ہولوکاسٹ کیا تھا؟ 

 ہولوکاسٹ (1933–1945) نازی جرمن حکومت اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں کی جانب سے ایک منظم، سرکاری سرپرستی میں کیا جانے والا ظلم و ستم اور چھ ملین یورپی یہودیوں کا قتلِ عام تھا۔1   ریاستہائے متحدہ امریکہ ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کے مطابق ہولوکاسٹ کے سال 1933 تا 1945 تھے۔ ہولوکاسٹ کے دور کا آغاز جنوری 1933 میں ہوا جب ایڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی جرمنی میں برسرِ اقتدار آئے۔ اس کا اختتام مئی 1945 میں ہوا، جب اتحادی قوتوں نے عالمی جنگِ عظیم دوم میں نازی جرمنی کو شکست دی۔ ہولوکاسٹ کو بعض اوقات "Shoah" بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب عبرانی زبان میں "عظیم تباہی" ہے۔

اسٹارم ٹروپر(ایس اے) اراکین بائیکٹ کے نشانات اٹھائے ہوئے ایک یہودی دکان کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔

جرمنی میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد، نازیوں نے فوراً ہی اجتماعی قتلِ عام شروع نہیں کر دیا تھا۔ تاہم، انہوں نے فوراً ہی یہودیوں کو ہدف بنانے اور انہیں جرمن معاشرے سے نکال باہر کرنے کے لیے حکومت کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ دیگر یہود دشمن اقدامات کے علاوہ، نازی جرمن حکومت نے امتیازی قوانین نافذ کیے اور جرمنی کے یہودیوں کے خلاف منظم انداز میں پُرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا۔ نازیوں کی جانب سے یہودیوں پر ظلم و ستم 1933 اور 1945 کے درمیان شدید نہج پر پہنچ کر انتہا پسندی کی شکل اختیار کر گیا۔ اس شدت اور انتہا پسندی کا نتیجہ اُس منصوبے کی صورت میں نکلا جسے نازی قائدین "یہودیوں کا آخری حل" سے موسوم کرتے ہیں۔"آخری حل" یورپی یہودیوں کا منظم اور باقاعدہ اجتماعی قتلِ عام تھا۔ نازی جرمن حکومت نے اس نسل کشی کا ارتکاب 1941 اور 1945 کے درمیان کیا۔

نازیوں نے یہودیوں کو ہدف کیوں بنایا؟

نازیوں نے یہودیوں کو ہدف اس لیے بنایا کیونکہ نازی بنیادی طور پر یہود دشمن تھے۔ یعنی وہ یہودیوں سے تعصب رکھتے تھے اور ان سے نفرت کرتے تھے۔ درحقیقت، یہود دشمنی ان کے نظریے کا بنیادی اصول اور ان کے عالمی مطمعِ نظر کی اساس تھی۔ 

نازیوں نے یہودیوں پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا تھا کہ وہ جرمنی کے سماجی، معاشی، سیاسی، اور ثقافتی مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ خصوصاً، انہوں نے عالمی جنگِ عظیم اول (1914–1918) میں جرمنی کی شکست کا الزام ان پر لگایا۔ بعض جرمنوں نے ان نازی دعووں کو قبول کیا۔ جنگ ہارنے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے معاشی و سیاسی بحران پر غم و غصے نے جرمن معاشرے میں یہود دشمنی کو پروان چڑھانے میں مدد دی۔ ویمار ری پبلک (1918–1933) کے تحت جرمنی کے عدم استحکام، کمیونزم کے خوف اور عظیم سرد بازاری (گریٹ ڈپریشن) کے معاشی دھچکوں نے بہت سے جرمنوں کو نازی نظریات بشمول یہود دشمنی کا حامی بنا دیا۔

تاہم، نازیوں نے یہود دشمنی کو ایجاد نہیں کیا تھا۔ یہود دشمنی ایک قدیم اور عالمگیر تعصب ہے جو تاریخ میں کئی صورتوں میں نظر آتا رہا ہے۔ یورپ میں، اس کی تاریخ قدیم ادوار سے جا ملتی ہے۔ قرونِ وسطیٰ (500–1400) میں، یہودیوں کے خلاف تعصبات بنیادی عیسائی عقیدے اور نظریے، خصوصاً اس توہم پرستانہ خیال پر مبنی تھے کہ پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے ذمہ دار یہودی ہیں۔ اُس وقت، مذہبی تعصبات میں جڑ پکڑنے والے شکوک و شبہات اور امتیاز ابتدائی جدید یورپ (1400–1800) میں بھی جاری رہے۔ عیسائی یورپ کے بیشتر حصوں میں قائدین نے یہودیوں کو معاشی، سماجی، اور سیاسی زندگی کے بے شمار پہلوؤں سے خارج کر دیا۔ اس اخراج نے یہودیوں کا تاثر غیرملکیوں کے طور پر پیش کیا۔ جیسے جیسے یورپ مزید سیکولر ہوتا گیا، بہت سی جگہوں پریہودیوں سے زیادہ تر قانونی پابندیوں کو اٹھا لیا گیا۔ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہود دشمنی کا خاتمہ ہو گیا۔ مذہبی یہود دشمنی کے ساتھ ساتھ، 18 ویں اور 19 ویں صدی میں یورپ میں دیگر اقسام کی یہود دشمنیوں نے اپنے قدم جمائے۔ ان نئی شکلوں میں معاشی، قوم پرست اور نسلی یہود دشمنیاں شامل تھیں۔ 19 ویں صدی میں، یہود دشمنوں نے یہ جھوٹا الزام عائد کیا کہ یہودی جدید، صنعتی معاشرے میں بہت سی سماجی اور سیاسی برائیوں کے ذمہ دار ہیں۔ نسل، اصلاحِ نسل اور ڈارون کے سماجی ارتقاء کے نظریات نے ان نفرتوں کا جھوٹا جواز پیش کیا۔ متعصب نازیوں نے یہودیوں پر ان تمام عناصر، اور خصوصاً نسلی یہود دشمنی کا اطلاق کیا۔ نسلی یہود دشمنی کے نظریے کے مطابق یہودی ایک الگ تھلگ اور کمتر نسل ہیں۔ 

ایک چارٹ جس کا عنوان ہے:

