شمالی افریقہ کے یہودی نسبتاً خوش قسمت تھے کیونکہ وسطی اور مشرقی یورپ میں واقع جرمن حراستی کیمپوں سے اُن کے فاصلے نے یورپ میں اُن کے ہم مذہب افراد کے انجام سے بچنے کا موقع فراہم کیا۔ وہ اِس لئے بھی خوش قسمت تھے کہ اُنہیں جرمن حکمرانی کے تحت رہنا نہیں پڑا۔ جرمنوں نے مراکش یا الجزائر پر کبھی قبضہ نہیں کیا۔ اگرچہ وہ اتحادیوں کے تیونس اور الجزائر پہنچنے کے بعد نومبر 1942 سے مئی 1943 تک تیونس پر کچھ دیر کیلئے قابض رہے، جرمنوں کے پاس اِس بات کا نہ تو وقت تھا اور نہ ہی وسائل کہ وہ تیونس کے یہودیوں کو یورپ میں اُن کے براہ راست زیر قبضہ دوسرے علاقوں میں روا رکھے جانے والے منظم ظلم و جبر کے اقدامات کا حصہ بنا سکیں۔

بہرحال جنگ سے قبل مقامی یورپی یہود دشمنوں اور مقامی مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں اور اُن کی املاک پر کئے گئے حملوں کو وکی حکام نے تینوں ملکوں یعنی مراکش، الجزائر اور تیونس میں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھا۔

دوسری عالمی جنگ سے پہلے بھی فرانسیسی حکومت نے فرینچ پائرینیز علاقے میں حراستی کیمپ قائم کئے تھے جن میں ہسپانیہ میں اُن رپبلکنز کو رکھا گیا تھا جو ہسپانوی خانہ جنگی کے دوران فرانکو کے فاشسٹ باغیوں کے خلاف لڑے تھے۔ یہاں اُن لوگوں کو بھی قید رکھا گیا جن کے بارے میں یا تو سیاسی جرائم کا شبہ تھا یا اُنہیں اِس حوالے سے سزا ہوئی تھی۔ علاوہ اذیں وہ یہودی پناہ گذیں بھی اِن حراستی کیمپوں میں رکھے گئے تھے جنہوں نے فرانس میں نازی جرمنی کے مظالم سے بچنے کیلئے پناہ کی درخواست کی تھی۔

جرمنی کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے جانے کے بعد وکی حکام نے یہودیوں سمیت اُن غیر ملکیوں کو الجزائر اور مراکش میں کیمپوں میں کام کرنے کیلئے بھیج دیا جو 1940 میں فرانسیسی فوج کی طرف سے جرمنوں کے خلاف رضاکارانہ طور پر لڑے تھے۔ وہاں پہنچنے پر یہودی پناہ گزینوں کو مقامی یہودی کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ جائینٹ ڈسٹری بیوشن کمیٹی اور یہودیوں کی ایک بین الاقوامی امیگریشن تنظیم HICEM کی طرف سے امداد فراہم کی گئی۔ اِن تنظیموں نے پناہ گزینوں کیلئے ویزا حاصل کرنے اور امریکہ جانے کیلئے سفری دستاویزات حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔

وکی انتظامیہ نے دیگر یہودی پناہ گزینوں کو جنوبی مراکش اور الجزائر میں پین سہارن ریل روڈ لائن پر جبری مشقت کیلئے بھیج دیا۔ وہاں تقریباً تیس کیمپ تھے جن میں مراکش کے ہڈجیرت میگوئل اور باؤارفا کیمپ اور اجزائر کے بیرو اغیا، جیلفا اور بیداؤ کیمپ شامل ہیں۔ ریل روڈ پر کام کرنے والے اِن 4,000 سے زائد یہودی جبری مزدوروں کو انتہائی تکلیف دہ حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

اتحادی ستمبر 1942 سے شمالی افریقہ میں دوسرا محاذ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے تھے۔ آپریشن ٹارچ نے جنرل ڈوائیٹ ڈی۔ آئزن ھاور کی زیر کمان برطانوی اور امریکی افواج سے کہا کہ وہ الجزائر اور مراکش کے ساحلوں پر اُتریں اور کیسا بلانکا، اورن اور الجزائر پر قبضہ کر لیں۔ چونکہ امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ چاہتے تھے کہ وکی انتظامیہ اپنی وفاداری تبدیل کر لے اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر جرمنی اور اٹلی کے ساتھ لڑے، اُنہوں نے جنرل چارلس ڈی گال کے ماتحت آزاد فرینچ افواج کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کی۔ 8 نومبر کو اتحادی افواج کامیابی کے ساتھ الجزائر اور مراکش میں اتر گئیں اور آغاز میں وکی افواج کی طرف سے شدید مزاحمت کے بعد 11 نومبر کو کیسا بلانکا میں داخل ہو گئیں۔

