں بھسم ہوجائے" سینیش کو اگلے دن گرفتار کرکے ہنگری سے غداری کرنے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔

اہم تواریخ

20 جولائی 1941
منسک میں یہودی بستی قائم کرنے کا اعلان، مزاحمت شروع

20 جولائی 1941 کو جرمنوں نے منسک میں یہودی بستی قائم کرنے کا حکم جاری کردیا. یہودی بستی کے قائم ہونے کے کچھ دنوں کے اندر ہی ہزاروں یہودی مارے گئے۔ یہودی بستی کے یہودیوں نے اگست 1941 میں ایک خفیہ مزاحمتی نیٹ ورک تشکیل دیا۔ خفیہ مزاحمتی تحریک کے ممبران نے یہودی بستی میں رہنے والوں کو معلومات کی فراہمی کے لئے پرنٹنگ پریس قائم کیا اور اخبار جاری کیا۔ خفیہ تحریک نے یہودی بستی کے یہودیوں کے لئے پناہ گاہیں تلاش کرنے کے لئے یہودی بستی کے باہر حلیفوں کے یونٹس سے بھی رابطہ قائم رکھا۔ مارچ 1942 میں منسک کی یہودی بستی میں کارروائی کے دوران ہزاروں افراد مارے گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد خفیہ مزاحمتی تحریک کے ممبران یہودی بستی چھوڑ کر جنگلوں میں منتقل ہوتے گئے، جہاں انہوں نے حلیفوں کے یونٹ قائم کرکے جرمنوں کے خلاف لڑائی شروع کی۔ جنگلوں میں چھپے ہوئے حلیفوں نے یہودیوں کو یہودی بستیوں نے نکال کر جنگلوں میں لانے کا انتظام کیا، جہاں حلیفوں کے اڈے قائم تھے۔ 1944 تک منسک کی یہودی بستی سے تقریباً دس ہزار یہودی فرار ہو کر جنگلوں میں جا چھپے- کوشش میں کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

جنوری 1942
فرانس میں یہودی فوج

ٹولوس، فرانس میں صیہونی نوجوانوں کے گروپوں نے یہودی فوج (آرمی جوئوے؛ اے جے) قائم کی۔ اے جے فرانس بھر میں فعال تھی لیکن جنوبی علاقہ جات میں خاص طور پر سرگرم تھی۔ اراکین کو یہودی اور غیریہودی نوجوانوں اور مزاحمتی گروہوں سے بھرتی کیا گیا اور انہيں فوجی اور تخریب کار کارروائیوں میں تربیت دی گئی۔ اے جے کے اراکین یہودی ریلیف تنظيموں کے لئے سوٹزرلینڈ سے خفیہ طور پر فرانس رقم بھی لے جاتے تھے۔ اس رقم سے ہزاروں چھپے ہوئے یہودیوں کی مدد کی گئی۔ اے جے نے جرمنوں کے ساتھ تعاون کرنے والے کچھ افراد کو ہلاک کردیا اور تقریباً پانچ سو یہودیوں اور غیریہودیوں کو خفیہ طور پر سرحد پار کرکے غیرجانبدار اسپین لے گئے۔ 1943 اور 1944 میں اے جے نے اتحادی قوتوں کے ساتھ قریبی رابطے استوار کئے۔ ان میں جنرل چارلس ڈی گال کی فری فرینچ آف دی انٹیرئر (ایف ایف آئی) بھی شامل تھی۔ 1944 میں فرانس کی آزادی کے دوران اے جے نے جرمن قبضے کے خلاف پیرس، لیون اور تولوس میں بغاوتوں میں بھی حصہ لیا۔

21 جنوری 1942
ویلنا میں متحدہ حلیفوں کی تنظیم

ویلنا کے باہر پونری کے مقام پر یہودیوں کے اجتماعی قتل کی اطلاعات کے بعد، صیہونی نوجوانوں کی تحریک کے اراکین نے ویلنا کی یہودی بستی میں متحدہ حلیفوں کی تنظیم (فارینیگٹے پارٹیزنر آرگنائزیٹسیے، ایف پی او) قائم کی۔ اس تنظیم نے یہودی بستی کی تباہ کاری کی دھمکی کی صورت میں جرمنوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی تیاری کی اور ہتھیار حاصل کرنے اور مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے دوسری یہودی بستیوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ ستمبر 1943 کے شروع میں جرمنوں نے یہودی بستی سے یہودیوں کی جلاوطنی شروع کردی اور انہيں ایف پی او کے ممبران کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایف پی او نے یہودی بستی چھوڑ کر قریبی جنگلات میں جاکر جرمنوں کا باہر سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مزاحمتی جنگجوؤں کا آخری گروہ 23 ستمبر 1943 کو یہودی بستی کی آخری تباہ کاری سے بچ نکلا۔ وہ نالوں سے نکل کر یہودی بستی سے نکلے اور رڈننکائی اور ناروچ کے جنگلوں میں حلیفوں کے ساتھ شریک ہوگئے۔