نازی پارٹی نے نسلی یہود دشمنی کی انتہائی زہریلی شکل کو فروغ دیا۔ یہ پارٹی کے نسل پرست عالمی مطمع نظر کا مرکزی نکتہ تھا۔ نازی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا کو الگ الگ نسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان میں سے بعض نسلیں دوسروں سے برتر ہیں۔ وہ جرمنوں کو مبینہ طور پر برتر"آریائی" نسل کے افراد سمجھتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ "آریاؤں" کو دیگر، کمتر نسلوں کے ساتھ مجبوراً ایک مشکل زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ نازیوں کا مزید عقیدہ یہ تھا کہ نام نہاد "یہودی نسل" تمام نسلوں میں سب سے کمتر اور سب سے خطرناک ہے۔ نازیوں کے مطابق، یہودی ایک بہت بڑا خطرہ تھے جنہیں جرمن معاشرے سے نکالنا ضروری تھا۔ بصورتِ دیگر، نازیوں نے برملا کہا کہ، "یہودی نسل" جرمن عوام کو ہمیشہ کے لیے برباد اور تباہ کر دے گی۔ نازیوں کی طرف سے نسل کی بنیاد پر یہودیوں کی یہ تعریف پیش کرنے والوں میں عیسائی شامل تھے یا پھر وہ لوگ جو یہودی نہیں تھے۔

ہولوکاسٹ کہاں واقع ہوا تھا؟

ہولوکاسٹ نازی جرمن کا ایک اقدام تھا جو پورے جرمنی- اور محوری قوتوں کے زیرِ تسلط یورپ میں واقع ہوا۔ اس نے تقریباً تمام یورپ کی یہودی آبادی کو متاثر کیا، جن کی تعداد 1933 میں 9 ملین تھی۔ 

جرمنی میں ہولوکاسٹ کا آغاز اس وقت ہوا جب جنوری 1933 میں ایڈولف ہٹلر کا تقرر چانسلر کے طورپر کیا گیا۔ اس کے فوری بعد، نازی جرمن حکومت نے (جو خود کو تیسرا رائک کہتی تھی) یہودیوں کو جرمنی کی معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی سے خارج کر دیا۔ 1930 کی پوری دہائی کے دوران، ہجرت کے لیے یہودیوں پر اس حکومت کا دباؤ بڑھتا گیا۔ 

لیکن نازیوں کی طرف سے یہودیوں پر روا رکھا جانے والا ظلم و ستم جرمنی کی سرحدوں سے بھی آگے بڑھ گیا۔ 1930 کی پوری دہائی کے دوران، نازی جرمنی نے ایک جارحانہ خارجہ پالیسی کو اختیار کیے رکھا۔ اس کا نتیجہ عالمی جنگِ عظیم دوم کی صورت میں نکلا، جس کا آغاز 1939 میں یورپ میں ہوا تھا۔ جنگ سے قبل اور جنگ کے دوران علاقائی توسیع کے نتیجے میں لاکھوں مزید یہودی جرمنی کے زیرِ تسلط آ گئے۔ 

نازی جرمنی کی علاقائی توسیع کا آغاز 1938–1939 میں ہوا۔ اس وقت، جرمنی نے پڑوسی ممالک آسٹریا اور سڈیٹن لینڈ کا الحاق اپنے ساتھ کر لیا اور چیک زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ یکم ستمبر، 1939 کو، نازی جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر کے عالمی جنگِ عظیم دوم (1939–1945) کا آغاز کر دیا۔ اگلے دو سالوں میں، جرمنی نے یورپ کے بیشتر حصوں، بشمول سوویت یونین کے مغربی حصوں پر چڑھائی کی اور ان پر قبضہ کر لیا۔ نازی جرمنی نے اٹلی، ہنگری، رومانیہ، اور بلغاریہ کی حکومتوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دے کر اپنے تسلط کو مزید وسیع کر لیا۔ اس نے سلوواکیہ اور کروشیا میں کٹھ پتلی ریاستیں بھی قائم کی۔ ان ممالک نے ساتھ مل کر محوری قوتوں کے اتحاد کے یورپی ارکان تشکیل دیے، جن میں جاپان بھی شامل تھا۔ 

1942 تک — الحاق، حملوں، قبضوں، اور اتحادات کے نتیجے میں — نازی جرمنی نے یورپ کے بیشتر حصوں اور شمالی افریقہ کے حصوں پر اپنا تسلط جما لیا۔ نازی تسلط نے سخت پالیسیاں اپنائیں اور بالآخر پورے یورپ میں یہودی شہریوں کے اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب کیا۔ 

نازیوں، ان کے اتحادیوں اور حلیفوں نے چھ ملین یہودی کو قتل کیا۔

یورپ میں جرمنی فتوحات، 1939-1942

نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں نے یہودیوں پر کیسے ظلم و ستم کیا؟ 

1933 اور 1945 کے درمیان، نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں نے وسیع پیمانے پر یہودی مخالف پالیسیاں اور اقدامات اپنائے۔ یہ پالیسیاں مختلف جگہوں پر مختلف تھیں۔ چنانچہ، تمام یہودیوں کو ایک ہی انداز میں ہولوکاسٹ کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ لیکن ان تمام ہی مواقع پر، لاکھوں لوگوں کو قتل کیا گیا، صرف اس لیے کہ وہ یہودی تھے۔ 

جرمنی کے تمام زیرِ تسلط اور ملحقہ علاقوں میں، یہودیوں پر ظلم و ستم مختلف انداز سے روا رکھا گیا:

