جنگ کے بعد، ہالوکاسٹ کے دوران جرائم کے ذمہ دار چند افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ 1945 اور 1946 کے درمیان نیورمبرگ، جرمنی میں مقدمات عدالت میں پیش کئے گئے- بائيس اہم نازی مجروں کے مقدمات کی سماعت کے موقع پر اتحادی قوتوں یعنی برطانیہ، فرانس، سوویت یونین اور امریکہ کے ججوں نے مقدمات سنے۔

بارہ نمایاں نازيوں کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ زيادہ تر نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا لیکن ان میں سے بیشتر نے دعویٰ کیا کہ وہ صرف اعلیٰ انتظامیہ کے احکام کی تعمیل کررہے تھے۔ قتل میں براہ راست ملوث افراد کو سب سے شدید سزائيں سنائی گئيں۔ ہالوکاسٹ میں اہم کردار ادا کرنے والے دوسرے افراد کو، جن میں اعلیٰ سطح کے حکومتی افسران اور حراستی کیمپ کے مکینوں کو جبری مشقت کے لئے استعمال کرنے والے کاروبار کے مالکان کو یا تو مختصر میعاد کی سزائيں ملیں یا کوئي سزا نہ ملی

نازیوں کے اعلیٰ ترین افسر، وہ شخص جس پر ہالوکاسٹ کی سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مقدمے کے وقت موجود نہ تھا۔ ایڈولف ہٹلر اور اس کے کئی قریبی ساتھیوں نے جنگ کے آخری دنوں میں خود کشی کرلی تھی۔ کئی مجرموں پر تو مقدمہ ہی نہيں چلایا گیا۔ کچھ جرمنی سے فرار ہو کر دوسرے ملکوں میں رہنے کے لئے چلے گئے تھے، جن میں امریکہ میں رہنے والے سینکڑوں افراد شامل تھے۔

نازیوں پر مقدمات جرمنی کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی جاری رہے۔ نازیوں کے شکاری، سائمن وائسنتھال، نے ایڈولف ايخمین کو ارجنٹینا میں ڈھونڈ نکالا۔ ایخمین نے لاکھوں یہودیوں کی جلاوطنیوں کا منصوبہ بنا کر انہيں عملی جامہ پہنایا تھا اور اس کے خلاف اسرائيل میں مقدمہ چلایا گيا۔ سینکڑوں شاہدین کی گواہی کو، جن میں سے زيادہ تر ان کے ظلم و ستم سے زندہ بچ نکلے تھے، دنیا کے ہر کونے سے تلاش کیا گيآ۔ ایخمین کو مجرم ٹھہرایا گیا اور 1962 میں سزائے موت سنا دی گئی۔

اہم تواریخ

8 اگست 1945
لندن کے اجلاس میں بینالاقوامی فوجی عدالت کے ضابطے کا اعلان

بین الاقوامی فوجی عدالت ریاستہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین سے تعلق رکھنے والے ججوں پر مشتمل ہے۔ نازيوں کے نمایاں افسران پر مندرجہ ذيل جرائم کے لئے بین الاقوامی فوجی عدالت کی شق نمبر 6 کے تحت جرمنی کے شہر نیورمبرگ میں مقدمہ چلایا گیا" (1) یہاں درج شدہ الزامات نمبر 2، 3 اور 4 کی سازش (2) امن کے خلاف جرائم - جس سے مراد متعدد بین الاقومی معاہدوں کی خلاف ورزی میں جارحیت کی منصوبہ کرنا اور ایسی جنگ لڑنا (3) جنگی جرائم – جس سے مراد جنگ لڑنے کے بین القوامی سطح پر متفق اصولوں کی خلاف ورزیاں تھیں، اور (4) انسانیت کے خلاف جرائم – "یعنی جنگ سے قبل یا جنگ کے دوران شہریوں کے قتل، خاتمے، غلامی، جلاوطنی اور دوسری غیرانسانی کارروائیاں؛ یا عدالت کے دائرہ اختیار کے اندر کسی بھی جرم کی انجام دہی میں یا اس سے تعلق رکھنے والے سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر کسی بھی ظلم وستم، چاہے وہ ملک کے قانون کی خلاف ورزی میں ہو یا نہ ہو۔

