امین الحسینی انیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران یروشلم میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے خاندان کے مرد اراکین اٹھارویں صدی کے اختتام کے بعد سے یروشلم کے مفتی کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ یہ پوزیشن حامل شخص کو اسلامی قانون یعنی (شریعت)، روایت اور عملی نمونہ کی بنیاد پر ایسی قانونی رائے (فتوٰی)جاری کرنے کا مجاز بناتی ہے جس پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ <

1918 میں، الحسینی نئے تشکیل شدہ عرب کلب ((النادی العربی)) کے صدر بن گئے جو عرب اتحاد، فلسطین اور شام کی یونین اور فلسطین کی جانب یہودی نقل مکانی کے خاتمے کی وکالت کرتا تھا۔ انہوں نے 1917 کے بالفور اعلامیہ (فلسطین میں یہودی قومی وطن کے قیام کی اجازت نامے کے لئے برطانوی ارادے کے اعلان) کی مذمت کرتے ہوئے 1920 کے موسم سرما میں فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کرنے، اور شام کے ساتھ یونین کو فروغ دینے کی خاطر مظاہروں کا اہتمام کیا۔ 4 اپریل 1920 کو النبی موسٰی تہوار کے دن عرب شہریوں نے بہت سی تقاریر سننے کے بعد یروشلم کے یہودی چوتھائی حصے میں پرتشدد فسادات شروع کر دئے۔ الحسینی نے اپنی تقریر میں فلسطین کو شام میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ فسادات اور لوٹ مار کے چار دنوں میں پانچ یہودی اور چار عرب باشندے مارے گئے اور 211 یہودی اور 33 عرب زخمی ہوئے۔ گرفتاری کے ڈر سے الحسینی بھاگ کر شام چلے گئے۔ اپریل کے آخر میں ایک برطانوی فوجی عدالت نے انہیں بغاوت پر اکسانے کے الزام میں اُن کی عدم موجودگی میں جرم کا مرتکب قرار دیا اور انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی۔ الحسینی کو بعد میں معاف کر دیا گیا اور وہ 1920 کے موسم خزاں میں یروشلم واپس چلے آئے۔

الحسینی یروشلم کے مفتی کے طور پر
اپنے بھائی کی موت کے بعد امین الحسینی 8 مئی 1921 کو یروشلم کے مفتی بن گئے۔ یہ عہدہ فلسطین بھر میں اثر انداز مذہبی اور اخلاقی اختیار کا حامل تھا۔ 9 جنوری 1922 کو الحسینی نئی قائم شدہ سپریم مسلم کونسل (المجلس الاسلامی الاعلٰی) کے صدر بن گئے۔ یہ عہدہ شریعہعدالتوں کو کنٹرول کرتا تھا، دینی مدارس اور یتیم خانوں کے لئے تعلیم کے مندرجات کی منظوری دیتا تھا اور مذہبی مالیاتی مشاورتی بورڈز اور مذہبی مقامات اور اداروں کی بحالی اور تجدید کے لئے (وقف) فنڈز کا استعمال، اور غریبوں کی مدد کے لئے نگرانی کرتا تھا۔ ان فنڈز پر کنٹرول کے باعث فلسطین کے اندر اور دیگر عرب ممالک کے سربراہان کے درمیان اُن کا اثرورسوخ بہت بڑھ گیا۔

برطانوی مینڈیٹ حکام نے الحسینی کی حمایت کی کیونکہ انہوں نے اُن کی ان یقین دہانیوں کو قبول کیا کہ وہ برطانوی حکام کے ساتھ کام کرنے کی خواش رکھتے ہیں اور صرف ان کے پاس ہی فلسطین میں قیام امن کے لئے قومیتی اعتباریت اور خاندانی روابط موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بھی غلط اندازہ لگایا کہ مسلمان کمیونٹی کے رہنما کے طور پر الحسینی کی معاونت فلسطین میں مستقبل کا یہودی وطن قبول کرنے میں عرب رہنماؤں کی مدد کرے گی۔ الحسینی سمجھتے تھے کہ برطانوی حکام کی طرف سے توثیق کے باعث ہی اُنہیں طاقت کی بنیاد فراہم ہوئی اور فلسطین میں اُن کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور اسی توثیق کا تقاضا تھا کہ وہ فسلطین اور خاص طور پر یروشلم میں امن قائم رکھیں۔ اس کے علاوہ مخالف لیڈروں کے خلاف فلسطینی عربوں کی وفاداری قائم رکھنا بھی اُن کے فرائض میں شامل تھا۔ تاہم الحسینی کو حقیقی اور خیالی مفادات کیلئے کوششیں کرنی پڑیں جن میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ اور وہاں یہودی ریاست کی تشکیل کی مخالفت کرنا شامل تھا۔ الحسینی نے اپنی تقاریر، تحریروں اور عمل کے ذریعے یہودی شہریوں اور برطانوی حکام کے خلاف تشدد کی حوصہ افزائی کی یا کم ازکم اس کی پیش بینی کی۔ اس بات سے قطع نظر کہ اُنہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی، الحسینی کو اس تشدد سے سیاسی طور پر فائدہ ضرور حاصل ہوا۔ اگرچہ تشدد ان کے اختیار سے باہر نکل گیا تھا، تاہم برطانوی حکام نے اپنی حمایت واپس لے لی، جو اُن کی سیاسی طاقت کی بنیاد تھی۔ جب کبھی یہ اُن کے سیاسی مفادات کیلئے موزوں ہوتا تو وہ تشدد کی حوصلہ شکنی کرتے اور برطانوی حکام کے ساتھ تعاون پر زور دیتے۔

