منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
اوسسی رومن کیتھولک خانہ بدوشوں کے ہاں پیدا ہونے والے چھ بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اُس کا خاندان ایک فیملی ویگن میں محو سفر رہتا تھا۔ اُن کا قافلہ سردیاں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بسر کرتا تھا اور اُن کی گرمیاں آسٹریا کے دیہی علاقے میں گزرتیں۔ اسٹویکا خانہ بدوشوں کے ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو لووارا روما کہلاتا تھا۔ یہ لوگ اپنی روزی ہر وقت سفر میں رہتے ہوئے گھوڑوں کی تجارت کرتے کماتے تھے۔ اوسسی کے آباواجداد 200 برس سے زائد عرصے سے آسٹریا میں رہتے آئے تھے۔
1933-39: اوسسی کی عمر صرف 2 برس تھی جب جرمنی نے مارچ 1938 میں آسٹریا پر قبضہ کرلیا۔ جب جرمن داخل ہوئے تو اسٹویکا کی فیملی ویگن سردیاں گزارنے کیلئے ویانا کیمپ گراؤنڈ میں کھڑی تھی۔ اُنہوں نے خانہ بدوشوں کو حکم دیا کہ وہ وہیں ٹھہرے رہیں۔ اسٹویکا نے اپنی ویگن کو لکڑی کے ایک گھر میں تبدیل کر لیا اور یوں ایک ہی جگہ ٹھرے رہنے کی کوشش کرنے لگے۔
1940-44: خانہ بدوشوں کو ایک مختلف "نسل" کی حیثیت سے اپنا اندراج کرانے پر مجبور کر دیا گیا۔ جب اوسی پانچ برس کا تھا تو جرمن اُس کے والد کو اُٹھا لے گئے۔ پھر اُس کی بہن کیتھی کو لے گئے اور بالآخر اوسی اور اُس کے باقی خاندان کو خانہ بدوشوں کیلئے برکینو میں موجود ایک نازی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں کھانے کو بہت ہی کم تھا۔ زیادہ تر شلجم ہی کھائے جاتے۔ چھوٹا اوسی بیمار ہو گیا اور وہ ٹائفس میں مبتلا ہو گیا۔ اُسے بیمار قیدیوں کی بیرک میں لے گئے۔ اِس بیرک کو قیدی "میت سوزی کی بھٹی یعنی کریمیٹوریا سے ملحق کمرہ" قرار دیتے تھے۔
اوسسی کو وہاں کوئی طبی امداد نہیں دی گئی۔ وہ ٹائفس اور ناقص خوراک کے باعث ہلاک ہو گیا۔ اُس کی عمر 7 برس تھی۔
فرانز اور اُن کا خاندان یہووا وھٹنس عقیدے کے پابند تھے۔ جرمنی نے 1938 میں آسٹریہ پر قنضہ کر لیا۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے بعد فرانز کے والد کو اِس لئے قتل کر دیا گیا کہ وہ یہووا وھٹنس کے پیروکار ہونے کے ناطے جنگ کے مخالف تھے۔ 1940 میں فرانز نے فوجی تربیت میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور نازی جھنڈے کو سلامی نہیں دی۔ اُنہیں قید کردیا گیا، گسٹاپو (جرمن خفیہ اسٹیٹ پولس) نے گراز میں اُن سے پوچھ گچھ کی اور پھر انہیں سزا کے طور پر جرمنی کے جبری مشقت کے ایک کیمپ میں پانچ سال کیلئے بھجوا دیا گیا۔ فرانز کو امریکی فوجوں نے 1945 میں آزاد کرا لیا۔
فرانز اور اُن کا خاندان یہوواز وھٹنس کے پیروکار تھے۔ جرمنی نے 1938 میں آسٹریہ پر قبضہ کر لیا۔ جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو فرانز کے والد کو پھانسی دے دی گئی کیونکہ یہوواز وھٹنس کے پیروکار کی حیثیت سے اُنہوں نے جنگ کی مخالفت کی۔ 1940 میں فرانز نے فوجی تربیت میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور نازی جھنڈے کو سلامی نہیں دی۔ لہذا اُنہیں قید کردیا گیا۔ گسٹاپو (جرمن خفیہ اسٹیٹ پولیس) نے گراز میں اُن سے پوچھ گچھ کی اور اُنہیں جرمنی کے ایک کیمپ میں پانچ سال تک جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ امریکی افواج نے فرانز کو 1945 میں آزاد کرا لیا۔
