منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
رینے، اُس کی جڑواں بہن رینیٹ اور اُن کے جرمن یہودی والدین پراگ میں رہتے تھے۔ ان جڑواں بہن بھائیوں کی پیدائش سے کچھ ہی دیر قبل رینے کے والدین نازی حکومت کی یہود مخالف پالیسیوں سے بچنے کی خاطر جرمنی کے شہر ڈریسڈن سے فرار ہو گئے تھے۔ چیکوسلواکیہ میں رہنے کی خاطر جرمنی چھوڑنے سے پہلے رینے کے والد ھربرٹ درآمد۔برآمد کے کاروبار میں کام کرتے تھے۔ اُس کی والدہ ایٹا ایک اکاؤنٹنٹ تھیں۔
1933-39 : ہمارا خاندان پراگ میں نمبر 22 ٹرالی لائن کے ساتھ ایک چھ منزلہ اپارٹمنٹ کی عمارت میں رہتا تھا۔ وہاں میری بہن اور میں اپنے والدین کے بیڈروم میں ایک ہی پنگھوڑے میں رہتے تھے۔ وہاں ٹیرس سے باہر کا منظر دیکھا جا سکتا تھا۔ رینیٹ اور میں میچنگ لباس پہنتے تھے اور ہمیشہ خوش لباس رہتے تھے۔ اکثر ہم سارا دن قریبی پارک میں کھیلا کرتے۔ مارچ 1933 میں جرمن فوج نے پراگ پر قبضہ کر لیا۔
1940-45 : میری عمر چھ برس ہونے سے فورا پہلے میرے خاندان کو تھیریسئن شٹٹ گھیٹو سے آشوٹز جلاوطن کر دیا گیا۔ میرے بازو پر نمبر 169061 ٹیٹو کر دیا گیا۔ وہاں مجھے میری بہن اور میری والدہ سے الگ کر دیا گیا اور مجھے بڑے لڑکوں کی بیرک میں رکھ دیا گیا۔ وہاں اکثر لڑکے جڑواں تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ بعض اوقات مجھے ہسپتال لیجایا جاتا باوجود اس بات کے کہ میں بیمار نہیں تھا۔ ہر جگہ میری پیمائش لی جاتی اور ایکس رے کئے جاتے۔ سوویت اور پولش فوجیوں کو گولی مار کر باہر گڑھے میں پھینکا گیا تو ہم لڑکوں نے یہ منظر دیکھا۔
رینے اور اُس کی بہن زندہ بچ گئے اور 1950 میں وہ امریکہ میں ایک دوسرے سے مل گئے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ایک "مینگیلے جڑواں" جوڑے کی حیثیت سے اُنہیں طبی تجربات کیلئے استعمال کیا گیا۔
جیکب ایک مذہبی یہودی خاندان کے سات بیٹوں میں سے ایک تھے۔ وہ وارسا سے 50 میل دور گیبن نامی ایک شہر میں رہتے تھے، جہاں جیکب کے والد ٹوپیاں بنانے کا کام کرتے تھے۔ گیبن میں پولینڈ کی ایک پرانی عبادت گاہ تھی جسے 1710 میں تعمیر کیا گيا تھا اور جو لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ گیبن کے زيادہ تر یہودیوں کی طرح جیکب کے گھر والے بھی عبادت گاہ کے قریب ہی رہتے تھے۔ نو افراد پر مشتمل یہ خاندان ایک تین منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتا تھا۔
1933-39: یکم ستمبر سن 1939 کو میری دسویں سالگرہ سے چند ماہ پہلے جرمنی کی پولینڈ کے ساتھ جنگ شروع ہوئی۔ ہمارے شہر پہنچنے کے بعد انہوں نے عبادت گاہیں اور ان کے آس پاس کے گھروں پر تیل چھڑک کر انہيں آگ لگا دی۔ تمام یہودی مردوں کو بازار میں جمع کیا گیا اور انہيں وہاں پکڑ کر رکھا جبکہ ہماری عبادت گاہ اور گھر جل کر راکھ ہو رہے تھے۔ ہمارے گھر پر بھی تیل چھڑکا گیا تھا لیکن اس کو آگ نہيں لگی۔
