یہودی باپ اور کیتھولک ماں سے پیدا ہونے والی دو بیٹیوں میں سے بڑی بیٹی ہیلن کی پرورش ویانا میں کیتھولک عقیدہ کے مطابق ہوئی۔ ہیلن صرف پانچ سال کی تھی جب اس کے والد پہلی جنگ عظیم کے دوران لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے اور جب ہیلن کی عمر 15 برس ہوئی تو اس کی ماں نے دوبارہ شادی کر لی۔ ہیلن کو پیار سے ہیلی بلایا جاتا تھا۔ ہیلن کو پیراکی اور اوپرا جانے کا شوق تھا۔ سکنڈری اسکول ختم کرنے کے بعد اس نے قانون کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔
1933-39: 19 سال کی عمر میں ہیلن میں پہلی بار دماغی بیماری کے آثار محسوس کئے گئے۔ اس کی کیفیت 1934 کے دوران مزید خراب ہوگئی اور 1935 میں اسے اپنی قانونی پڑھائی اورلیگل سیکریٹری کی اپنی نوکری بھی چھوڑنی پڑی۔ اپنے وفادار ٹريئر فاکس کتے لائڈی کو کھونے کے بعد اُس کی طبیعت شدید طور پر بگڑ گئی۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ وہ شقاق دماغی یعنی سکٹزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہوچکی ہے لہذا اس کو ویانا کے اسٹائن ھوف دماغی ہسپتال میں داخل کردیا گيا۔ دو سال بعد مارچ 1938 میں جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کر کے اُس کا جرمنی سے الحاق کر لیا۔
1940: ہیلن اسٹائن ھوف میں مقید رہی حتی کہ اس کی حالت بہتر ہونے کے بعد بھی اسے گھر واپس نہیں جانے دیا گیا۔ اس کے والدین کو یہ یقین دلایا گیا کہ اسے جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن اس کے بجائے ہیلن کی والدہ کو اگست میں خبر دی گئی کہ ہیلن کو نئیڈرن ھارٹ کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا جا چکا ہے جو سرحد کے پار بویریا میں ہے۔ ہیلن کو درحقیقت بریڈین برگ جرمنی میں ایک ایسی عمارت میں منتقل کر دیا گیا تھا جو جیل میں تبدیل کر دی گئی تھی۔ یہاں اُسے ننگا کر کے اُس پر طبی تجربات کئے جاتے تھے اور پھر اس کو شاور روم میں لیجایا جاتا تھا۔
ہیلن اُن 9772 لوگوں میں سے ایک تھی جنہیں اس سال بریڈین برگ کے "رحمدلانہ قتل" کے مرکز میں گیس سے مار دیا گيا۔ سرکاری طور پر کہا گیا کہ وہ اپنے کمرے میں "شقاق دماغی کی شدید کیفیت" میں مر گئی تھی۔
آئٹم دیکھیںجرمنوں نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ لیئو اور اُن کا خاندان لوڈز میں ایک گھیٹو یعنی یہودی بستی تک محدود ہو کر رہ گئے۔ لیئو کو یونیفارم تیار کرنے والے ایک کارخانے میں درزی کی حیثیت سے کام پر مجبور کیا گیا۔ 1944 میں لوڈز کی یہودی بستی کا خاتمہ کر دیا گیا اور لیئو کو جلا وطن کرکے آش وٹز بھیج دیا گیا۔ پھر اُنہیں جبری مشقت کیلئے گروز روزن کیمپ سسٹم میں بھجوا دیا گیا۔ جب سوویت فوج نے پیش قدمی کی تو قیدیوں کو آسٹریہ میں ای بینسی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ 1945 میں ای بینسن کو آزاد کرا لیا گیا۔
