ستمبر 1939 میں جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا توجرمن فوجیوں اور اُن کے حلیفوں کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے یہودی بچوں کی تعداد تقریباً 16 لاکھ تھی۔ جب مئی 1945 میں یورپ میں جنگ ختم ہوئی تو 10 لاکھ سے زائد یا پھر 15 لاکھ یہودی بچے ہلاک ہو چکے تھے۔ وہ نازیوں کی منصوبہ بندی کے تحت کی گئی پوگرام نسلی قتل و غارتگری میں شکار بنے۔ جیسا کہ وارسا گھیٹو کے مؤرخ امینیل رنگل بلوم نے 1942 میں تحریر کیا "انتہائی وحشیانہ وقتوں میں بھی شدید ظالم اور جابر دل کے اندر انسانیت کی رمق نظر آتی اور بچوں کی جان بخشی جاتی۔ لیکن ھٹلر وحشی بہت مختلف ہے۔ یہ ہماری عزیز ترین ہستیوں کو نگل جائے گا۔ اُن کو جو ہمارے اندر انتہائی نرمی پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے معصوم بچے۔"

ہالوکاسٹ سے بچ جانے والے یہودی بچوں کے دکھ اور مصائب نازی ظلم و ستم سے رہا ہونے کے بعد بھی ختم نہ ہوئے۔ بیشتر کو اپنی زندگی والدین، نانا نانی یا دادا دادی یا پھر بھائی بہنوں سے محروم رہتے ہی گزارنا پڑی۔

ظلم و ستم
جرمنی میں یہودیوں پر نازی ظلم و ستم کا آغاز 1933 میں ہوا۔ 1939 تک ملک کے یہودیوں کو منظم انداز میں شہری حقوق اور جائیداد و املاک سے محروم کر دیا گیا۔ 1939 کے بعد یورپ میں جرمن فتوحات کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں میں یہود مخالف پالیسیوں پر عمل درآمد شروع ہوا۔ اگرچہ ہر ملک میں جبر کی شدت اور رفتار مختلف تھی لیکن یہودیوں سے امتیاز برتتے ہوئے اُنہیں الگ تھلگ کر دیا گیا۔

مشرقی یورپ میں نازیوں نے عام طور پر یہودیوں کو بستیوں میں ڈال کر الگ کردیا۔ یہ گھیٹو یا یہودی بستیاں قصبے یا شہر کے انتہائی ویران حصوں میں قائم کی گئیں۔ مغربی یورپ میں حراستی کیمپ تھے جن میں سے بیشتر میں پہلے تو پناہ گزینوں اور دشمنوں کو رکھا جاتا تھا۔ اب یہ یہودیوں کے حراستی مراکز کے طور پر استعمال ہونے لگے۔ علٰحدگی کی ایسی پالیسیوں سے نازیوں کو مدد ملی جب اُنہوں نے ان قتل گاہوں میں وسیع پیمانے پر جلا وطنی شروع کی۔

موت
1941 میں ھٹلر نے یہودیوں کے وسیع پیمانے پر منظم قتل عام پر عمدرآمد کا فیصلہ کیا۔ جون 1941 ميں گشتی قاتل دستے جرمن فوج کے ساتھ ساتھ سویت یونین میں داخل ہوئے اور اُس برس کے اختتام تک تقریباً 10 لاکھ یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اُس برس دسمبر میں چیلمنو قتل گاہ میں کام شروع ہوا۔ 1942 کے دوران نازیوں نے یورپ کے یہودیوں کو گیس کی بھٹیوں میں ہلاک کرنے کیلئے 5 مزید موت کیمپ قائم کئے۔

تمام یہودیوں کو موت کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن بچوں میں موت کی شرح خاص طور پر زیادہ رہی۔ یورپ میں جنگ سے قبل یہودی بچوں کی جو تعداد موجود تھی اُس میں سے صرف 6 سے 11 فیصد تک بچے زندہ بچ سکے جبکہ بالغوں کے زندہ بچ نکلنے کی شرح 33 فیصد تھی۔ بچوں کو عام طور پر جبری مشقت کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور نازیوں نے "بچوں سے متعلق کارروائیاں" شروع کیں جن کا مقصد یہودی بستیوں سے "محض کھانے والے بے کار افراد" کی تعداد کو کم کرنا تھا۔ کیمپوں میں بچوں، عمررسیدہ افراد اور حاملہ عورتوں کو اُن کی آمد کے فوراً بعد گیس کی بھٹیوں میں باقاعدگی سے جھونک دیا جاتا تھا۔

آزادی
نازی جرمنی کی شکست کے بعد دنیا کو ہالوکاسٹ میں انسانی جانوں کے انتہائی ضیاع کے بارے میں معلوم ہوا۔ بہت کم یہودی بچے زندہ بچ نکل سکے۔ یورپ بھر میں قتل گاہوں اور جبری مزدوری کے کیمپوں میں منظم قتل عام، بدسلوکی، بیماری اور طبی تجربات میں بیشتر جانیں ضائع ہو گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2 لاکھ 16 ھزار بچوں کو آش وٹز بھیجا گیا۔ اِن میں سے صرف 6700 نوعمر بچوں کو جبری مزدوری کیلئے منتخب کیا گیا اور تقریباً تمام دوسرے بچے براہ راست گیس کی بھٹیون میں ڈال دئے گئے۔ 27 جنوری 1945 کو جب کیمپ آزاد کرایا گیا تو سوویت فوجیوں کو 9 ھزار قیدیوں میں صرف 451 یہودی بچے ملے۔

آزادی کے بعد جلد ہی یورپ بھر میں یہودی اداروں نے بچ جانے والوں کی تلاش شروع کی اور نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش شروع کر دی۔ کچھ اور ملکوں میں شاید تقریباً 9 ھزار یہودی بچے زندہ بچ سکے۔ پولینڈ میں 1939 میں تقریباً 10 لاکھ بچوں میں سے صرف تقریباً 5 ھزار زندہ بچے۔ اِن نوجوانوں میں سے بیشتر چھپ کر زندہ رہے۔