1940-45: جب میں بارہ سال کا تھا، مجھے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ مزدوری کے ایک کیمپ بھیج دیا گیا۔ ایک سال سے زيادہ کے بعد، ہمیں آشوٹز بھیج دیا گیا۔ ہمارے پہنچنے کے اگلے دن میرے بھائی چیم کو اور مجھے بچے اور بوڑھوں کے ساتھ ایک قطار میں کھڑا کر دیا گیا۔ میں نے ایک قیدی سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ اس نے بھٹی کی طرف اشارہ کیا "کل اس کا دھواں تم سے جلایا جائے گا۔" اس نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم اپنے بازوؤں پر ایک نمبر ٹیٹو کروا لیں تو ہمیں مارنے کے بجائے کام پر لگا دیا جائے گا۔ ہم چوری چھپے لیٹرین میں گئے۔ پھر پیچھے کے دروازے سے فرار ہو کر ٹیٹو لگوانے آدمیوں کی قطار میں جا کھڑے ہوئے۔
آشوٹز میں سترہ مہینے گزارنے کے بعد جیکب کو زبردستی مارچ کروا کر جرمنی میں کیمپوں میں بھیجا گیا۔ اُنہیں آسٹریا کے قریب اپریل سن 1945 میں آزاد کر دیا گیا اور وہ سولہ سال کی عمر میں امریکہ جا کر بس گئے۔
زلاماخ, عبرانی بولنے والے یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ایک پھیری والے تھے اور پورا خاندان دریائے وسٹولا کے مشرقی کنارے پر وارسا کے پراگا نامی جصے میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں تعلیم ختم کرنے کے بعد زلاماخ فر کا کاروبار سیکھنے لگا۔
1933-39: 1930 کی دہائی میں میرا اپنا فر کا کاروبار تھا۔ اقتصادی دباؤ کے باوجود مجھے امید تھی کہ حالات بہتر ہو جائيں گے تاکہ میرے پاس اپنا گھر لینے اور گھر بسانے کے لئے پیسے جمع ہو سکیں۔ یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ ایک ہفتے بعد جرمنوں نے ہمارے شہر کو گھیر لیا۔ محاصرہ کرنے کے بعد وارسا نے ہتھیار ڈال دئے۔
1940-44: نازیوں نے نومبر 1940 میں ایک یہودی بستی قائم کی۔ اپریل 1943 تک میرے گھر والے یا تو یہودی بستی میں مر چکے تھے یا انہيں جلاوطن کر کے ٹریبلنکا کے موت کے کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔ یہودی بستی کی بغاوت کے بعد مجھے جلاوطن کر کے آشوٹز بھیج دیا گیا۔ میرا کام روزانہ جلائے ہوئے لوگوں کی لاشوں پر مٹی ڈالنا تھا۔ میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ کیا میرے ساتھ بھی یہی ہو گا۔ لیکن میری ڈھارس اس بات سے بنی رہتی کہ میرے بازو پر ٹیٹو کئے گئے نمبر --#128232— کی جمع 18 تھی، جس کو یہودی زندگی کی علامت مانتے تھے۔
جنوری 1945 میں زلاماخ کو جلاوطن کر کے ڈاخاؤ بھیج دیا گیا جہاں اسے امریکی فوجیوں نے یکم مئی سن 1945 کو جبری مارچ کے دوران رہا کرا دیا۔ جولائی 1949 میں وہ ہجرت کر کے امریکہ چلا آیا۔
1939 میں سلاوک فسطائیوں نے ٹوپول کینی قصبے پر قبضہ کرلیا جہاں میسو رہتے تھے۔ میسو کو سلاوک کے تحت چلنے والے نوواکی کیمپ میں جلاوطن کردیا گیا۔ بعد میں اُنہیں آش وٹز کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ آش وٹز میں اُن پر 65,316 نمبر کنداں کر دیا گیا۔ اِس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی تھی کہ 65,315 قیدیوں کے نمبر اُن سے پہلے آ چکے تھے۔ اُنہیں بونا ورکس میں جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا اور پھر برکیناؤ "کاناڈا" ڈی ٹیچمنٹ پر کام پر لگا دیا گیا جہاں وہ آنے والی ریل گاڑیوں سے سامان نکالنے کا کام کرتے تھے۔ 1944 کے آخر میں قیدیوں کو جرمنی کے کیمپوں میں منتقل کردیا گیا۔ میسو لینڈزبرگ سے موت کے ایک مارچ کے دوران بچ کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر امریکی فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرا لیا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.