جرمن بحری جہاز سینٹ لوئيسکا سفر نازی دہشتگردی سے فرار ہونے والے متعدد افراد کی مشکلات کو اجاگر کرتا ہے۔ مئی 1939 میں 937 مسافر، جن میں سے بیشتر یہودی پناہ گزین تھے، جرمنی کے شہر ہیمبرگ سے کیوبا کی طرف روانہ ہوا۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا ارادہ تھا کہ وہ ہجرت کر کے امریکہ چلے جائيں، اور وہ داخلے کے لئے انتظار میں تھے۔ تمام مسافروں کے پاس لینڈنگ کے توثیق نامے تھے جن میں انہيں کیوبا میں داخل ہونے کی اجازت حاصل تھی۔ لیکن جبسینٹ لوئيس ہوانا کی بندرگاہ پر پہنچا تو کیوبا کے صدر نے ان دستاویزات کو ماننے سے انکار کردیا۔

ہوانا کی بندرگاہ سے نکلنے کے بعد جہاز فلوریڈا کے ساحل کے اتنے قریب سے گزرا کہ مسافروں کو میامی کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ کپتان نے مدد کی اپیل کی لیکن ان کی کوششیں رائگاں گئيں۔ کوسٹ گارڈ کے جہازوں نے پانیوں پر پہرہ دے کر جہاز سے کودنے والوں کو روک دیا اور جہاز کو بندرگاہ پر رکنے کی اجازت نہیں دی۔ سینٹ لوئيس واپس یورپ چلا گیا۔ بیلجیم، نیدرلینڈز، انگلینڈ اور فرانس نے مسافروں کو داخلہ دے دیا۔ لیکن کچھ مہینوں کے اندر جرمنوں نے مغربی یورپ پر قبضہ کرلیا۔ بیلجیم، نیدرلینڈز اور فرانس میں اترنے والے ہزاروں مسافر آخرکار نازیوں کے "حتمی حل" کا شکار ہوگئے۔

اہم تواریخ

13 مئی 1939
937 یہودی پناہ گزین نازی جرمنی سے فرار ہو کر ہوانا، کیوبا کی طرف روانہ ہوگئے

سینٹ لوئيسنامی جرمن مسافر بحری جہاز 900 مسافروں کو لے کر ہیمبرگ کی بندرگاہ سے روانہ ہوا۔ ان میں سے زيادہ تر کیوبا کے لینڈنگ کے اجازت نامے رکھنے والے یہودی پناہ گزین تھے۔ 15 مئی 1939 کو سینٹ لوئيس پر فرانس کے شہر چیربورگ میں مزید مسافر سوار کرائے گئے۔ مسافروں کی کل تعداد 937 ہوگئی۔ بحری جہاز کیوبا کے شہر ہوانا کی جانب روانہ ہوا۔ تاہم کپتان اور مسافر اس بات سے بےخبر تھے کہ کیوبا کی حکومت نے تمام کے تمام لینڈنگ کے اجازت ناموں کو منسوخ کر دیا تھا۔

27 مئی 1939
کیوبا کے صدر نے پناہ گزینوں کو داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا

سینٹ لوئیس ہوانا کی بندرگاہ پہنچ گیا، لیکن مسافروں کو جہاز سے اترنے کی اجازت نہيں ملی۔ کیوبا کے صدر فریڈریکو لاریڈو برو، نے ان کے لینڈنگ کے اجازت نامے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بمشکل 30 مسافر ویزے کی نئی ضروریات پوری کر سکے اور صرف انہی کو کیوبا میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔ جہاز اس امید میں چھ دن تک ہوانا کی بندرگاہ پر کھڑا رہا کہ شاید پناہ گزینوں کو اترنے کی اجازت مل جائے۔ کیوبا میں پہلے سے موجود یہودی پناہ گزین جہاز پر اپنے گھر والوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بندرگاہ میں کشتیوں کے ذریعے پہنچے۔ 2 جون 1939 کو صدر برو کے اصرار پر سینٹ لوئیس کو ہوانا کی بندرگاہ چھوڑنی پڑی۔ جہاز شمال میں فلوریڈا کے ساحل کی طرف روانہ ہوگیا۔ پناہ گزین امید کرنے لگے کہ امریکہ انہيں اترنے کی اجازت دے دے گا۔

6 جون 1939
یہودی پناہ گزین پناہ کی امید چھوڑ کر یورپ کی جانب روانہ ہوگئے۔

کیوبا اور امریکہ میں رکنے کی اجازت نہ ملنے پرسینٹ لوئيس کو واپس یورپ جانا پڑا۔ دوسرے ممالک پناہ گزینوں کو پناہ دینے کے لئے رضامند ہوگئے۔ بیلجیم 214، نیدرلینڈز 181، برطانیہ 287 اور فرانس 224 پناہ گزین قبول کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔ سینٹ لوئیس بیلجیم کے شہر اینٹورپ میں اتر گيا اور مسافرین کو ان کی پناہ گاہوں پر لے جایا گيا۔ بیلجیم، نیدرلینڈز اور فرانس میں اترنے والے ہزاروں مسافر آخرکار نازیوں کے "حتمی حل" کا شکار ہوگئے۔