  • یہود دشمن قوانین کی شکل میں قانونی امتیازی سلوک۔ ان میں نورمبرگ کے نسلی قوانین اور دیگر بے شمار امتیازی قوانین شامل تھے۔
  • عوامی شناخت اور اخراج کی مختلف شکلیں۔ ان میں یہود دشمن پروپیگنڈا، یہودیوں کے زیرِ ملکیت کاروبار کے بائیکاٹ، عوامی سطح پر تذلیل اور جبری علامات شامل تھیں (جیسے کہ یہودی اسٹار بیج جسے کلائی میں باندھا یا کپڑوں پر ٹانگا جاتا تھا)۔ 
  • منظم تشدد۔ سب سے زیادہ قابلِ ذکر مثال کرسٹل ناخٹ ہے۔ ان کے علاوہ انفرادی واقعات اور دیگر قتل و غارت(پُرتشدد فسادات) بھی پیش آتے تھے۔
  • بے دخلی۔ ظلم کا ارتکاب کرنے والے، یہودی افراد اور کمیونٹیز کو بے دخل کرنے کے لیے انہیں زبردستی ہجرت، نئی جگہ قیام پر مجبور کرتے، بے دخل کرتے، جلا وطن کرتے، اور اقلیتی یہودی بستیوں میں بھیج دیتے تھے۔
  • قید اور نظربندی۔ یہ لوگ یہودیوں کوضرورت سے زیادہ گنجان اقلیتی یہود بستیوں، حراستی کیمپوں، اور جبری مشقت کے کیمپوں میں نظربند کر دیتے تھے، جہاں بہت سے لوگ قحط، بیماری اور دیگر غیر انسانی حالات کے باعث مر جاتے تھے۔
  • وسیع پیمانے پر چوری اور ڈاکہ زنی۔ یہودیوں کی جائیداد، ذاتی املاک، اور قیمتی اشیاء کی ضبطی ہولوکاسٹ کا اہم حصہ تھی۔ 
  • جبری مشقت۔ یہودیوں کو محوری قوتوں کے جنگی امور کی خدمت یا نازی تنظیموں، فوج اور/یا نجی کاروباری اداروں کی بہتری اور فروغ کے لیے جبری مشقت پر لگایا جاتا تھا۔ 

ان پالیسیوں کے باعث بہت سے یہودی مر گئے۔ لیکن 1941 سے پہلے، تمام یہودیوں کا منظم اجتماعی قتلِ عام نازی پالیسی کا حصہ نہیں تھا۔ تاہم، 1941 کے آغاز میں، نازی قائدین نے یورپی یہودیوں کے اجتماعی قتلِ عام کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اس منصوبے کو "یہودیوں کا آخری حل" کا نام دیا۔

"یہودیوں کا آخری حل" کیا تھا؟

نازیوں کا "یہودیوں کا آخری حل" ("Endlösung der Judenfrage") یورپی یہودیوں کا دانستہ اور منظم اجتماعی قتلِ عام تھا۔ یہ ہولوکاسٹ کا آخری مرحلہ تھا اور 1941 سے 1945 تک جاری رہا۔ اگرچہ "آخری حل" شروع ہونے سے پہلے بہت سے یہودی مارے جا چکے تھے، لیکن یہودی متاثرین کی ایک وسیع اکثریت کو اسی عرصے میں قتل کیا گیا۔

آئسسکیز قصبے کے ایک یارڈ میں نوجوان لڑکیوں کا ایک پوز

"آخری حل" کے جزو کے طور پر، نازی جرمنی نے لامحدود پیمانے پر اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب کیا۔ قتل کے دو بڑے طریقے تھے۔ ایک طریقہ تو گولیوں سے بھون ڈالنا تھا۔ جرمن یونٹس نے پورے مشرقی یورپ میں دیہات، قصبوں، اور شہروں کے باہر بندوق کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کیا۔ دوسرا طریقہ زہریلی گیس سے دم گھونٹ کر مارنا تھا۔ گیس سے مار دینے کی کارروائياں قتل گاہوں اور متحرک گیس گاڑیوں میں انجام دی گئیں۔ 

بندوق کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام

نازی جرمن حکومت نے اتنے بڑے پیمانے پر گن فائر کے ذریعے شہریوں کے اجتماعی قتل کا ارتکاب کیا جس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی۔ جون 1941 میں سوویت یونین پر جرمنی کے حملے کے بعد، جرمن یونٹس نے مقامی یہودیوں کے اجتماعی قتل کا آغاز کر دیا تھا۔ سب سے پہلے، ان یونٹس نے فوج میں بھرتی کی عمر کے حامل یہودی مردوں کو ہدف بنایا۔ لیکن اگست 1941 تک، انہوں نے تمام یہودی کمیونٹیز کا وحشیانہ قتلِ عام شروع کر دیا۔ خونریزی کا یہ عمل دن دہاڑے مقامی باشندوں کے مکمل طور پر دیکھتے اور سنتے ہوئے انجام دیا جاتا تھا۔ 

بذریعہ گن فائر اجتماعی قتل کی کارروائیاں پورے مشرقی یورپ کے 1,500 سے زائد شہروں، قصبوں اور دیہات میں کی گئیں۔ جرمن یونٹس جنہیں مقامی یہودی آبادی کے قتلِ عام کا کام سونپا گیا تھا، انتہائی لرزہ خیز خونریزیوں کی داستانیں نقش کرتے ہوئے پورے خطے میں پھیل گئے۔عام طور پر، یہ یونٹس کسی قصبے میں داخل ہوتے تھے اور یہودی شہریوں کو گرفتار کر لیتے تھے۔ اس کے بعد وہ یہودی رہائشیوں کو قصبے کے دور دراز علاقوں میں منتقل کر دیتے تھے۔ پھر، وہ جبری طور پر ان سے ایک اجتماعی قبر کھدوانے کا کام لیتے تھے یا پہلے سے تیار شدہ اجتماعی قبر کے پاس لے جاتے تھے۔ آخر میں، جرمن افواج اور/یا مقامی امدادی یونٹس تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کو گولیاں مار کر ان گڑھوں میں گرا دیتے تھے۔ بعض اوقات، ان خونریزیوں میں خصوصی طور پر تیار کردہ متحرک گیس گاڑیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ یہ ظالم لوگ کاربن مونو آکسائیڈ ایگزاسٹ سے دم گھونٹ کر مارنے کے لیے ان گاڑیوں کا استعمال کرتے تھے۔

جرمنوں نے مقبوضہ مشرقی یورپ کی قتل گاہوں میں بھی اجتماعی قتلِ عام کیا۔ عموماً، یہ بڑے شہروں کے قریب واقع ہوتی تھیں۔ ان شہروں میں یہ شہر شامل تھے: کوونو (کونس) میں فورٹ 9 ،  ریگا میں میں رمبولا اور بکرنیکی جنگل اور منسک کے قریب واقع میلی ٹراسٹینیٹس۔ ان قتل گاہوں میں، جرمنوں اور مقامی حلیفوں نے ریگا، کوونو اور منسک کی اقلیتی یہود بستیوں کے ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا۔ انہوں نے ان قتل گاہوں میں دسیوں ہزاروں جرمن، آسٹرین اور چیک یہودیوں کو بھی گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ میلی ٹراسٹینیٹس میں، ہزاروں لوگوں کو گیس گاڑیوں میں بھی ہلاک کیا گیا۔