آئٹم دیکھیںجرمنوں نے ٹارنو پر 1939 میں قبضہ کیا۔ 1940 میں مارٹن اور اُن کے خاندان پر زور ڈالا گیا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دیں۔ یہودیوں کے پہلے اجتماعی قتل عام کے دوران مارٹن گھر میں ایٹک میں چھپ گئے۔ یہ خاندان پکڑ دھکڑ کے دو واقعات کے دوران چپھا رہا۔ مئی 1943 میں مبینہ طور پر جرمن جنگی قیدیوں کے تبادلے کی غرض سے اُن کا اندراج کیا گیا کیونکہ مارٹن کی والدہ امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُنہیں ریل گاڑی کے ذریعے کراکاؤ لیجایا گیا اور پھر اُنہیں برجن بیلسن حراستی کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ مارٹن کو 1945 میں آزاد کرایا گیا اور وہ 1947 میں امریکہ چلے آئے۔
آئٹم دیکھیںدوسرے یہودیوں کی طرح لیونٹ خاندان کو بھی وارسا یہودی بستی میں قید کردیا گيا تھا۔ 1942 میں ابراھیم نے ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپ کر اپنی جان بچائی لیکن جرمن فوجیوں نے اس کی ماں اور بہنوں کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کرلیا۔ وہ ہلاک کردئے گئے۔ ابراھیم کو ایک قریبی مقام پر جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ لیکن وہ بچ کر اپنے والد کے پاس یہودی بستی میں چلا آیا۔ 1943 میں ان دونوں کو مجدانک بھجوا دیا گیا جہاں ابراھیم کے والد کا انتقال ہوگيا۔ بعد میں ابراھیم کو اسکارزسکو، بوخن والڈ، بیسنجن اور ڈاخو بھیج دیا گيا۔ جب جرمنوں نے کیمپوں سے قیدیوں کا انخلاء شروع کیا تو امریکی فوجیوں نے ابراھیم کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںاوسسی رومن کیتھولک خانہ بدوشوں کے ہاں پیدا ہونے والے چھ بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اُس کا خاندان ایک فیملی ویگن میں محو سفر رہتا تھا۔ اُن کا قافلہ سردیاں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بسر کرتا تھا اور اُن کی گرمیاں آسٹریا کے دیہی علاقے میں گزرتیں۔ اسٹویکا خانہ بدوشوں کے ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو لووارا روما کہلاتا تھا۔ یہ لوگ اپنی روزی ہر وقت سفر میں رہتے ہوئے گھوڑوں کی تجارت کرتے کماتے تھے۔ اوسسی کے آباواجداد 200 برس سے زائد عرصے سے آسٹریا میں رہتے آئے تھے۔
1933-39: اوسسی کی عمر صرف 2 برس تھی جب جرمنی نے مارچ 1938 میں آسٹریا پر قبضہ کرلیا۔ جب جرمن داخل ہوئے تو اسٹویکا کی فیملی ویگن سردیاں گزارنے کیلئے ویانا کیمپ گراؤنڈ میں کھڑی تھی۔ اُنہوں نے خانہ بدوشوں کو حکم دیا کہ وہ وہیں ٹھہرے رہیں۔ اسٹویکا نے اپنی ویگن کو لکڑی کے ایک گھر میں تبدیل کر لیا اور یوں ایک ہی جگہ ٹھرے رہنے کی کوشش کرنے لگے۔
1940-44: خانہ بدوشوں کو ایک مختلف "نسل" کی حیثیت سے اپنا اندراج کرانے پر مجبور کر دیا گیا۔ جب اوسی پانچ برس کا تھا تو جرمن اُس کے والد کو اُٹھا لے گئے۔ پھر اُس کی بہن کیتھی کو لے گئے اور بالآخر اوسی اور اُس کے باقی خاندان کو خانہ بدوشوں کیلئے برکینو میں موجود ایک نازی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں کھانے کو بہت ہی کم تھا۔ زیادہ تر شلجم ہی کھائے جاتے۔ چھوٹا اوسی بیمار ہو گیا اور وہ ٹائفس میں مبتلا ہو گیا۔ اُسے بیمار قیدیوں کی بیرک میں لے گئے۔ اِس بیرک کو قیدی "میت سوزی کی بھٹی یعنی کریمیٹوریا سے ملحق کمرہ" قرار دیتے تھے۔