سملجکا ہرزیگووینا کے وسطی یوگوسلاو علاقے کے شہر موسٹر میں پیدا ہوئیں۔ وہ قدامت پسند سربین والدین کی تین بیٹیوں میں سے ایک تھیں۔ سملجکا کی والدہ کا جب انتقال ہوا تو اُس وقت سملجکا کی عمر صرف تین برس تھی اور پھر باپ نے تینوں بچیوں کو پالا۔ نوعمری میں وہ لڑکوں کی طرح رہیں اور 17 برس کی سملجکا نے مس مکارسکا رویرا کا مقابلہ حسن جیت لیا اور فیشن ماڈل بننے کیلئے جرمنی روانہ ہو گئیں۔
1933-39: سملجکا نے برلن میں ایک کامیاب ماڈلنگ کیرئیر دیکھا۔ لمبا قد، دبلا پتلا جسم، نمایاں رخسار اور بادامی شکل کی سلیٹی نما نیلی آنکھیں۔ گریٹا گاربو سے مشابہت اُن کی پہچان بنی۔ سملجکا فسطائیت کی مخالف تھیں اور ہٹلر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ جرمنی چھوڑ کر چلی گئیں۔ جب ستمبر 1939 میں یورپ میں جنگ شروع ہوئی تو سملجکا یوگوسلاویہ کے دارالحکومت بلغراد میں اپنے شوہر ٹیہومیر وسنجیوک کے ساتھ تھیں۔ اُن کا ایک نوعمر بیٹا بھی تھا۔
1940-41: بلغراد میں رہنے والے اکثر افراد کی طرح سملجکا فسطایت کی کھلم کھلا مخالفت کرتی تھیں۔ یوگوسلاویہ میں 27 مارچ 1941 کو ایک نئی فسطایت مخالف حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ جرمنی نے اِس کے رد عمل کے طور پر 6 اپریل 1941 کو ایسٹر سے پہلے کے اتوار کے موقع پر بلغراد پر اچانک بمباری شروع کر دی۔ چھ روز بعد جرمنوں نے اِس شہر پر قبضہ کر لیا۔ اپنے شوہر کے ساتھ سملجکا کو گسٹاپو نے گرفتار کر لیا۔ وہ ویمار جرمنی میں قیام کے دوران اپنے فسطائیت مخالف نظریات کی وجہ سے جانی پہچانی تھیں۔ سملجکا اور اُن کے شوہر کو دو ہفتوں سے زیادہ دنوں تک مارا پیٹا گیا اور اُنہیں اذیتیں دی گئیں۔
اوائل مئی 1941 کو سملجکا کو جرمن فائرنگ اسکواڈ نے بینجیکا حراستی کیمپ میں گولی مار دی۔ اُس وقت اُن کی عمر 35 برس تھی۔
ریمی فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں کیتھولک والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1913 میں یونیورسٹی آف پیرس سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے پیرس میں ٹیلینڈئیر پبلشنگ ہاؤس میں ملازمت اختیار کر لی۔ پہلی جنگی عظیم کے دوران اُنہوں نے فرانسیسی فوج میں خدمات انجام دیں اور پانچ مرتبہ زخمی ہوئے۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے ٹیلینڈئیر میں دوبارہ ملازمت کر لی اور 1919 میں اُنہوں نے اِس ادارے کے مالک کی بیٹی جرمین ٹیلینڈئیر سے شادی کر لی۔ اُن کے پانچ بچے ہوئے جن کی پرورش اُنہوں نے خالص کیتھولک عقیدے کے مطابق کی۔
1933-39: 1935 میں ریمی ایوون کے میئر ہو گئے جو پیرس کے جنوب مشرق میں تقریباً 35 میل کی مسافت پر ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ ریمی کو اپنے قصبے پر فخر تھا۔ یہ قصبہ اپنے شاہی محل اور قریبی جنگل فونٹین بلو کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک محب الوطن فرانسیسی کی حیثیت سے 1933 میں ہٹلر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے جرمنی پر بھروسہ نہیں کیا۔