وہ جرمن یونٹس جنہوں نے مشرقی یورپ میں اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب کیا تھا، ان میں یہ یونٹ شامل تھے: آئن سیٹس گروپن (ایس ایس اور پولیس کی خصوصی ٹاسک فورسز)، آرڈر پولیس بٹالینز، اور وافن-ایس ایس یونٹس۔ جرمن فوج (Wehrmacht) نے لاجسٹک سپورٹ اور افرادی قوت فراہم کی۔ بعض Wehrmacht یونٹس نے بھی خونریزیاں کیں۔ بہت سی جگہوں پر، ایس ایس اور پولیس کے ساتھ کام کرنے والے مقامی امدادی یونٹس نے اجتماعی قتلِ عام میں حصہ لیا۔ یہ امدادی یونٹس مقامی شہریوں، فوج اور پولیس کے عہدیداروں پر مشتمل تھے۔

سوویت افواج سے ہتھیائے گئے علاقوں میں کم و بیش 2 ملین یہودیوں کو گن فائر یا گیس وینوں کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ 

قتل گاہيں

ڈیوڈ سیموسزول کی تصویر

1941 کے اواخر میں، نازی حکومت نے جرمنی کے زیرِ تسلط پولینڈ میں خصوصی طور پر تیار کردہ، غیر متحرک قتل گاہوں کی تعمیر شروع کی۔ انگریزی میں، قتل گاہوں کو بعض اوقات "خاتمے کے کیمپس" یا "موت کے کیمپس" کہا جاتا ہے۔ نازی جرمنی پانچ قتل گاہیں چلا رہا تھا: چیلمنو، بالزیک، سوبیبور، ٹریبلنکا اور آشوٹز۔برکیناؤ۔ انہوں نے یہ قتل گاہيں صرف اور صرف اس مقصد کے لیے بنائی تھیں کہ یہودیوں کو بڑے پیمانے پر مؤثر انداز میں ہلاک کیا جا سکے۔ ان قتل گاہوں میں قتل کا بنیادی ہتھیار ایک زہریلی گیس تھی جو کہ پوری طرح سے بند گیس چیمبرز یا گاڑیوں میں چھوڑ دی جاتی تھی۔ 

جرمن حکام، اپنے اتحادیوں اور حلیفوں کی مدد سے یہودیوں کو پورے یورپ سے ان قتل گاہوں تک لاتے تھے۔ انہوں نے قتل گاہوں کی طرف جانے والی گاڑیوں کو "دوبارہ آبادکاری کا عمل" یا "اخراجی نقل و حمل" کا نام دے کر اپنے بدنیت ارادوں کو چھپا رکھا تھا۔ انگریزی میں، انہیں عموماً "جلا وطنی" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر جلا وطنیاں بذریعہ ریل انجام دی گئیں۔ یہودیوں کو مؤثر انداز میں قتل گاہوں تک پہنچانے کے لیے، جرمن حکام نے وسیع و عریض یورپی ریل روڈ کے نظام، اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع کا استعمال کیا۔ بیشتر صورتوں میں ٹرینز پر موجود ریل کاریں مویشی یا باربرداری کاریں ہوتی تھیں؛ جبکہ بعض صورتوں میں وہ مسافر کاریں ہوتی تھیں۔ 

جلا وطنی کے ذرائع نقل و حمل پر حالات انتہائی خوفناک ہوتے تھے۔ جرمن اور حلیف مقامی حکام ہر عمر کے یہودیوں کو کھچاکھچ بھری ہوئی ریل کاروں میں زبردستی ڈال دیتے تھے۔ ریل کے اپنے مقام پر پہنچنے تک انہیں بعض اوقات تو کئی کئی دن تک کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا تھا۔ یہ ظالم لوگ انہیں خوراک، پانی، باتھ رومز، حرارت، اور طبی امداد سے بھی محروم رکھتے تھے۔ ان غیر انسانی حالات کے باعث یہودی سفر کے دوران ہی مسلسل مرتے رہتے تھے۔

یہودیوں کی اکثریت جنہیں قتل گاہوں میں پہنچا دیا جاتا تھا، انہیں وہاں پہنچتے ہی فوراً گیس سے مار دیا جاتا تھا۔ بعض یہودی جو جرمن عہدیداروں کے خیال میں صحت مند اور توانا ہوتے تھے، انہیں جبری مشقت کے لیے منتخب کر لیا جاتا تھا۔ 

میری ماں بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھے کندھوں سے پکڑ لیا، اور اس نے مجھ سے کہا "لیبیل، میں تم سے مزید نہیں ملوں گی۔ اپنے بھائی کا خیال رکھنا۔" 

۔۔ لیو شنائیڈرمین آشوٹز میں آمد، انتخاب، اور اپنے خاندان سے علیحدگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ 

پانچوں قتل گاہوں میں، جرمن عہدیدار بعض یہودی قیدیوں کو قتل کے عمل میں مدد پر مجبور کرتے تھے۔ دیگر کاموں کے علاوہ، ان قیدیوں کو مرنے والوں کی املاک ترتیب سے رکھنے اور گیس چیمبرز سے مرنے والوں کے جسم نکالنے کا بھی کہا جاتا تھا۔ خصوصی یونٹس نے لاکھوں لاشوں کو اجتماعی قبروں، آتشی گڑھوں، یا خصوصی طور پر تیار کردہ بڑی بھٹی میں ڈال کر، جلاتے ہوئے ٹھکانے لگایا۔

ان پانچ قتل گاہوں میں تقریباً 2.7 ملین یہودی مردوں، عورتوں، اور بچوں کو قتل کیا گیا۔

اقلیتی یہودی بستیاں کیا تھیں اور جرمن حکام نے ہولوکاسٹ کے دوران انہیں کیوں بنایا تھا؟ 

