اہم حقائق

1936 کے سرمائی اولمپک کھیلوں کا افتتاح 

سن 2016 برلن جرمنی میں 1936 میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں کی 80 ویں سالگرہ کا سال ہے۔

نازی جرمنی نے 1936 کے اولمپک کھیلوں کو پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا۔ نازیوں نے اپنی حکومت کی یہود مخالف پالیسیوں کے ساتھ ساتھ جرمنی کی بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک نئے، مضبوط اور متحدہ جرمنی کا تشخص اجاگر کیا۔

اولمپک کھیلوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے میزبان ملک کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث اولمپکس کا بائکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔

اگرچہ بائکاٹ کی یہ مہم بالآخر ناکام ہو گئی، اس نے مستقبل میں اولمپکس کے میزبان ملکوں میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مہم چلانے کی مثال قائم کر دی۔

تعارف

اگست 1936 میں ایڈولف ہٹلر کی آمرانہ نازی حکومت نے موسم گرما کے اولمپک کھیلوں کا انعقاد کرتے ہوئے دو ہفتوں تک اپنی نسل پرستانہ اور عسکریت پسندانہ خصلت کو چھپائے رکھا۔ نازی حکومت نے اپنے یہود دشمن ایجنڈے اور توسیع پسندی کے منصوبوں کو مدھم رکھتے ہوئے اولمپک کھیلوں کو استعمال کیا اور بہت سے غیر ملکی شائقین اور صحافیوں کو یہ جتانے کی کوشش کی کہ جرمنی ایک پرامن اور بردبار ملک ہے۔

امریکہ اور مغربی جمہوریتوں نے 1936 کی اولمپک کھیلوں کے مجوزہ بائکاٹ کو مسترد کر دیا اور یوں اُنہوں نے اُس وقت کے کچھ مبصرین کے دعوے کے مطابق وہ موقع کھو دیا جس کی رو سے ہٹلر کو ظلم و ستم روکنے پر مجبور کیا جا سکتا اور نازی ظلم کے خلاف بین الاقوامی مزاحمت کو تقویت دی جا سکتی۔

اولمپک کھیلوں کے خاتمے کے ساتھ ہی جرمنی کی توسیع پسندانہ پالیسیاں اور یہودیوں کے علاوہ دیگر "ریاست کے دشمنوں" کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیاں تیز تر ہو گئیں جس کا نتیجہ دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کی شکل میں سامنے آیا۔

1936 کے موسم گرما کے اولمپک کھیل

بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے 1931 میں فیصلہ دیا کہ 1936 کے گرمائی اولمپک کھیل برلن میں منعقد ہوں گے۔ اولمپک کھیلوں کے انعقاد کیلئے برلن کے انتخاب کے ذریعے جرمنی کو دنیا بھر میں تنہا کر دئے جانے کی اُس کیفیت کا بھی خاتمہ ہو گیا جو پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد اُس کے حصے میں آئی تھی۔

دوبرس بعد نازی پارٹی کے لیڈر ایڈولف ہٹلر جرمنی کے چانسلر بن گئے اور اُنہوں نے جلد ہی ملک کی نازک جمہوریت کو ایک واحد پارٹی کی مطلق العنانیت میں تبدیل کر دیا جس نے یہودیوں، روما خانہ بدوشوں، تمام سیاسی مخالفوں اور دیگر افراد کا عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ نازیوں کے جرمن زندگی کے تمام پہلوؤں پر کنٹرول بڑھ کر کھیلوں تک محیط ہو گیا۔

1930 کی دہائی کے دوران جرمن اسپورٹس کی منظر کشی نے آریائی نسل کی فوقیت اور جسمانی طور پر زیادہ طاقتور ہونے کے دیو مالائی تصور کو فروغ دیا۔ مجسموں اور دیگر فنی نمونوں کے ذریعے جرمن فنکاروں نے کھلاڑیوں کے نمایاں پٹھوں اور آریائی چہروں کے خدوخال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ ایسے تصور سے اِس بات کا بھی اظہار ہوتا تھا کہ نازی حکومت فوجی خدمت کیلئے جسمانی موزونیت کی شرط کو اولیت دیتی تھی۔

جرمن کھیلوں سے اخراج

اپریل 1933 میں تمام تر جرمن ایتھلیٹک تنظیموں میں "صرف آریائی" کی پالیسی لاگو کر دی گئی۔ یہودی یا نیم یہودی اور رومانی خانہ بدوش جیسے "غیر آریائی" کھلاڑیوں کو منظم طریقے سے جرمن کھیلوں کی سہولتوں اور تنظیموں سے الگ کر دیا گیا۔ جرمن باکسنگ ایسوسی ایشن نے اپریل 1933 میں ایمیچیور چیمپین ایرک سیلگ کو خارج کر دیا کیونکہ وہ یہودی تھا۔ (سیلگ نے بعد میں اپنا باکسنگ کیریر امریکہ میں شروع کر دیا)۔ ایک اور یہودی کھلاڑی جرمنی کے ٹاپ رینکنگ ٹینس کھلاڑی ڈینیل پرین کو جرمنی کی ڈیوس کپ ٹیم سے خارج کر دیا گیا۔ عالمی معیار کے ہائی جمپر گریٹل برگ مین کو 1933 میں جرمن کلب سے اور پھر 1936 میں جرمن اولمپک ٹیم سے نکال دیا گیا۔

