1933 اور 1945 کے درمیان ،340،000 سے زیادہ یہودیوں نے جرمنی اور آسٹریہ سے ہجرت کی۔ بدقسمتی سے ان میں سے 100،000 کے لگ بھگ افراد نے ان ملکوں میں پناہ لی جنہیں بعد میں جرمنی نے فتح کر لیا۔ جرمن حکام ان کی اکثریت کو جلاوطن اور ہلاک کرنے والے تھے۔ جب جرمنی نے مارچ 1938 میں آسٹریہ پر قبضہ کیا، مشرقی یورپ اور امریکہ میں خدشہ پیدا ہوا کہ پناہ گزینوں کی آمد کا ایک سکسلہ شروع ہو جائے گا۔ مارچ 1938 اور ستمبر 1939 کے درمیان تقریبا 85،000 یہودی پناہ گزین امریکہ پہنچے، لیکن یہ ایمیگریشن کی سطح پناہ کی تلاش کرنے والوں سے بہت کم تھی۔ 1938 کے آخر میں امریکی قونصل خانوں کے باہر مقررہ کوٹے کے تحت 27000 ویزے حاصل کرنے کے لئے 125,000 درخواست گزار قطاروں میں کھڑے رہے۔ جون 1939 تک درخواست گزاروں کی تعداد 300,000 سے زیادہ ہو چکی تھی۔زیادہ تر درخواست گزار ناکام ہو کر یورپ میں پھنسے رہے۔ جولائی 1938 میں پناہ گزینوں کے متعلق منقعد ہونے والی ایوین کانفرنس میں صرف ڈومینیکن ریپبلک نے کہا کہ وہ پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔ تاہم بولیویا نے 1938 اور 1941 کے درمیان 20،000 سے زیادہ یہودی پناہ گزینوں کو قبول کیا۔ دیگر تمام ممالک نے اضافی پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

1930 کی دہائی میں 60،000 سے زیادہ جرمن یہودی ہجرت کر کے فلسطین چلے گئے۔ ان میں سے بیشتر کی ہجرت جرمنی اور فلسطین میں موجود یہودی حکام کے مابین ایک معاہدے کی شرائط کے تحت ہوئی تھی۔ مئی 1939 میں ایک برطانوی قرطاس ابیض میں، جو برطانوی پارلیمان کی منظور کردہ پالیسی کا بیان تھا، فلسطین میں یہودی داخلے کو محدود کرنے کے لئے کئی اقدامات شامل تھے۔ جیسے جیسے مہمان نواز علاقے کم ہوتے گئے، 17,000 جرمن, آسٹرین, اور پولش یہودیوں نے شنگھائی ہجرت کر لی جس میں داخلے کے لئے ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ 1941 کے دوسرے نصف کے دوران، باوجود اس کے کہ نازیوں کے اجتماعی قتل و غارت کی غیرمصدقہ رپورٹیں مغرب تک پہنچ رہی تھی، امریکی ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ نے ہجرت کی پابندیوں کو اور بھی سخت کر دیا۔ اپریل 1945 میں پناہ گزینوں کے متعلق برموڈا کانفرنس کے دوران اتحادیوں نے بچاؤ کے لئے کوئی ٹھوس تجاویز پیش نہیں کیں۔