نازی کیمپ کا نظام نازی ریاست کے سیاسی مخالفین کی روک تھام کے نظام کے طور پر شروع ہوا۔ تیسری رائخ کے شروع کے چند سالوں میں نازيوں نے بنیادی طور پر کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو حراست میں لیا تھا۔ 1935 کے قریب حکومت نے ایسے افراد کو بھی گرفتار کرنا شروع کیا جنہيں وہ نسلی یا حیاتیاتی طور پر کمتر سمجھتے تھے، خاص طور پر یہودی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی کیمپ کے نظام کی تنظیم اور وسعت تیزی سے بڑھتی چلی گئی اور کیمپوں کا مقصد، جو پہلے صرف گرفتاری تک محدود تھا، اب جبری مزدوری اور کھلم کھلا قتل عام بن گیا تھا۔

جرمنی کے مقبوضہ یورپ بھر میں جرمنوں نے اپنے غلبے کی مخالفت کرنے والوں کو اور ان افراد کو بھی گرفتار کیا جنہيں وہ نسلی طور پر کم تر یا سیاسی طور پر ناقابل قبول سمجھتے تھے۔ جرمن حکومت کی مخالفت کی وجہ سے گرفتار ہونے والے افراد کو زيادہ تر جبری مشقت کیلئے یا حراستی کیمپ میں بھیجا جاتا تھا۔ جنگ کی وجہ سے کیمپوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ تین سال کے اندر قیدیوں کی تعداد، جو جنگ سے پہلے تقریباً 25 ہزار تھی، چار گناہ بڑھ گئی اور مارچ 1942 میں تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ کیمپ کے قیدیوں میں تقریباً تمام یورپی ممالک کے قیدی شامل تھے۔ تمام حراستی کیمپوں کے قیدیوں کو کام لے لے کر ماردیا جاتا تھا۔ ایس ایس رپورٹوں کے مطابق جنوری 1945 میں حراستی کیمپوں میں سات لاکھ سے زائد رجسٹرشدہ قیدی تھے۔

جرمنوں نے مقبوضہ یورپ کے ہر کونے سے یہودیوں کو پولینڈ کے حراستی کیمپ میں جلاوطن کردیا جہاں انہيں باقاعدہ طریقے سے قتل کردیا جاتا تھا اور انہيں حراستی کیمپ بھی بھیجا گیا جہاں انہیں جبری مشقت کے لئے بھرتی کرلیا جاتا تھا- جسے "کام کے ذریعے ہلاکت" بھی کہا جاتا تھا۔ لاکھوں روما (خانہ بدوشوں) اور سوویت جنگی قیدیوں کو بھی منظم طریقے سے قتل کردیا گيا۔

اہم تواریخ

3 ستمبر 1939
شکست خوردہ افراد کو جلاوطن کرکے حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیا

دوسری جنگ عظيم کے آغاز کے تین بعد، سیکورٹی سروس (ایس ڈی) کے کمانڈر رائنہارڈ ہیڈرچ نے جنگ میں جرمنی کی فتح کے متعلق یا لڑی جانے والی جنگ کی نوعیت کے متعلق شک کا اظہار کرنے والے افراد کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ جیسے جیسے جنگ آگے بڑھتی گئی، لوگوں کی گرفتاریاں بھی بڑھتی رہيں۔ کئی افراد کو بغیر کسی مقدمے کے جلاوطن کرکے حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گيا۔

7 دسمبر 1941
ہٹلر نے "رات اور دھند" کی پالیسی کا اعلان کردیا

ایڈولف ہٹلر کے حکم کے تحت، جرمن فوج کی اعلی انتظامیہ کے سربراہ ولہلم کیٹل نے "رات اور دھند" کا فرمان جاری کردیا۔ مقبوضہ علاقہ جات میں جرمن حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو جرمنی میں موجود حراستی کیمپوں میں جلاوطن کیا جانا تھا۔ گرفتار کرنے والے افراد "رات اور دھند" میں غائب ہی ہوگئے۔ ان کے رشتہ داروں کو مطلع نہیں کیا گيا۔ اس فرمان کے ضوابط کے تحت، تقریبا سات ہزار افراد کو گرفتار کیا گيا جن ميں زیادہ تر فرانسیسی افراد شامل تھے۔ زیادہ تر کو گراس۔ روزن اور نیٹزوائلر۔ شٹرٹ ھوف حراستی کیمپوں میں جلاوطن کردیا گيا۔

18 ستمبر 1942
قیدیوں کو "کام کے ذریعے ختم کر دیا گیا"

وزارت انصاف اور ایس ایس نے قیدیوں کو ایس ایس کے دائرہ اختیار میں باقاعدہ طور پر منتقل کرنے پر اتفاق کر لیا۔ وزارت انصاف نے اتفاق کیا کہ تین سال سے زیادہ کی سزا پانے والے یہودی، روما (خانہ بدوش)، یوکرینی اور پولش لوگ، اور آٹھ سال سے زیادہ کی سزا پانے والے چیک اور جرمن ایس ایس کے دائرہ اختیار میں ہوں گے۔ ان زمروں میں قیدیوں پر "کام کے ذریعے خاتمے" کا اطلاق کیا گيا، انہیں حراستی کیمپوں میں مشقت کے ذریعے ماردیا گيا۔