1940-44: جون 1940 میں جرمنوں نے فرانس کو شکست دے دی اور 16 جون کو ایوون پر قبضہ کرلیا۔ ریمی نے میئر برقرار رہنے کا عظم جاری رکھا اور وہ فعال انداز میں ویلیٹے تھرموپائلیز نامی مزاحمتی گروپ میں شامل ہو گئے۔ اُنہوں نے یہودی اور دوسرے مصنفوں کو مالی امداد دی جن کی تصنیفات چھاپی نہیں جا سکتی تھیں۔ اُنہوں نے ڈورڈون میں کچھ ایلیشین یہودیوں کو پناہ دی جہاں اُن کا اپنا ایک مکان تھا۔ اپنی مئیر کی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے یہودیوں اور دوسرے بھگوڑوں کو تحفظ فراہم کیا، اُنہیں جعلی کاغذات فراہم کئے اور فرانس کے جنوبی حصے کی طرف فرار ہونے میں مدد دی جہاں ابھی قبضہ نہیں ہوا تھا یا پھر اُنہیں محفوظ رہائش گاہوں تک پہنچا دیا۔
4 مئی 1944 کو گسٹاپو خفیہ پولیس نے ریمی کو ایوون میں اُس وقت گرفتار کر لیا جب وہ پیرس سے ایک کاروباری دورے کے بعد واپس آ رہے تھے۔ 15 مارچ 1945 کو نیوئن گیمے حراستی کیمپ میں وہ انتقال کر گئے۔
1919 میں رابرٹ اور اُن کے بھائی کارل نے کولون کے علاقے میں نیرودر بند کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کی۔ دوسرے نوجوانوں کے جرمن گروپوں کی مانند اِس کا مقصد نوجوانوں کو کیمپنگ اور ہائکنگ کے ذریعے فطرت کے قریب لانا تھا۔ بعض اوقات نوجوانوں میں شدید قربت کے نتیجے میں ہم جنس پرستی کے تعلقات بھی سامنے آئے اور نیرودر بند گروپ ایسے تعلقات کو قبول کرتا تھا۔ اسی طرح اُس وقت کے بہت سے دوسرے نوجوانوں کے گروپ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
1933-39: 1933 میں نازیوں کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اُنہوں نے نوجوانوں کے تمام آزاد گروپ ختم کر دئے اور نوجوان ارکان پر زور دیا کہ وہ ہٹلر یوتھ موومنٹ میں شامل ہو جائیں۔ رابرٹ نے اِس سے انکار کر دیا اور خفیہ طور پر نیرودر بند کے ساتھ ربطہ جاری رکھا۔ 1936 میں نازیوں کے نظریاتی کریمنل کوڈ کے پیراگراف 175 کے تحت اُنہیں قصوروار قرار دیا گیا۔ یہ شق ہم جنس پرستی کو غیر قانونی قرار دیتی تھی۔ رابرٹ کو نیرودر بند گروپ کے 13 دوسرے ارکان کے ساتھ قید میں ڈال دیا گیا۔
1940-41: رابرٹ ان 50 ھزار سے زائد افراد میں شامل تھے جنہیں پیراگراف 175 کے تحت نازی حکومت کے دوران سزا دی گئی۔ لیکن1941 میں اُنہیں ڈاخو کے حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ پیراگراف 175 کے تحت سزا پانے والے بیشتر افراد کی طرح رابرٹ کیلئے ضروری تھا کہ وہ شناخت کیلئے پیازی تکونی پٹی پہنیں۔ اِن سزا یافتہ افراد کو الگ بیرکوں میں تنہا رکھا جاتا۔ اُن سے انتہائی برا سلوک کیا جاتا اور دوسرے قیدی گروپ بھی اُنیں خود سے الگ رکھتے تھے۔
44 سالہ رابرٹ 1941 میں ڈاخو میں انتقال کر گئے۔ اُن کی موت کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔
یہودی باپ اور کیتھولک ماں سے پیدا ہونے والی دو بیٹیوں میں سے بڑی بیٹی ہیلن کی پرورش ویانا میں کیتھولک عقیدہ کے مطابق ہوئی۔ ہیلن صرف پانچ سال کی تھی جب اس کے والد پہلی جنگ عظیم کے دوران لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے اور جب ہیلن کی عمر 15 برس ہوئی تو اس کی ماں نے دوبارہ شادی کر لی۔ ہیلن کو پیار سے ہیلی بلایا جاتا تھا۔ ہیلن کو پیراکی اور اوپرا جانے کا شوق تھا۔ سکنڈری اسکول ختم کرنے کے بعد اس نے قانون کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔
