تیونس کی مہم 5 جنوری 1943 کو سفیکس کے قریب مشرقی تیونس میں اتحادیوں کی بری اور بحری افواج کی آمد اور 17 مارچ 1943 کو مغربی وسط تیونس کے مقام گیفسا کی جرمن پوزیشنوں پر حملے سے شروع ہوئی۔ 4 فروری 1943 کو برطانیہ کی آٹھویں فوج لیبیا کی جانب سے سرحد عبور کر کے تیونس میں داخل ہوئی۔

جرمن جنرل ایرون رومیل جب امریکی اور برطانوی دولت مشترکہ کی فوجوں کے درمیان گھر گئے تو اُنہوں نے دفاعی کارروائیوں کے ذریعے اتحادی افواج کو روکنے کی کوشش کی۔ جرمن اور اطالوی فوجیں 18 فروری کو کیسرین پاس پر امریکہ کی سیکنڈ کور کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن حلیف فوجوں کی تعداد اور اسلحے کی مقدار مقابلتاً بہت کم تھی۔ اتحادی افواج نے سست روی سے مگر متواتر پیش قدمی جاری رکھی اور حلیف فوجیوں کو شمال وسطی تیونس کی سساحلی پٹی میں محدود ہونے پر مجبور کر دیا۔

7 مئی 1943 کو برطانوی ساتویں بکتربند ڈویژن نے تیونس کے دارالحکومت تیونس پر قبضہ کر لیا جبکہ امریکہ کی سیکنڈ آرمی کور نے حلیف فوجوں کے قبضے میں رہنے والی آخری بندرگاہ بیزرٹ پر قبضہ کر لیا۔ 6 دن بعد 13 مئی 1943 کو حلیف فوجوں نے جنہیں صرف تیونس میں 40 ھزار فوجیوں کا نقصان اُٹھانا پڑا تھا، ہتھیار ڈال دئے۔ 2 لاکھ 67 ھزار جرمن اور اطالوی فوجی جنگی قیدی بن گئے۔

شمالی افریقہ کی تمام تر مہم کے دوران جرمنی اور اٹلی کے 6 لاکھ 20 ھزار فوجی مارے گئے جبکہ برطانوی دولت مشترکہ کی فوجوں کو 2 لاکھ 20 ھزار جانوں کا نقصان ہوا۔ صرف تیونس میں امریکہ کے 18,500 فوجی مارے گئے۔ شمالی افریقہ میں اتحادی فوجوں کی فتح کے باعث 9 لاکھ کے لگ بھگ جرمن اور اطالوی فوجی مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ اِس کے بعد اتحادی فوجوں نے 1943 کے موسم گرما میں حلیف فوجوں کے خلاف دوسرا محاذ کھولتے ہوئے سسلی اور اٹلی کے بنیادی علاقے پر حملہ کردیا اور مشرق وسطٰی کے تیل کے ذخائر اور ایشیا اور افریقہ میں برطانوی رسد کے ذرائع کے خلاف حلیف فوجوں کی طرف سے ممکنہ خطرے کو ختم کر دیا۔ یہ اقدام دوسری عالمی جنگ کے دوران بہت حساس نوعیت کی اہمیت کے حامل تھے۔