اقلیتی یہود بستیاں شہروں یا قصبوں کے وہ حصے تھے جہاں جرمن قابضوں نے یہودیوں کو ضرورت سے زیادہ گنجان اور حفظانِ صحت سے عاری حالات میں رہنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ جرمن حکام عموماً ان علاقوں کودیواریں یا دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیتے تھے۔ گارڈز یہودیوں کو بغیر اجازت یہاں سے نکلنے نہیں دیتے تھے۔ بعض اقلیتی یہود بستیاں کئی سالوں تک قائم رہیں، لیکن کچھ بستیاں صرف چند ماہ، ہفتوں، یا حتیٰ کہ دنوں تک ہی موجود رہیں کیونکہ انہیں جلا وطنی یا قتل سے پہلے عارضی قیام گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ 

جرمن عہدیداروں نے سب سے پہلے 1939–1940 میں جرمنی کے زیرِ تسلط پولینڈ میں یہ بستیاں بنائیں۔ دو سب سے بڑی بستیاں وارسا اقر لوڈز  کے مقبوضہ پولش شہروں میں واقع تھیں۔ جون 1941 کے شروع میں، جرمن عہدیداروں نے انہیں سوویت یونین پر جرمن حملے کے بعد مشرقی یورپ کے نئے مفتوحہ علاقوں میں بھی بنایا تھا۔ جرمن حکام اور ان کے اتحادیوں اور حلیفوں نے یورپ کے دیگر حصوں میں بھی اقلیتی یہود بستیاں بنائی تھیں۔ خصوصاً، 1944 میں، جرمنی اور ہنگری کے حکام نے ہنگری سے یہودیوں کے انخلاء سے پہلے یہودیوں کو ایک جگہ جمع کرنے اور کنٹرول کرنے کے لیے عارضی اقلیتی یہود بستیاں بنائی تھیں۔ 

اقلیتی یہودی بستیوں کا مقصد

جرمن حکام نے بنیادی طور پر اقلیتی یہود بستیوں کی تعمیر مقبوضہ مشرقی یورپ میں بڑی مقامی یہودی آبادیوں کو الگ تھلگ رکھنے اور کنٹرول کرنے کے لیے کی تھی۔ ابتدا میں، انہوں نے یہودی رہائشیوں کو شہر کے اندر اور اس کے مضافاتی علاقے یا خطے میں محصور کیا۔ تاہم، 1941 کے آغاز میں، جرمن عہدیدار یہودیوں کو یورپ کے دیگر حصوں (بشمول جرمنی) سے نکال کر بھی ان میں سے بعض اقلیتی یہودی بستیوں میں لائے۔ 

یہودی جبری مشقت بہت سی اقلیتی یہودی بستیوں کی زندگی کی مرکزی خاصیت بن گئی تھی۔ نظریاتی طور پر، ان کی جبری مزدوری کا مقصد یہ بتایا جاتا تھا کہ اقلیتی یہودی بستیوں کے انتظام و انصرام کے لئے ادائیگی میں مدد مل جائے اور اس کے ساتھ ساتھ جرمنی کی جنگی کوششوں میں معاونت فراہم ہو جائے۔ بعض اوقات، قریب ہی فیکٹریاں اور ورکشاپس بنائی جاتی تھیں تاکہ جبری مشقت کے لیے قیدی یہودیوں کا استحصال کیا جا سکے۔ یہ مشقت عموماً ہاتھ سے کیے جانے والے کاموں پر مبنی اور انتہائی دردناک ہوتی تھی۔ 

یہودی بستیوں میں زندگی

وارسا یہودی بستی میں روز مرہ زندگي

اقلیتی یہودی بستیوں میں زندگی انتہائی خستہ حال اور خطرناک تھی۔ وہاں بہت کم کھانا اور صحت و صفائی یا طبی امداد کی محدود سہولیات ہوتی تھیں۔ لاکھوں لوگ قحط؛ وبائی امراض؛ سخت موسمی حالات؛ اور کڑی جبری مشقت کے باعث مر گئے۔ جرمنوں نے قیدی یہودیوں کو خوفناک مار پیٹ، اذیت رسانی، من مانے قتل، اور دیدہ دانستہ تشدد کی دیگر صورتوں کے ذریعے بھی ہلاک کیا۔

اقلیتی یہودی بستیوں میں رہنے والے یہودی عزت اور معاشرت کے احساس کے متلاشی تھے۔ اسکولوں، لائبریریوں، اجتماعی فلاحی خدمات اور مذہبی اداروں نے رہائشیوں کو رابطے کے کچھ مواقع فراہم کیے۔ اقلیتی یہودی بستیوں میں زندگی کی تصویر کشی کی کوششیں، جیسے کہ اونیگ شبات دستاویزی ریکارڈ اور خفیہ فوٹوگرافی، روحانی مزاحمت کی طاقتور مثالیں ہیں۔ بہت سی اقلیتی یہودی بستیوں میں خفیہ تحریکیں بھی تھیں جو مسلح مزاحمت کر رہی تھیں۔ ان میں سب سے مشہور 1943 میں وارسا  اقلیتی یہودی بستی کی شورش ہے۔ 

اقلیتی یہودی بستیوں کا خاتمہ

1941–1942 کے آغاز میں، جرمنوں اور ان کے اتحادیوں اور حلیفوں نے اقلیتی یہودی بستیوں کے رہائشیوں کا اجتماعی قتلِ عام کیا اور ان بستیوں کے انتظامی ڈھانچے کو تحلیل کر دیا۔ وہ اس عمل کو "خاتمہ" کہتے ہیں۔ یہ "یہودیوں کا آخری حل" کا حصہ تھا۔ اقلیتی یہود بستیوں میں رہنے والے یہودیوں کی اکثریت کو یا تو قریبی قتل گاہوں میں یا پھر دور دراز کی قتل گاہوں تک منتقل کر کے اجتماعی طور پر گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا۔ زیادہ تر قتل گاہیں جان بوجھ کر جرمنی کے زیرِ تسلط پولینڈ کی بڑی اقلیتی یہود بستیوں کے قریب یا آسان رسائی کے حامل ریلوے راستوں پر بنائی گئی تھیں۔