1933-39: 19 سال کی عمر میں ہیلن میں پہلی بار دماغی بیماری کے آثار محسوس کئے گئے۔ اس کی کیفیت 1934 کے دوران مزید خراب ہوگئی اور 1935 میں اسے اپنی قانونی پڑھائی اورلیگل سیکریٹری کی اپنی نوکری بھی چھوڑنی پڑی۔ اپنے وفادار ٹريئر فاکس کتے لائڈی کو کھونے کے بعد اُس کی طبیعت شدید طور پر بگڑ گئی۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ وہ شقاق دماغی یعنی سکٹزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہوچکی ہے لہذا اس کو ویانا کے اسٹائن ھوف دماغی ہسپتال میں داخل کردیا گيا۔ دو سال بعد مارچ 1938 میں جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کر کے اُس کا جرمنی سے الحاق کر لیا۔
1940: ہیلن اسٹائن ھوف میں مقید رہی حتی کہ اس کی حالت بہتر ہونے کے بعد بھی اسے گھر واپس نہیں جانے دیا گیا۔ اس کے والدین کو یہ یقین دلایا گیا کہ اسے جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن اس کے بجائے ہیلن کی والدہ کو اگست میں خبر دی گئی کہ ہیلن کو نئیڈرن ھارٹ کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا جا چکا ہے جو سرحد کے پار بویریا میں ہے۔ ہیلن کو درحقیقت بریڈین برگ جرمنی میں ایک ایسی عمارت میں منتقل کر دیا گیا تھا جو جیل میں تبدیل کر دی گئی تھی۔ یہاں اُسے ننگا کر کے اُس پر طبی تجربات کئے جاتے تھے اور پھر اس کو شاور روم میں لیجایا جاتا تھا۔
ہیلن اُن 9772 لوگوں میں سے ایک تھی جنہیں اس سال بریڈین برگ کے "رحمدلانہ قتل" کے مرکز میں گیس سے مار دیا گيا۔ سرکاری طور پر کہا گیا کہ وہ اپنے کمرے میں "شقاق دماغی کی شدید کیفیت" میں مر گئی تھی۔
گریگر آسٹریا کے علاقے کیرن تھیا کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اُنہوں نے آسٹریا اور ہنگری کی فوج میں خدمات انجام دیں اور زخمی ہوئے۔ گریگر کی پرورش ایک کیتھولک کی حیثیت سے ہوئی لیکن گریگر اور اُن کی بیوی 1920 کی دہائی کے آخر میں یہووا وٹنس میں شامل ہو گئے۔ گریگر نے ایک کسان کی حیثیت سے اور پتھر توڑنے والی مشین پر کام کرتے ہوئے اپنی بیوی اور چھ بچوں کی کفالت کی۔
1933-39: آسٹریا کی حکومت نے 1936 میں یہووا وٹنس مشنری کے کام پر پابندی لگا دی۔ گریگری پر لائسنس کے بغیر پھیری لگانے کا الزام لگایا گيا اور کچھ دنوں کے لئے اُنہیں جیل بھیج دیا گيا۔ جرمنی نے 1938 میں آسٹریا پر قبضہ کر لیا تو گریگر نے اُس رائے شماری کا بائیکاٹ کرنے والے جلوس کی قیادت کی جس میں جرمنی کے ساتھ آسٹریا کے الحاق کی توثیق ہونا تھی۔ گریگر کے نازی مخالف مؤقف کی بنا پریکم ستمبر 1939 کو اُن کے قصبے کے میئر نے اُنہیں گرفتار کرا دیا۔ گریگر کو فوجی خدمات کی مخالفت پر برلن بھیجا گیا تاکہ اُن پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ اُنہیں سزائے موت سنائی گئی اور 7 دسمبر 1939 کو برلن کی پلاٹ زین سی جیل میں گریگر کو سر قلم کرنے والی مشین گیلیٹین سے ہلاک کر دیا گیا۔
1940-45: جنگ کے دوران گریگر کے پورے خاندان کو نازیوں سے تعاون نہ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ گریگر کے دو بیٹوں کو قتل کردیا گیا۔ ایک بیٹے کا پلاٹ زین سی جیل میں سر قلم کر دیا گیا۔ یہ وہی جیل تھی جہاں 1939 میں گریگر کا بھی سر قلم کیا گیا تھا۔ اُن کے دوسرے بیٹے کو گولی مار دی گئی تھی۔ گریگر کے سب سے بڑے بیٹے فرانز نے فوجی تربیت میں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور نازی جھنڈے کو سلامی دینے سے بھی منکر رہے جس پر اُنہیں جرمنی کے ایک کیمپ میں پانچ برس قید با مشقت کی سزا دے دی گئی۔
گریگر اور اُن کے دو بیٹوں کے علاوہ گریگر کی یہووا وٹنس کے دوسرے ارکان پر بھی نازیوں نے جبروستم روا رکھا۔