اوسسی کو وہاں کوئی طبی امداد نہیں دی گئی۔ وہ ٹائفس اور ناقص خوراک کے باعث ہلاک ہو گیا۔ اُس کی عمر 7 برس تھی۔
آئٹم دیکھیںیونا ایک یہودی مزدور خاندان کے چار بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ یہ خاندان پابیانٹسے کے یہودی علاقے میں رہتا تھا۔ یونا کے والد پولش دکانوں کو سامان بیچتے تھے۔ جب پولش لوگ اس کو سامان کے پیسے ادا نہیں کر سکتے تھے تو اس کے خاندان کیلئے کھانا دے دیتے تھے۔ پابیانٹسے میں زندگی دشوار تھی لیکن یونا کا خاندان ایک دوسرے کے بہت قریب تھا اور بہت سے رشتہ دار بھی ان کے قریب ہی رہتے تھے۔
1933-39: ستمبر 1939 میں جنگ شروع ہونے کے بعد جرمنوں نے پابیانٹسے میں ہمارے پڑوس کے علاقے میں ایک یہودی بستی قائم کی۔ ہمارے تمام ہی وسیع تر خاندان کو اِس یہودی بستی میں منتقل کردیا گيا۔ ہمیں بہت پریشانی ہوئی کیونکہ وہاں کھانا کافی نہیں تھا۔ ہر ہفتے گسٹاپو کے اہلکار آتے اور ہماری بیشتر قیمتی اشیاء ضبط کرلیتے۔ پھر گسٹاپو نے لوگوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔ ہر چند ہفتوں میں وہ لوگوں کو مشقت کیلئے یا پھر حراستی کیمپوں کیلئے لے جاتے۔ ہم یہ کبھی نہیں جانتے تھے کہ کیا ہم دن کے آخر میں ایک دوسرے کو دیکھ بھی پائیں گے یا نہیں۔
1940-44: مئی 1942 میں پابیانٹسے کی یہودی بستی خالی کرادی گئی۔ میری بہن، میرے والد اور مجھے لوڈز کی یہودی بستی میں بھجوا دیا گيا۔ میری عمر 12 برس تھی۔ مجھے اور میری چھوٹی بہن کو ایک کارخانے میں کام کرنے کیلئے بھیج دیا گيا۔ دو سال تک ہم کپڑے سیتی رہیں اور جب جرمنوں نے یہودیوں کو لوڈز سے جلاوطن کرنا شروع کیا تو ہم خود کو چھپاتی رہیں۔ اگست 1944 میں ہمیں آشوٹز بھیج دیا گيا جہاں ہمیں منتخب کئے جاتے کا سامنا کرنا پڑا۔ میری بہن کو مرنے کیلئے بھیج دیا گيا اور مجھے ایک ہوائی جہاز کے کارخانہ میں کام کرنے کیلئے جرمنی بھیج دیا گيا۔ جب امریکیوں نے بمباری شروع کی تو ہمیں ٹرین پر سوار کرکے موٹ ہوسین کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
10 دن تک بھوکی پیاسی رہنے کے بعد یونا کو امریکیوں نے موٹ ہوسین سے آزاد کرا لیا۔ جنگ کے بعد وہ اسرائيل میں ایک چجا کے پاس چلی گئی اور بالآخر امریکہ میں آباد ہوگئی۔
آئٹم دیکھیںجان پیٹر کے والد ھائینز ایک جرمن یہودی پناہ گزین تھے جنھوں نے ہالینڈ کی ایک یہودی خاتون ہینرئیٹ ڈی لیو سے شادی کی تھی۔ نازی آمریت اور ایک حراستی کیمپ میں ھائینز کے چجا کے قتل سے خوفزدہ یہ جوڑا نقل مکانی کر کے نیدرلینڈ چلا آیا۔ ہینرئیٹ اُس وقت 9 ماہ کے حمل سے تھیں۔ اُنہوں نے ایمسٹرڈیم میں سکونت اختیار کر لی۔
1933-39: جان پیٹر اپنے والدین کے نیدرلینڈ پہنچنے کے فوراً بعد پیدا ہوا۔ جب اُس کا ننھا بھائی ٹامی پیدا ہوا وہ صرف 18 ماہ کا تھا۔ 1939 میں جان پیٹر کے دادا دای اور اس کے چچا بھی جرمنی سے پناہ گزینوں کی حیثیت سے اُن کے پاس نیدر لینڈ آ گئے۔ جان پیٹر اور اس کا بھائی ٹامی اپنی مادری زبان زبان کے طور پر ڈچ زبان بولتے ہوئے بڑے ہوئے اور انھوں نے دیہی علاقے میں واقع اپنی والدہ کے خاندانی گھر میں خاصا وقت اکٹھے گزارا۔
