پہلی جنگ عظیم
پہلی جنگ عظیم کا آغاز
پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہلا عظیم بین الاقوامی بڑا تنازعہ تھا۔ 28 جون، 1914ء کو سرائیوو میں تختِ ہپیس برگ کے وارث شہزادہ فرانز فرڈینینڈ اور اس کی بیوی شہزادی صوفی کے قتل نے اس جنگ کی ابتدا کی جو اگست 1914ء میں شروع ہوئی اور اگلی چار دہائیوں تک مختلف محاذوں پر جاری رہی،
پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتیں
پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتیں -- برطانیہ، فرانس، سربیا اور روسی بادشاہت (بعد میں اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی شامل ہو گئے) نے -- جرمنی اور آسٹریہ۔ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خلاف حنگ لڑی (بعد میں سلطنت عثمانیہ اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے)۔
تعطل
جنگ کا ابتدائی جوش و جزبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار کر گئی، خاص طور پر مغربی محاض پر۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا، تقریبا شمالی سمندر سے سوئس سرحد اور بیشتر شمالی امریکہ اور مغربی یورپ کے جنگجوؤں کے لئے جنگ کی سمت متعن ہو گئی۔ مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی، بالقان اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں بھی شدید لڑائی ہوئی۔ لڑائی سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔
پہلی جنگ عظیم میں امریکہ کی شمولیت
اپریل 1917ء میں ایک فیصلہ کن تبدیلی آئی جب جرمنی کی غیر محدود آبدوز جنگ کی پالیسی نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو غیرجانبدرانہ حالت سے جنگ کے بیچ لا کھڑا کر دیا۔ جنرل جون جے پیرشنگ کی قیادت کے تحت امریکی ایکسپڈیشنری فورس (AEF) کی طرف سے تازہ فوج اور سامان کے ساتھ ساتھ جرمن بندرگاہوں میں سخت ناکہ بندی نے بالآخر جنگ کا توازن اتحادی قوتوں کی طرف منتقل کردیا۔
روسی انقلاب
اتحادی قوتوں کیلئے یہ نئی حاصل کردہ برتری، جنگ کے مشرقی محاذ میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے کافی حد تک متوازن ہوئی۔ 1917ء کی ابتدا سے ہی اتحادی قوتوں کا ایک اہم رکن روس بحران کی کیفیت میں رہا۔ اس سال فروری کے مہینے میں جنگ میں زار کی حکومت کی بد انتظامی نے لوگوں کو بغاوت کی طرف دھکیل دیا، جس کو فروری کا انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں زار نکولس دوئم کے عہد کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے بدلے میں روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے اقتدار سنبھال لیا، بنیادی طور پر سوشلسٹ انقلابی پارٹی کے رکن الیگزاندر کیرنسکی کی قیادت کے تحت۔ یہ مختصر تجربہ تکثیری جمہوریت سمیت ایک تباہ کن تجربہ ثابت ہوا، اور موسم گرما کے مہینوں کے دوران جنگ کے باعث بگڑتے اقتصادی حالات کی وجہ سے روسی ملازمین، فوجی اور سیلرز فسادات پر اتر آئے (یہ فسادات "جولائی کے دن" کے نام سے مشہور ہیں)۔
24-25 اکتوبر 1917ء کو ولادی میر لینن کے تحت بالشویک فوجوں نے اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور قصرِ سرد یعنی ونٹر پیلس پر حملہ کیا، اس کے بعد بالشویک، روسی دار الحکومت، پیٹروگراڈ (جو اب سینٹ پیٹرز برگ کہلاتا ہے) میں بر سر اقتدار آ گئے، "عظیم اشتراکی انقلاب اکتوبر"، تاریخ میں پہلے کامیاب مارکسی انقلاب نے غیر مؤثر عبوری حکومت کے قدم اکھاڑ دئے اور بالآخر لینن کی زیر قیادت اشتراکی سوویت جمہوریہ (سوویت یونین) قائم ہوا۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں نئی سوویت ریاست کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور زرعی بنیادی اصلاحات نے مغربی جمہوری حکومتوں کو بے چین کر دیا، جن کو یورپ بھر میں اشتراکیت پھیل جانے کا خطرہ اتنا محسوس ہونے لگا کہ 1920ء اور 1930ء کی حکومتیں دائیں بازو کی حکومتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار ہو گئیں (بشمول ایڈولف ہٹلر کا نازی جرمنی)۔