ہولوکاسٹ اور آخری حل کے ارتکاب کا ذمہ دار کون تھا؟

بہت سے لوگ ہولوکاسٹ اور آخری حل کے ارتکاب کے ذمہ دار تھے۔ 

بلند ترین سطح پر، ایڈولف ہٹلر نے یورپ کے یہودیوں کی نسل کشی کی ترغیب، حکم، منظوری اور معاونت فراہم کی۔ تاہم، ہٹلر  نے اکیلے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ نہ ہی اُس نے آخری حل پر عملدرآمد کے لیے قطعی منصوبہ مرتب کیا تھا۔ یہ دیگر نازی قائدین ہی تھے جنہوں نے براہِ راست اجتماعی قتلِ عام کو مربوط کیا، اس کا منصوبہ بنایا، اور عملدرآمد کیا۔ ان میں ہرمین گورنگ، ہائنرک ہملر، رائن ہارڈ ہیڈرک اور ایڈولف آئکمین شامل تھے۔ 

تاہم، لاکھوں جرمنوں اور دیگر یورپیوں نے ہولوکاسٹ میں حصہ لیا تھا۔ ان کی شمولیت کے بغیر، یورپ میں یہودیوں کی نسل کشی کبھی ممکن نہ ہوتی۔ نازی قائدین نے جرمن اداروں اور تنظیموں؛ دیگر محوری قوتوں؛ مقامی نوکرشاہوں اور اداروں؛ اور افراد پر انحصار کیا تھا۔ 

جرمن ادارے، تنظیمیں اور افراد

ایڈولف ہٹلر کا ایس اے ریلی سے خطاب

نازی قائدین نے ہولوکاسٹ کے ارتکاب میں مدد کے لیے بہت سے جرمن اداروں اور تنظیموں پر انحصار کیا۔ نازی تنظیموں کے اراکین نے عالمی جنگِ عظیم دوم سے پہلے اور اس کے دوران بہت سے یہود مخالف اقدامات کا آغاز کیا اور انہیں انجام دیا۔ ان تنظیموں میں نازی پارٹی، ایس اے (اسٹورم ٹروپرز یا براؤن شرٹس) اور ایس ایس (Schutzstaffel، حفاظتی اسکواڈرن) شامل تھیں۔ جنگ شروع ہوتے ہی، ایس ایس اور اس کے پولیس معاونین بالخصوص انتہائی مہلک اور خطرناک بن گئے۔ Sicherheitsdienst (ایس ڈی)، گسٹاپو، کریمینل پولیس (Kripo) اور آرڈر پولیس کے افراد نے یورپی یہودیوں کے اجتماعی قتلِ عام میں خاص طور پر فعال اور مہلک کردار ادا کیا۔ آخری علاج کے ارتکاب میں شامل دیگر جرمن اداروں میں جرمن فوج؛ جرمن قومی ریلوے اور صحتِ عامہ کے سسٹمز؛ جرمن سِوِل سروس اور فوجداری انصاف کے سسٹمز؛ اور جرمن کاروباری ادارے، بیمہ کمپنیاں، اور بینک شامل تھے۔ 

ان اداروں کے اراکین کے طور پر، بے شمار جرمن فوجیوں، پولیس اہلکاروں، سرکاری ملازمین، وکلاء، ججز، کاروباری افراد، انجینئرز، اور ڈاکٹرز اور نرسوں نے حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا تھا۔عام جرمنوں نے بھی مختلف طریقوں سے ہولوکاسٹ میں شرکت کی تھی۔ بعض جرمن اس وقت خوشی کا اظہار کرتے تھے جب یہودیوں کو مارا پیٹا یا ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا۔ دیگر لوگ نسلی قوانین اور ضوابط کی عدم تعمیل پر یہودیوں کی مخبری کرتے تھے۔ بہت سے جرمنوں نے اپنے یہودی پڑوسیوں کی املاک اور جائیداد کو خریدا، ہتھیا لیا یا لُوٹ لیا۔ ہولوکاسٹ میں جرمنوں کی شمولیت کو دیگر عوامل کے علاوہ، جوش و جنون، کیریئر میں ترقی، خوف، لالچ، ذاتی مفاد، یہود دشمنی، اور سیاسی پسندیدگیوں سے تقویت ملی۔ 

غیر جرمن حکومتیں اور ادارے

نازی جرمنی نے ہولوکاسٹ کا تنِ تنہا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اس کا انحصار اپنے اتحادیوں اور حلیفوں کی مدد پر تھا۔ اس تناظر میں، "اتحادیوں" سے مراد وہ محوری ممالک ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر نازی جرمنی سے اتحاد کیا تھا۔ "حلیفوں" سے مراد وہ حکومتیں اور تنظیمیں ہیں جنہوں نے باضابطہ یا نیم باضابطہ طور پر جرمن حکام کے ساتھ تعاون کیا۔ نازی جرمنی کے اتحادیوں اور حلیفوں میں شامل تھے:

  • یورپی محوری قوتیں اور دیگر حلیف حکومتیں (جیسے کہ وکی فرانس)۔ ان حکومتوں نے اپنے یہود دشمنی پر مبنی قوانین پاس کیے اور جرمن اہداف کو تعاون بخشا۔
  • جرمنی کی حمایت یافتہ مقامی نوکر شاہی، خصوصاً مقامی پولیس فورسز۔ یہ تنظیمیں جرمنی کے نیدرلینڈ جیسے غیر اتحادی ممالک میں بھی یہودیوں کی گرفتاری، نظربندی اور انخلاء میں مدد دیتی تھیں۔
  • فوج اور پولیس کے عہدیداروں اور شہریوں سے مل کر بنائے گئے مقامی امدادی یونٹس۔ جرمنی کے حمایت یافتہ ان یونٹس نے مشرقی یورپ میں یہودیوں کے ساتھ کی گئی خونریزیوں میں (عموماً رضاکارانہ طور پر) شرکت کی۔ 

"اتحادیوں" اور "حلیفوں" کی اصطلاحات ان افراد پر بھی لاگو ہو سکتی ہیں جو ان حکومتوں اور تنظیموں سے وابستہ تھے۔

پورے یورپ میں موجود افراد

پورے یورپ میں، وہ افراد جن کا کسی حکومت یا ادارے سے کوئی تعلق نہ تھا اور جنہوں نے یہودیوں کے قتلِ عام میں براہِ راست شرکت نہیں کی تھی، انہوں نے بھی ہولوکاسٹ میں اپنا کردار ادا کیا۔ 