1940-44: جرمنوں نے مئی 1940 میں ایمسٹرڈیم پر قبضہ کرلیا۔ جرمن تسلط کے باوجود 6 سالہ جان پیٹر نے اپنی روز مرہ زندگي میں کوئي خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ پھر اُس کی نویں سالگرہ کے فوراً بعد جرمنوں نے اُس کی دادی کو ویسٹربورک نامی کیمپ میں بھیج دیا۔ چھ ماہ بعد جان پیٹر اور اُس کے خاندان کو بھی اُسی کیمپ میں بھیج دیا گیا لیکن اُن کی دادی وہاں موجود نہیں تھیں۔ سردیوں کے دوران فیفر خاندان کو ایک دور دراز کی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا جسے تھیریسئین شٹٹ کہا جاتا تھا۔ وہاں جان پیٹر کو شدید سردی، خوف اور بھوک کا سامنا رہا۔
18 مئی 1944 کو جان پیٹر اپنے خاندان کے ساتھ آشوٹز لایا گیا۔ اُسے 11 جولائی 1944 کو گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف 10 برس تھی۔
آئٹم دیکھیںفیلا ایک یہودی خاندان کے دو بچوں میں سے بڑی تھیں جو زیکروچزم میں رہتے تھے۔ یہ قصبہ وارسا کے قریب دریائے وستولا کے پاس واقع تھا۔ اُن کے والد ایک معزز وکیل تھے۔ ایک نوجوان عورت کی حیثیت سے فیلا نے وارسا میں ایک ہیٹ ڈیزائنر کے طور پر کام کیا اور پھر اُن کی شادی موشے گالک سے ہو گئی۔ اُس وقت اُن کی عمر 27 ، 28 برس ہو گی۔ شادی کی بعد وہ قریبی قصبے سوخوچن چلی گئیں جہاں اُن کے شوہر کا پرل بٹن کا کارخانہ تھا۔ فیلا اور موشے کی چار بیٹیاں ہوئیں۔
1933-39: 1936 میں گالک خاندان وارسا منتقل ہو گیا۔ وہ شہر کی ثقافتی زندگی سے متاثر ہوئے تھے۔ جب جرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولنڈ پر حملہ کیا تو موشے نے فلسطین بھاگ جانے کی تجویز دی۔ اگرچہ فیلا صیہونی تھیں مگر اُنہوں نے اِس خیال کی مخالفت کی کیونکہ وہ کسی اور نئی جگہ جاکر ازسرنو زندگی شروع کرنے سے ہچکچا رہی تھیں۔ 28 ستمبر 1939 کو وارسا پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا اور دسمبر میں فیلا اور اُن کے ایل خانہ پہلے ہی سے مطلوبہ سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے تھے جن سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی تھی کہ وہ یہودی ہیں۔
1940-43: گالک خاندان کو نومبر 1940 میں وارسا یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ خاندان ایک گھر کے ایسے کمرے میں رہا جہاں اور بھی بہت سے خاندان رہائش پزیر تھے۔ خوراک کم تھی اور اُنہیں گھر پر ہی رہتے ہوئے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے وقت کاٹنا پڑتا تھا۔ یہ خاندان 1942 میں وسیع پیمانے پر کئے جانے والی ملک بدری سے تو بچ گیا لیکن اپریل 1943 کی آخری پکڑ دھکڑ کے دوران اُنہیں پکڑ لیا گیا جس کے بعد یہ یہودی بستی تباہ کر دی گئی۔
اِس پکڑ دھکڑ کے دوران فیلا اور موشے اپنے بچوں سے الگ ہو گئے۔ اُنہیں دیگر معمر افراد کے ساتھ ایک قطار میں کھڑا کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