6 اکتوبر 1945
نازيوں کے نمایاں افسران کو جنگی جرائم کے لئے ملزم ٹھہرایا گیا

بین الاقوامی فوجی عدالت کے چار مستغیث-رابرٹ ایچ جیکسن (امریکہ)، فرانسوا ڈی مین تھون ( فرانس), رومن اے روڈینکو (سوویت یونین), اور سر ھارٹلے شاکراس (برطانیہ) نے چوبیس نمایاں نازی افسران کو ملزم ٹھہرایا۔ ملزموں میں ھرمین گویرنگ (ہٹلر کا وارث), روڈولف ھیس (نازی پارٹی کا نائب سربراہ), جوئیکم وان ربن ٹروپ (وزیرخارجہ), ولھیم کیٹل (مسلح افواج کا سربراہ), ولھیم فرک (وزیر داخلہ), ارنسٹ کالٹین برنر (سلامتی کی افواج کا سربراہ), ھینز فرینک (مقبوضہ پولینڈ کا گورنر جنرل), کانسٹین ٹائن وان نیوریتھ (بوہیمیا اور موراویا کا گورنر جنرل), ایرک ریڈر (بحری افواج کا سربراہ), کارل ڈونٹز ریڈر کا جانشین), ایلفریڈ جوڈل (مسلح افواج کا کمانڈر), ایلفریڈ روزن برگ (وزیر براہ مقبوضہ مشرقی علاقہ جات), بالڈور وان شیرک (ہٹلر یوتھ کا سربراہ), جولئس اسٹرائیکر (بائيں بازو کے نازی سام مخالف ناشر), فرٹز سوکل (جبری مزدوری کے تعین کا سربراہ), ایلبرٹ اسپیئر (وزیر اسلحہ), اور آرتھر سیس۔ انکوارٹ (مقبوضہ نیدرلینڈز کا کمشنر). مارٹن بورمین (ہٹلر کا رابطہ کار) پر غائبانہ مقدمہ دائر کیا گيا۔

یکم اکتوبر 1946
نیورمبرگ کا فیصلہ

بین الاقوامی فوجی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس نے بارہ ملزمان کو سزائے موت سنا دی (گوئرنگ، ربنز ٹراپ، کیٹل، کالٹین برنر، روزن برگ، فرینک، فرک، اسٹرئیکر، سوکل، جوڈل، سیس انکوارٹ اور بورمین)۔ تین کو عمر قید سنائی گئی (ھیس، معاشی وزير، والتھر فنک، اور ریڈر). چار کو دس سے بارہ سال کے درمیان قید کی سزائيں سنا دی گئيں (اسپیئر، سکائریک، ڈونٹز اور نیوریتھ). عدالت نے تین کو باعزت طور پر بری کردیا: ھجل مار شیکت (وزیر معاشیات), فرانز وام پاپین (جرمن سیاست دان، جس کا ہٹلر کے چانسلر نامزد ہونے میں اہم کردار تھا), اور ھانز فرٹشے (اخبارات اور ریڈیو کا سربراہ). دو کے علاوہ باقی تمام ملزمان کو 16 اکتوبر 1945 کو موت کی سزا دے دی گئی: گوئرنگ نے اپنی پھانسی سے کچھ عرصہ قبل خودکشی کرلی اور بورمین غائب ہی رہا۔ باقی دس ملزموں کو پھانسی پر چڑھایا گیا، ان کی لاشوں کو جلایا گيا اور راکھ کو دریائے آیسر میں بہا دیا گيا۔ قید کی سزائيں پانے والے سات جنگی مجرموں کو برلن کے اسپانڈاؤ قید خانے بھیج دیا گيا۔