ایک مہلک ترین عمل جو پڑوسی، واقف کار، ملازم ساتھی، اور حتیٰ کہ دوست احباب بھی کر سکتے تھے، وہ یہ تھاکہ یہودیوں کی مخبری نازی جرمن حکام کو کر دی جاتی۔ لوگوں کی ایک نامعلوم تعداد نے یہ حرکت بھی کی۔ انہوں نے یہودیوں کی چھپنے کی جگہوں سے آگاہ کر دیا، ان کی جعلی عیسائی شناخت کو آشکار کیا، اور دوسرے طریقوں سے یہودیوں کی مخبری نازی عہدیداروں کو کر دی۔ اپنے اس عمل سے، انہوں نے انہیں موت کے منہ میں ڈال دیا۔ وہ عوامل جن کے تحت ان افراد نے یہ حرکت کی، ان میں شامل تھے: خوف، ذاتی مفاد، لالچ، انتقام، یہود دشمنی، اور سیاسی اور نظریاتی عقائد۔

افراد کو انفرادی سطح پر بھی ہولوکاسٹ سے فائدہ پہنچا۔ غیر یہودی بعض اوقات یہودیوں کے گھروں میں منتقل ہو جاتے، یہودیوں کے کاروبار پر قبضہ جما لیتے، اور یہودیوں کی املاک اور قیمتی اشیاء چرا لیتے تھے۔ یہ سب کچھ وسیع پیمانے پر چوری اور ڈاکہ زنی کی اُن وارداتوں کا حصہ تھا جو نسل کشی کے در پردہ ہو رہی تھیں۔ 

اکثر و بیشتر افراد نے ہولوکاسٹ میں اس طرح حصہ لیا کہ وہ اپنے یہودی پڑوسیوں کی مصیبتوں پر بے حس اور خاموش تماشائی بنے رہے۔ بعض اوقات ایسے افراد کو تماشائی کہا جاتا ہے۔

نازیوں کے ظلم و ستم اور اجتماعی قتلِ عام کے شکار دیگر لوگ کون تھے؟

ہولوکاسٹ تخصیصی طور پر چھ ملین یہودیوں کے منظم، سرکاری سرپرستی میں کیے جانے والے ظلم و ستم اور قتلِ عام کو کہا جاتا ہے۔ تاہم، نازیوں کےظلم و ستم اور قتلِ عام کے شکار دیگر لاکھوں افراد بھی تھے۔ 1930 کی دہائی میں، حکومت نے جرمن معاشرے میں مختلف مبینہ ملکی دشمنوں کو ہدف بنایا۔ جیسے جیسے نازی عالمی جنگِ عظیم دوم کے دوران آگے بڑھتے گئے، لاکھوں دیگر یورپی بھی نازیوں کی خونریزی کا نشانہ بنے۔ 

نازیوں نے یہودیوں کو سب سے بڑے "دشمن" کا درجہ دے رکھا تھا۔ تاہم، انہوں نے جرمنوں کی صحت، اتحاد، اور سالمیت کے لیے خطرہ بننے والے دیگر گروہوں کو بھی ہدف بنایا۔ نازی حکومت کا ہدف بننے والا پہلا گروہ سیاسی مخالفین پر مشتمل تھا۔ ان میں دیگر سیاسی جماعتوں کے عہدیداران و اراکین اور تجارتی انجمنوں کے سرگرم کارکنان شامل تھے۔ سیاسی مخالفین میں وہ افراد بھی شامل تھے جن پر نازی حکومت کی مخالفت یا اس پر تنقید کرنے کا محض شبہ تھا۔ سب سے پہلے سیاسی دشمنوں کو ہی نازی حراستی کیمپوں میں نظربند کیا گیا تھا۔ یہوواہ کے گواہوں (Jehovah’s Witnesses) کو بھی قید خانوں اور حراستی کیمپوں میں نظربند کیا گیا تھا۔ انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے حکومت کی وفاداری کا حلف اٹھانے یا جرمن فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کیا تھا۔

نازی حکومت نے ایسے جرمنوں کو بھی ہدف بنایا تھا جن کی سرگرمیاں جرمن معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی تھیں۔ ان میں مبینہ طور پر ہم جنس پرستی میں مبتلا افراد، پیشہ ور یا عادی مجرم، اور نام نہاد راہب (جیسے کہ آوارہ، فقیر، طوائف، طوائف کے دلال، اور شرابی) شامل تھے۔ ایسے دسیوں ہزاروں افراد کو قید خانوں اور حراستی کیمپوں میں نظربند کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے جبری طور پر ایفرو-جرمنز کی نس بندی بھی کی گئی اور انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ 

نازی حکومت نے معذور افراد کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ عالمی جنگِ عظیم دوم سے پہلے، ایسے جرمنز جن کی وراثتی خصوصیات کو غیر صحتمند سمجھا جاتا تھا، ان کی جبری طور پر نس بندی کر دی جاتی تھی۔ جیسے ہی جنگ شروع ہوئی، نازی پالیسی میں شدت آ گئی۔ معذور افراد، خصوصاً جو اداروں میں رہ رہے تھے، انہیں موروثی اور مالی دونوں لحاظ سے جرمنی پر بوجھ سمجھا گیا۔ نام نہاد آسان موت کا پروگرام (Euthanasia Program) کے نام پر ان لوگوں کو قتل کیا گیا۔

نازی حکومت نے نسلی، تہذیبی، یا نظریاتی دشمن سمجھے جانے والے گروہوں کے خلاف انتہائی سخت اقدامات کیے۔ اس میں روما (خانہ بدوش)، پولش (خصوصاً پولش دانشور اور اشرافیہ)، سوویت عہدیداران، اور جنگ کے سوویت قیدی شامل تھے۔ نازیوں نے ان گروہوں کے خلاف اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب کیا۔

ہولوکاسٹ کا اختتام کیسے ہوا؟ 

نازی جرمنی کی شکست، 1942-1945

ہولوکاسٹ کا اختتام مئی 1945 میں اُس وقت ہوا جب بڑی اتحادی قوتوں (برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین) نے عالمی جنگِ عظیم دوم میں نازی جرمنی کو شکست دی۔ جوں جوں اتحادی افواج جارحانہ تسلسل میں یورپ میں آگے بڑھتی گئیں، وہ حراستی کیمپوں کو پامال کرتی چلی گئیں۔ انہوں نے یہاں باقی بچ جانے والے قیدیوں کو رہا کیا، جن میں سے زیادہ تر یہودی تھے۔ ان اتحادیوں کو نام نہاد موت کے پیدل قافلے (Death Marches) بھی نظر آئے اور انہوں نے ان قافلوں میں باقی بچ جانے والوں کو رہائی دلوائی۔ یہ جبری قافلے یہودی اور غیر یہودی حراستی کیمپ کے قیدی تھے جنہیں ایس ایس گارڈ کی تحویل میں کیمپوں سے نکال کر پیدل چلایا جاتا تھا۔ 