آئٹم دیکھیںگریگر آسٹریا کے علاقے کیرن تھیا کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اُنہوں نے آسٹریا اور ہنگری کی فوج میں خدمات انجام دیں اور زخمی ہوئے۔ گریگر کی پرورش ایک کیتھولک کی حیثیت سے ہوئی لیکن گریگر اور اُن کی بیوی 1920 کی دہائی کے آخر میں یہووا وٹنس میں شامل ہو گئے۔ گریگر نے ایک کسان کی حیثیت سے اور پتھر توڑنے والی مشین پر کام کرتے ہوئے اپنی بیوی اور چھ بچوں کی کفالت کی۔
1933-39: آسٹریا کی حکومت نے 1936 میں یہووا وٹنس مشنری کے کام پر پابندی لگا دی۔ گریگری پر لائسنس کے بغیر پھیری لگانے کا الزام لگایا گيا اور کچھ دنوں کے لئے اُنہیں جیل بھیج دیا گيا۔ جرمنی نے 1938 میں آسٹریا پر قبضہ کر لیا تو گریگر نے اُس رائے شماری کا بائیکاٹ کرنے والے جلوس کی قیادت کی جس میں جرمنی کے ساتھ آسٹریا کے الحاق کی توثیق ہونا تھی۔ گریگر کے نازی مخالف مؤقف کی بنا پریکم ستمبر 1939 کو اُن کے قصبے کے میئر نے اُنہیں گرفتار کرا دیا۔ گریگر کو فوجی خدمات کی مخالفت پر برلن بھیجا گیا تاکہ اُن پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ اُنہیں سزائے موت سنائی گئی اور 7 دسمبر 1939 کو برلن کی پلاٹ زین سی جیل میں گریگر کو سر قلم کرنے والی مشین گیلیٹین سے ہلاک کر دیا گیا۔
1940-45: جنگ کے دوران گریگر کے پورے خاندان کو نازیوں سے تعاون نہ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ گریگر کے دو بیٹوں کو قتل کردیا گیا۔ ایک بیٹے کا پلاٹ زین سی جیل میں سر قلم کر دیا گیا۔ یہ وہی جیل تھی جہاں 1939 میں گریگر کا بھی سر قلم کیا گیا تھا۔ اُن کے دوسرے بیٹے کو گولی مار دی گئی تھی۔ گریگر کے سب سے بڑے بیٹے فرانز نے فوجی تربیت میں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور نازی جھنڈے کو سلامی دینے سے بھی منکر رہے جس پر اُنہیں جرمنی کے ایک کیمپ میں پانچ برس قید با مشقت کی سزا دے دی گئی۔
گریگر اور اُن کے دو بیٹوں کے علاوہ گریگر کی یہووا وٹنس کے دوسرے ارکان پر بھی نازیوں نے جبروستم روا رکھا۔
آئٹم دیکھیں1919 میں رابرٹ اور اُن کے بھائی کارل نے کولون کے علاقے میں نیرودر بند کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کی۔ دوسرے نوجوانوں کے جرمن گروپوں کی مانند اِس کا مقصد نوجوانوں کو کیمپنگ اور ہائکنگ کے ذریعے فطرت کے قریب لانا تھا۔ بعض اوقات نوجوانوں میں شدید قربت کے نتیجے میں ہم جنس پرستی کے تعلقات بھی سامنے آئے اور نیرودر بند گروپ ایسے تعلقات کو قبول کرتا تھا۔ اسی طرح اُس وقت کے بہت سے دوسرے نوجوانوں کے گروپ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
1933-39: 1933 میں نازیوں کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اُنہوں نے نوجوانوں کے تمام آزاد گروپ ختم کر دئے اور نوجوان ارکان پر زور دیا کہ وہ ہٹلر یوتھ موومنٹ میں شامل ہو جائیں۔ رابرٹ نے اِس سے انکار کر دیا اور خفیہ طور پر نیرودر بند کے ساتھ ربطہ جاری رکھا۔ 1936 میں نازیوں کے نظریاتی کریمنل کوڈ کے پیراگراف 175 کے تحت اُنہیں قصوروار قرار دیا گیا۔ یہ شق ہم جنس پرستی کو غیر قانونی قرار دیتی تھی۔ رابرٹ کو نیرودر بند گروپ کے 13 دوسرے ارکان کے ساتھ قید میں ڈال دیا گیا۔