جرمن اسپورٹس کلبوں سے نکالے گئے یہودی کھلاڑیوں نے میکابی اور شیلڈ گروپ سمیت کھیلوں کی الگ یہودی تنظیموں اور عارضی بنیادوں پر تیار کی گئی سہولتوں کا رُخ کیا۔ لیکن کھیلوں کی یہ یہودی سہولتیں مالی طور پر مستحکم جرمن گروپوں کے مقابلے کی نہیں تھیں۔ سنتی باکسر جوہن روکیلی ٹرول مین سمیت روما (خانہ بدوش) کھلاڑیوں کو بھی جرمن کھیلوں سے خارج کر دیا گیا۔

برلن میں اولمپک کھیل

یہودی ایتھلیٹ

بین الاقوامی رائے عامہ کو قدرے نرم کرنے کی خاطر ایک برائے نام اقدام کے طور پر جرمن حکام نے ایک نیم یہودی فینسنگ کی کھلاڑی ہیلن مائر کو برلن میں منعقد ہونے والی اولپک کھیلوں میں جرمنی کی نمائیندگی کرنے کی اجازت دے دی۔ اُنہوں نے خواتین کی فینسنگ کے انفرادی مقابلوں میں نقرئی تمغہ جیت لیا اور میڈل جیتنے والے دیگر تمام کھلاڑیوں کی طرح اُنہوں نے پوڈیم پر نازی سلیوٹ بھی دیا۔ اولمپکس کے بعد مائر امریکہ چلی آئیں۔ جرمنی کیلئے کسی اور یہودی کھلاڑی نے اِن کھیلوں میں حصہ نہ لیا۔ پھر بھی مائر اور ہنگری کے پانچ کھلاڑیوں سمیت ۹ یہودی کھلاڑیوں نے نازی اولمپکس میں میڈل حاصل کئے۔ امریکہ سے سات یہودی مرد کھلاڑی برلن گئے تھے۔ یورپ کے کچھ یہودی کھلاڑیوں کی طرح اِن نوجوان امریکی کھلاڑیوں کو بھی یہودی تنظیموں نے اولمپک کھیلوں کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا۔ اِن میں سے اکثر کھلاڑی یہودیوں اور دوسرے گروپوں پر نازیوں کے ظلم و ستم کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے اِسلئے اُنہوں نے کھیلوں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

اگست 1936 میں اولمپک کھیلوں کے انعقاد کے موقع پر نازی حکومت نے اپنی پرتشدد نسلی امتیاز کی پالیسیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔ بیشتر یہود مخالف سائن عارضی طور پر ہٹا دئے گئے تھے اور اخبارات نے اپنی تند و ترش روش کو نرم کر دیا تھا۔ یوں نازی حکومت نے اولمپک کھیلوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہاں موجود غیر ملکی شائقین اور صحافیوں کو ایک پرامن اور بردبار جرمنی کا ایک جھوٹا تاثر دیا۔

بائکاٹ کی تحریکیں

1936کے برلن اولمپکس کے بائیکاٹ کی تحریکیں امریکہ، برطانیہ، فرانس، سویڈن، چیکوسلواکیہ اور نیدرلینڈ میں منظر عام پر آئیں۔ 1936 کے اولمپک کھیلوں میں شرکت کے بارے میں شدید بحث امریکہ میں رہی جو روایتی طور پر اولمپک کھیلوں میں بہت بڑا دستہ بھیجتا رہا ہے۔ بائکاٹ کی سفارش کرنے والے کچھ لوگوں نے متبادل اولمپکس کی تجویز پیش کی۔ اِن میں سب سے بڑی مجوزہ کھیلیں "عوامی اولمپئیڈ" تھیں جن کے 1936 کے موسم گرما میں بارسلونا اسپین میں انعقاد کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ یہ کھیلیں اُس وقت منسوخ کر دی گئیں جب جولائی 1936 میں اسپین میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اُس وقت ھزاروں کھلاڑی وہاں پہنچنا شروع ہو چکے تھے۔

متعدد ممالک سے یہودی کھلاڑیوں نے انفرادی طور پر بھی برلن اولمپکس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ امریکہ میں کچھ یہودی کھلاڑیوں کے علاوہ امریکن جیوئش کانگریس اور جیوئش لیبر کمیٹی جیسی یہودی تنظیموں نے بائکاٹ کی حمایت کی۔ تاہم جب امریکہ کی ایمیچور ایتھلیٹک یونین نے دسمبر 1935 میں اِن اولمپک کھیلوں میں شرکت کے حق میں ووٹ دیا تو دوسرے ممالک نے بھی اِس کی تقلید کرنا شروع کر دی اور یوں بائکاٹ کرنے والی تحریک ناکام ہو گئی۔

کھیلوں کیلئے تیاری

نازیوں نے یکم سے 16 اگست تک ہونے والی اولمپک کھیلوں کیلئے وسیع پیمانے پر انتظامات کئے تھے۔ ایک بہت بڑا اسپورٹس کمپلکس تعمیر کیا گیا اور برلن کی یادگاروں اور گھروں پر اولمپک جھنڈوں اور نازی حکومت کے مخصوص علامتی نشان سواسٹیکا لہرائے گئے جن سے ہرہجوم برلن شہر کی آرائش میں اضافہ ہوا۔

بیشتر سیاح اِس بات سے بے خبر رہے کہ نازی حکومت نے یہود مخالف نشانات کو عارضی طور پر ہٹا دیا تھا۔ اُن کو اِس بات کی بھی خبر نہ ہوئی کہ جرمنی کی وزارت داخلہ کے حکم پر پولیس نے برلن میں.