الجزائر میں زیر زمین مزاحمتی قوتوں نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور وہ فرانس کی 19 ویں کور کو بے اثر کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ الجیریہ میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کارروائی کی قیادت یہودی برنارڈ کارسینٹی اور ڈاکٹر ھوزے ابوالکر کے ساتھ ساتھ نمایاں وکی نواز "پانچ ارکان کی کمیٹی" نے کی جو جرمنوں کی مخالف تھی۔ بغاوت میں شامل 377 ارکان میں سے 315 یہودی تھے۔ اگرچہ امریکی حکام نے مزاحمتی گروپ کو ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، یہ ہتھیار کبھی نہ پہنچائے گئے۔ روزویلٹ کے احکام پر امریکی اہلکاروں نے شمالی افریقہ میں وکی ھائی کمشنر ایڈمرل یاں فرانسوا ڈارلن کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے کیا جس کی رو سے 10 - 11 نومبر 1942 کو اتحادیوں کے وہاں پہنچنے کے حوالے سے وکی مزاحمت کی مخالفت ختم ہو گئی۔ اِس سمجھوتے کیلئے شمالی افریقہ میں گولسٹ مزاحمت کے راہنماؤں کی قربانی دے دی گئی جو اقتدار حاصل نہ کر سکے۔

اتحادیوں کے الجزائر اور مراکش پہنچنے کے فوراً بعد جرمنوں نے تیونس پر قبضہ کر لیا۔ 23 نومبر 1942 کو جرمنوں نے تیونس یہودی برادری کے صدر موئیزز برگل اور دیگر کئی نمایاں یہودی شخصیات کو گرفتار کر لیا۔ تیونس کے یہودیوں پر جرمنوں کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت یہودیوں سے ہمدردانہ رویہ رکھنے والے وکی ریذیڈنٹ جنرل ایڈمرل ایستیوا، تیونس کے میئر شیخ المدینہ عیزیز جلالی اور اُن اطالوی لوگوں کی طرف سے سامنے آئی جنہوں نے مطالبہ کیا کہ تیونس کے یہودیوں کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدامات سے ایسے یہودیوں کو مستثنٰی رکھا جائے جو اطالوی شہریت رکھتے ہوں۔

دسمبر کے آغاز میں جرمنوں نے برگل اور چیف ربی ھائم بیلاخ سے مطالبہ کیا کہ وہ یہودی برادری کے تمام اداروں کو ختم کر دیں۔ اُنہوں نے چیف ربی کو حکم دیا کہ وہ حلیف فوجوں کیلئے جبری مزدور فراہم کریں۔ اُس وقت تک جرمنوں نے وکی اہلکاروں اور تیونس کے حکام کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ جرمنی کے یہودیوں سے برتاؤ کے سلسلے میں مذید مداخلت نہیں کر سکیں گے۔ دو روز بعد یہودی راہنماؤں نے 2,500 یہودیوں کی فہرست جرمنوں کے حوالے کر دی مگر اُن میں سے صرف 128 ہی مشقت کیلئے حاضر ہوئے۔ جرمنوں نے یہودیوں بستیوں میں چھاپے مارنے شروع کر دئے اور یوں گرفتار شدہ یہودیوں کو شہر کے قریب واقع چیلس کیمپ میں بھجوا دیا۔ اُسی وقت ایس ایس نے تیونس کمیونٹی کے صدر دفتر سے ایک سو نمایاں یہودی شخصیات کو گرفتار کر لیا تاکہ اُنہیں جبری مشقت کیلئے یہودی افراد فراہم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

تیونس کے تقریباً 5,000 یہودی مردوں کو 40 کے لگ بھگ حراستی کیمپوں اور اگلی صفوں کے قریب واقع جبری مشقت کے مقامات کیلئے زبردستی بھرتی کیا گیا۔ یہ کیمپ جرمن اور اطالوی حکام دونوں ہی چلا رہے تھے جن میں سب سے اہم بیزرٹے کی فوجی بندرگاہ تھی جو جرمنوں کے کنٹرول میں تھی۔ کیمپوں کے اندر ماحول انتہائی ناگفتہ بہ تھا خاص طور پر اُن کیمپوں میں جو جرمن چلا رہے تھے۔ نمایاں یہودی شخصیات نے کیمپوں میں موجود یہودیوں کے حالات بہتر بنانے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دیں جنہوں نے قیدیوں کو بیمار قرار دے کر اُنہیں فرار ہونے میں مدد دی۔ یہ کام آہستہ آہستہ سہل ہوتا گیا کیونکہ جب تیونس پر حلیف قوتوں کی گرفت کمزور ہوتی گئی تو کیمپوں کے اندر کا نظم و نسق بھی کمزور ہو گیا۔

اتحادی افواج کی جانب سے 1943 کے موسم بہار میں ہونے والے زمینی اور فضائی حملوں کی وجہ سے بدحال ہونے کے باوجود جرمنوں نے تیونس کے یہودیوں پر ظلم و ستم جاری رکھا۔ مثال کے طور پر اتحادی افواج کی بمباری کے نتیجے میں مرنے والے شہریوں کے بدلے میں جرمنوں نے تیونس کی یہودی برادری پر جرمانے عائد کرنے شروع کر دئے۔ مارچ 1943 میں دائیں بازو کے فرانسیسی یہود دشمن نوآبادیاتی حکام نے یہودیوں کے گھروں اور دوکانوں کو لوٹا اور وکی مخاف مزاحمتی تحریک کے 20 ارکان کو جرمنوں کے حوالے کر دیا۔ اِن میں کچھ یہودی تھے۔ اِن گرفتار کئے گئے افراد کو جرمنوں نے یورپ میں موجود حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا۔

سارہ سسمان

اسٹین فورڈ یونیورسٹی