لیکن اس رہائی نے اس صورتحال کو ختم نہیں کیا۔ ہولوکاسٹ میں بچ جانے والے بہت سے یہودی جب اپنی نئی زندگیوں کا آغاز کرنے جا رہے تھے تو انہیں پُرتشدد یہود دشمنی اور جلا وطنی کے مسلسل خطرات کا سامنا رہا۔ بہت سے لوگ اپنے خاندان کے افراد کو کھو چکے تھے، جبکہ باقی لوگ اپنے گمشدہ والدین، بچوں اور بہن بھائیوں کی تلاش میں برسوں تک سرگرداں رہے۔

بعض یہودی ہولوکاسٹ میں کیسے زندہ بچ گئے؟ 

اگرچہ نازی جرمنی کی کوشش تھی کہ یورپ کے تمام یہودیوں کو قتل کر دیا جائے، لیکن پھر بھی بعض یہودی ہولوکاسٹ میں بچ گئے۔ اس طرح زندہ بچ جانے کی مختلف صورتیں ہیں۔ لیکن، ہر صورت میں، ان کی زندگیوں کا بچ جانا صرف حالات کے غیر معمولی گٹھ جوڑ، انفرادی انتخاب، دوسروں کی مدد (یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں کی طرف سے)، اور محض قسمت کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا۔ 

جرمنی کے زیرِ تسلط یورپ سے باہر زندہ بچ جانے والے افراد 

بعض یہودی جرمنی کے زیرِ تسلط یورپ سے فرار ہو کر ہولوکاسٹ سے بچ گئے تھے۔ عالمی جنگِ عظیم دوم شروع ہونے سے پہلے، لاکھوں یہودی ہجرت کے راستے میں عائد خاطرخواہ رکاوٹوں کے باوجود نازی جرمنی سے ہجرت کر گئے تھے۔ وہ لوگ جو ہجرت کر کے جرمنی کے تسلط سے آزاد ریاستہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر علاقوں میں چلے گئے تھے، وہ نازیوں کے تشدد سے محفوظ رہے۔ عالمی جنگِ عظیم دوم شروع ہونے کے بعد بھی، کچھ یہودی جرمنی کے زیرِ تسلط یورپ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ مثال کے طور پر، اندازاً 200,000 پولش یہودی جرمنی کے زیرِ قبضہ پولینڈ سے فرار ہوئے۔ جب سوویت حکام نے انہیں سوویت یونین کے اندرونی علاقوں میں مزید مشرق کی جانب بھیج دیا تو یہ یہودی جنگ کے سخت حالات میں زندہ بچے رہے۔

جرمنی کے زیرِ تسلط یورپ میں زندہ بچ جانا

جرمنی کے زیرِ تسلط یورپ میں یہودیوں کی ایک مختصر تعداد زندہ بچی۔ ان کا بچ جانا عموماً بچانے والے افراد کی مدد سے ہی ممکن ہوا۔ بچانے کی یہ کوششیں لوگوں کے انفرادی اقدامات سے لے کر منظم نیٹ ورکس تک، چھوٹے اور بڑے دونوں پیمانے پر ہوئیں۔ پورے یورپ میں، ایسے غیر یہودی بھی تھے جنہوں نے اپنے یہودی پڑوسیوں، دوستوں اور اجنبیوں کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ مثال کے طور پر، انہوں نے یہودیوں کے لیے چھپنے کی جگہیں تلاش کیں، جعلی کاغذات حاصل کیے جو انہیں حفاظتی عیسائی شناخت مہیا کرتے تھے، یا انہیں خوراک اور سامان مہیا کیا۔ دیگر یہودی حمایتی پارٹی کی مزاحمتی تحریکوں کا حصہ ہونے پر بچ گئے۔ آخر میں، کچھ یہودی ناممکن اور حیرت انگیز طور پر، حراستی کیمپوں، اقلیتی یہودی بستیوں، حتیٰ کہ قتل گاہوں میں بھی زندہ بچ گئے۔ 

نتیجہ

بے دخل ہونے والے افراد کے بیڈ ریخن ھال کیمپ  میں بچے۔

اگرچہ ہولوکاسٹ جنگ کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا، لیکن خوف و دہشت کی میراث اور نسل کشی اب بھی باقی ہے۔ عالمی جنگِ عظیم دوم کے اختتام تک، چھ ملین یہودی اور لاکھوں دیگر لوگ جاں بحق ہوئے۔ نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں نے پورے یورپ میں ہزاروں یہودی کمیونٹیز کو ویران یا مکمل طور پر تہہ و بالا کر دیا۔ 

ہولوکاسٹ کےنتیجے میں، وہ یہودی جو زندہ بچ گئے تھے، انہیں اپنے پورے خاندان اور برادریوں کے کھو جانے کی انتہائی صدماتی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے بعض اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکے اور انہوں نے یورپ میں اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ بے شمار دیگر لوگ جنگ کے بعد ہونے والے تشدد اور یہود دشمنی کے جذبات کے باعث ایسا کرنے سے خوفزدہ تھے۔ جنگ کے فوراً بعد کے دنوں میں، وہ لوگ جو اپنے گھروں کو واپس نہ جا سکے یا واپس نہیں گئے، انہیں گمشدہ افراد کے کیمپوں میں زندگی گزارنا پڑی۔ وہاں، بہت سے افراد کو اپنے نئے گھروں میں جانے سے پہلے کئی سال انتظار کرنا پڑا۔

ہولوکاسٹ کے نتیجے میں، دنیا نسل کشی کی دہشت ناک واقعات کو قبول کرنے، متاثرین کو یاد رکھنے، اور ظلم کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی جدوجہد کرتی آئی ہے۔ ان اہم کوششوں کا تسلسل ہنوز جاری ہے۔