میرین کی پرورش کیتھولک والدین کے ہاں نیووڈووو میں ہوئی۔ نیووڈووو پولینڈ میں صوبے بیالسٹاک میں لومزہ کے قریب واقع ایک قصبہ ہے۔ اُن کا خاندان زاروں کے دور میں 1918 تک اِس قصبے میں رہا جب پولینڈ نے دوبارہ آزادی حاصل کی۔ ہائی اسکول کے بعد میرین کیپوچن فرانسسکن آرڈر آف فرائرز میں شامل ہو گئے۔ فرانس اور اٹلی میں 8 برس کی تعلیم کے بعد وہ واپس پولینڈ آئے تاکہ اپنے آرڈر کے طالب علموں کو فلسفے کی تعلیم دیں۔
1933-39: جب ستمبر 1939 میں جرمنی نے پولنڈ پر حملہ کیا تو میں گروڈنو کے قریب اپنی خانقاہ پر تھا۔ ہم نے تین یفتوں کے بعد اُس وقت خانقاہ کو خالی کر دیا جب سوویت فوجی مشرق کی جانب سے حملہ کرتے ہوئے گروڈنو پہنچ گئے۔ میں واپس لومزا چلا آیا۔ ہمارے نئے سوویت حمکرانوں نے مذہب کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذہب کام کرنے والے لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ میں نے اپنے خطبوں میں اِس دعوے کو چیلنج کیا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ سوویت مجھے گرفتار کرنے والے ہیں تو میں فرار ہو کر جرمن مقبوضہ پولینڈ چلا گیا۔
: 1940-45 نازیوں نے 1941 میں مجھے وارسا میں گرفتار کرلیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میری گرفتاری کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی لیکن ایک تعلیم یافتہ پولش باشندے کی حیثیت سے میرے تعاون پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے پوویک جیل میں زیر حراست رکھا گیا اور پھر آشوٹز بھیج دیا گیا۔ وہاں کمانڈر نے ہمیں سخت محنت کرنے کے بارے میں لیکچر دیا۔ ایک مترجم نے اُس کی بات چیت کا پولش میں ترجمہ کیا لیکن میں جرمن سمجھتا تھا۔ وہ چلایا کہ ہم کریمیٹوریم کی چمنی کے ذریعے ہی ّزاد ہو سکیں گے۔ اِن الفاظ کے ترجمے کی بجائے مترجم نے کہا کہ "تم ہر چیز پر قابو پا لو گے"۔
ریورینڈ ڈیبروسکی کو جلاوطن کر کے ڈاخو بھیج دیا گیا جہاں اُن پر ملیریا کے تجربات کئے گئے۔ اُنہیں 29 اپریل 1945 کوامریکی فوجیوں نے آزاد کرا لیا اور اُنہوں نے 1949 میں امریکہ آ کر سکونت اختیار کر لی۔
رابرٹ اور اُن کا خاندان یہوواز وھٹنس کا پیروکار کار تھا۔ نازی یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں کو اڈولف ہٹلر سے وفاداری کا حلف نہ اٹھانے یا جرمن فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کی وجہ سے ملک کا دشمن تصور کرتے تھے۔ رابرٹ کے خاندان نے نازیوں کے ظلم کے باوجود اپنی مذھبی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ رابرٹ کی پیدائش سے کچھ ہی پہلے اُن کی والدہ کو مذھبی مواد تقسیم کرنے کے جرم میں مختصر وقت کیلئے قید میں رکھا گیا۔ پیدائش کے دوران رابرٹ کے کولہے میں زخم ہوگیا جس کی وجہ سے وہ معذوری کا شکار ہو گئے۔ جب رابرٹ پانچ سال کے تھے تو اُنہیں حکم دیا گيا کہ وہ شلائر ھائم میں طبی معائنے کیلئے رپورٹ کریں۔ رابرٹ کی والدہ نے عملے کو یہ کہتے سنا کہ انھوں نے رابرٹ کو "سُلا دینے" کا فیسلہ کیا ہے۔ رابرٹ کی والدہ نے اس خوف سے کہ کہیں وہ اُنہیں قتل نہ کر ڈالیں اُنہیں لیکر کلینک سے بھاگ گئیں۔ 1939 کے موسم بہار میں نازی ڈاکٹروں نے ان لوگوں کو منظم طور پر قتل کرنا شروع کر دیا تھا جنھیں وہ ذھنی اور جسمانی طور پر معذور سمجھتے تھے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.