مگر یورپی اسٹیچ میں روسی انقلاب کا اثر روسی سرزمین میں ایک سفاکانہ اور طویل خانہ جنگی (1917ء-1922ء) اور نئے بالشویک کی قیادت کے تحت جرمنی کے قیصر کے ساتھ امن قائم کرنے کا نتیجہ تھا۔ جب مذاکرات جرمن مطالبات پر پورے نہیں اترے تو جرمن فوج نے تمام امکانی قوت اور مہيا وسائل کے ساتھ مشرقی محاذ پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں 6 مارچ، 1918ء کو Brest-Litovsk کا معاہدہ وجود میں آیا۔
اتحادی قوتوں کی پیش قدمی اور مرکزی قوتوں کا ہار ماننا
1918ء کے موسم سرما کے اواخر میں بالشویک روس کو جنگ سے نکالنے میں جرمنی کی کامیابی اور موسم گرما میں پیرس کے دروازوں تک پہنچنے کے باوجود، اتحادی فوجوں نے مارین (Marne) دریا کے کنارے پر جرمنی فون کا حملہ پسپا کر دیا۔ وہ 1918ء کے موسم گرما اور خزاں کے مہینوں ("سو دن کے جارحانہ حملے") میں مغربی محاذ پر جرمنوں کے خلاف مسلسل پیش قدممی کرتے رہے۔
مرکزی قوتوں نے ہتھیار ڈالنا شروع کردیا، پہلے بلغاریہ نے ستمبر میں اور پھر سلطنت عثمانیہ نے اکتوبر میں۔ 3 نومبر میں آسٹرو-ہنگیرین فوجوں نے اٹلی میں پڈووا کے قریب جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے۔ جرمنی میں کیئل میں بحریہ کے ملاحوں کی سرکشی نے جرمن کے ساحلی شہروں اور ہینور، فرینکفرٹ، اور میونخ کے اہم میونسپل علاقوں میں بڑے پیمانے پر بغاوت پھیلا دی۔ سوویت ماڈل پر مبنی ملازمین اور فوجیوں کی کونسل نے اس نام نہاد "جرمن انقلاب" کو جنم دیا؛ پہلی "کونسلز ری پبلک" بویریا میں آزاد سوشل ڈیموکریٹ کرٹ ایزنر کے تحت قائم ہوئی۔ جرمنی کی مضبوط سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے نزدیک یہ نئی قائم کردہ کونسلیں ایک تخریبی عنصر تھی اور اس نے اس کے بدلے میں پارلیمانی اصلاحات اور امن کیلئے جرمن رائے عامہ کے مطالبات کی حمایت کی۔
عارضی صلح
9 نومبر، 1918ء کو بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے تناؤ اور جرمن فوج کے سربراہوں کی دستبرداری کے بیچ شہنشاہ (قیصر) ولیم II نے جرمنی کا تخت چھوڑ دیا۔ اسی دن، ایس پی ڈی نے فیلیپ شائیڈی مان کو نائب بنا کر بھیجا اور جرمنی میں فرائیڈرش ایبرٹ کو عبوری حکومت کا سربراہ بنا کر نئی جمہوریہ کا اعلان کر دیا۔ دو دن بعد، کیتھولک سینٹر پارٹی زینٹرم کی قیادت میں جرمنی کے نمائدے متھئیس ارزبرگر نے اتحادی قوتوں کے کمانڈنگ جنرل فرانسیسی فیلڈ مارشل فرڈینینڈ فوچ کی قیادت کے تحت فاتح اتحادی قوتیوں کے وفد کے ساتھ کے کومپیگنے جنگل میں ایک ریل کے ایک ڈبے میں ملاقات کی اور عارضی صلح کی شرائط قبول کرلیں۔
11 نومبر، 1918ء کی صبح 11 بجے (11/11) مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اس زمانے کے لوگ اس جنگ کو "جنگ عظیم" کے نام سے منصوب کرتے تھے، یہ بند ہو گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران نقصانات
پہلی عالمی جنگ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہو گئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ البتہ یقین سے تو کوئی تعداد متعین کرنا مشکل ہے مگر اس جنگ میں 21 ملین کے لگھ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔
ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتوں کے علاوہ جنگ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مشینی کیفیت کو روکنے میں فوجی رہنماؤں کی ناکامی اور فرسودہ پالیسی نے، خاص طور پر مغربی محاذ پر، سینکڑوں ہزاروں فوجیوں کی جان لے لی۔ یکم جولائی 1916 کو ایک دن کے اندر سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جب سومے میں موجود برطانوی فوج کے 57 ھزار فوجی مارے گئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اُٹھانا پڑا: جرمنی کے 17 لاکھ 73 ھزار 7 سو اور روس کے 17 لاکھ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16 فیصد سے محروم ہونا پڑا۔
کسی سرکاری ایجنسیوں کے پاس جنگ کے سالوں کے دوران شہریوں میں نقصانات کا ریکارڈ نہیں ہے، مگر محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ ۔ اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے "اسپینش فلو" پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائیداد اور صنعتوں کا نقصان بہت خطیر تھا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں، جہاں لڑائی خاص طور پر شدید تھی۔