1940-41: رابرٹ ان 50 ھزار سے زائد افراد میں شامل تھے جنہیں پیراگراف 175 کے تحت نازی حکومت کے دوران سزا دی گئی۔ لیکن1941 میں اُنہیں ڈاخو کے حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ پیراگراف 175 کے تحت سزا پانے والے بیشتر افراد کی طرح رابرٹ کیلئے ضروری تھا کہ وہ شناخت کیلئے پیازی تکونی پٹی پہنیں۔ اِن سزا یافتہ افراد کو الگ بیرکوں میں تنہا رکھا جاتا۔ اُن سے انتہائی برا سلوک کیا جاتا اور دوسرے قیدی گروپ بھی اُنیں خود سے الگ رکھتے تھے۔
44 سالہ رابرٹ 1941 میں ڈاخو میں انتقال کر گئے۔ اُن کی موت کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔
آئٹم دیکھیںجوزف جرمنی کے شہر بٹر فیلڈ میں خانہ بدوش والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ زندگی کے پہلے ڈیڑھ سال اُنہیں ایک یتیم خانے میں پالا گیا جس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ جوزف کی پیدائش کے وقت جرمنی میں تقریبا 26 ھزار خانہ بدوش رہتے تھے۔ اِن کا تعلق سنتی یا روما قبیلوں سے تھا۔ اگرچہ اِن میں سے بیشتر جرمن شہری تھے پھر بھی دوسرے جرمن افراد کے مقابلے میں اِن سے امتیازی سلوک کیا جاتا اور اُنہیں ہراساں کیا جاتا۔
1933-39: ڈیڑھ برس کی عمر میں جوزف کو ایک خاندان نے گود لے لیا جو ہالے میں رہتا تھا۔ یہ شہر بٹر فیلڈ سے تقریباً 20 میل کی مسافت پر تھا۔ اُسی برس نازی پارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ جب جوزف اسکول میں تھے تو اکثر کلاس روم میں اُنہیں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا۔ "بدتمیزی" کی وجہ سے اُن کی پٹائی بھی ہوتی۔ اُن کی بے عزتی کی جاتی اور ہم جماعت اُنہیں "حرامی" یا "خچر" جیسے الفاظ سے پکارتے۔ یہ ہم جماعت ہٹلر یوتھ موومنٹ کے ارکان تھے۔
1940-44: جب جوزف کی عمر 12 برس تھی تو دو اجنبی اُنہیں کلاس سے باہر لے گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ جوزف کو "اپینڈکس" ہے جس کیلئے فوری اپریشن درکار ہے۔ جوزف نے احتجاج کیا لیکن اُنہیں مارا پیٹا گیا اور جبری طور پر اپریشن کیلئے لیجایا گیا جہاں اُن کی نس بندی کر دی گئی۔ اِس طریق کار کو نازی قانون کے تحت جائز قرار دیا جاتا تھا جس میں سماجی طور پر ناپسندیدہ افراد کی جبری نس بندی کی اجازت تھی۔ اِن میں خانہ بدوش بھی شامل تھے۔ جوزف کے صحتیاب ہونے کے بعد اُنہیں برگن بیلسن حراستی کیمپ بھیجا جانا تھا لیکن اُن کے منہ بولے باپ نے اُنہیں ہسپتال سے اسمگل کروا کے کہیں چھپا دیا۔
جوزف ایک باغ میں پانچ ماہ تک چھپے رہنے کے بعد جنگ کے باقی عرصے میں خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔
آئٹم دیکھیںجرمنی نے بیلجیم پر مئي 1940 میں حملہ کیا۔ جرمنوں نے للی کی والدہ، بہن اور بھائی کو پکڑ لیا اور للی چھپ گئی۔ للی نے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کی مدد سے شناخت کو دو برس تک چھپائے رکھا۔ لیکن 1944 میں کچھ بیلجیم کے افراد نے للی کو دھوکہ دیا اور اُسے میشیلن کیمپ کے ذریعے آش وٹز برکیناؤ بھیج دیا گیا۔ آش وٹز سے موت کے مارچ کے بعد للی کو برطانوی افواج نے برجن بیلسن میں آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.