اگست 1929 میں فلسطین میں یہودیوں کے خلاف تشدد دوبارہ شروع ہو گیا۔ 23 اگست کو عرب ہجوم نے یروشلم کے راسخ العقیدہ یہودی کواٹر کا رخ کیا اور یروشلم میں، دیوار مغرب یا دیوار گریہ سے یہودیوں کے لئے رسائی دینے پر تشدد کی ایک لہر کا آغاز کر دیا جس نے علاقائی تشدد کو پھیلا دیا جس سے 133 یہودی اور 116 عرب مارے گئے اور 339 یہودی اور 232 عرب زخمی ہوئے۔ الحسینی کے ذہن میں یہ تصور پنپ گیا کہ دیوار (یہودیوں کے لئے مقدس ترین جگہ) تک آزادانہ رسائی کیلئے یہودیوں کے مطالبہ نے الاقصٰی اور قبة الصخرة (اسلام میں مقدس ترین مقامات میں سے ایک) کے حقیقی وجود کیلئے ایک خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس طرح سے اُنہوں نے مذہبی کشیدگی میں شدت پیدا کر دی، یہودی ہجرت اور زمین کی خریداری کے لادینی مسئلے کو مذہبی جوش و خروش کےساتھ ہوا دی، یہودیوں کی فلسطین میں موجودگی کو مذہب اسلام کیلئے حقیقی خطرہ سے تعبیر کیا اور سیاسی تنازعہ کو بین الاقوامی بنا کر فلسطینی عرب رہنماؤں کے درمیان اپنے سیاسی مقام کو مستحکم کیا۔ اس بات کا دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے کہ الحسینی نے تشدد کی حوصلہ افزائی کی یا اسے بھڑکایا لیکن اُنہوں نے اسے روکنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ فسلطین میں فسادات کے بعد انہوں نے خود کو اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کے ایک ممتاز محافظ کے طور پر پیش کیا۔ اُنہوں نے اپنے بنیاد پرست پیروکاروں کو نصیحت کی کہ برطانوی حکام کے ساتھ ایک تشدد آمیز تصادم فلسطینیوں کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

1930 کی ابتدا کے دوران، الحسینی نے عرب فلسطین کی خود مختاری، عرب ریاستوں میں زیادہ اتحاد، اور یہودیوں کی فلسطین میں شدت کے ساتھ مخالفت کیلئے اپنی بین الاقوامی شہرت اور وقار کو استعمال کیا۔ مشرق وسطیٰ میں موجود بہت سے گروپ، جن کے ساتھ الحسینی نے روابط استوار کئے، اُن میں سے ایک سوسائٹی آف مسلم برادرہڈ (مسلمان بھائی چارہ) تھا، ایک بنیاد پرست، پین-اسلامی گروپ، جس کی بنیاد مصر میں رکھی گئی تھی۔ اگست 1935 میں سوسائٹی نے اپنے دو رہنماؤں کو ایک باضابطہ مشن پر فلسطین، شام اور لبنان روانہ کیا۔ فلسطین میں انہوں نے الحسینی کے ساتھ ملاقات کی جنہوں نے ان کی معاونت کا خیر مقدم کیا اور بعد میں انہیں شام میں بنیاد پزیر اسلامی راہنمائی انجمن کے رہنما سے متعارف کرایا۔

فلسطین میں یہودیوں کی نقل مکانی پر کشیدگی اور فسادات
1933 میں نازیوں کے حصول اقتدار نے پناہ گزینوں کا ایک بڑا بحران پیدا کر دیا کیونکہ جرمنی کے یہودیوں نے ظلم و ستم سے محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ 1933 اور 1936 کے درمیان بہت سے یہودیوں نے جرمنی سے دنیا میں کہیں بھی جگہ جانے کے بجائے فلسطین ہجرت کی۔ تقریباً 154,300 یہودی (بشمول جرمنی سے 34,700) فلسطین میں قانونی طور پر اور ہزاروں مزید غیرقانونی طور پر داخل ہو گئے، جس نے فلسطین میں یہودی آبادی 1931 کے تقریباً 17 فیصد کے مقابلے میں 1935 میں تقریباً 30 فیصد تک بڑھ گئی۔ 1936 کے موسم بہار میں یہودیوں کی نقل مکانی اور زمین کی خریداری پر کشیدگی اور ایک فلسطینی انتظامی ادارہ قائم کرنے میں ناکامی کے نتیجہ میں طویل المدتی تشدد ابھر آیا جسے اکثر عرب بغاوت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جب مینڈیٹ حکومت نے ہنگاموں میں 9 یہودیوں کی ہلاکت اور 57 کے زخمی ہونے پر ہنگامی حالت کا اعلان کیا تو عرب قوم پرست رہنماؤں نے آزادی کے لئے ایک قومی کمیٹی قائم کی اور عام ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ الحسینی کو ابگریضوں کے ساتھ رابطے ختم ہونے سے سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ تھا۔ اُنہوں نے شروع میں کوئی واضح مؤقف ختیار نہ کیا مگر بعد میں اُنہوں نے نئی یشکیل شدہ عرب ہائر کمیٹی کی صدارت سنبھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ 25 اپریل کو کمیٹی نے فلسطین میں یہودیوں کی نقل مکانی کو روکنے، عرب زمینوں کی یہودیوں کو منتقلی پر پابندی عائد کرنے اور ایک عرب قومی حکومت قائم کر نے کا مطالبہ کر دیا۔ الحسینی کی برطانوی ہائی کمشنر کو یقین دہانیوں کے باوجود وسط مئی میں ہڑتال فسادات میں تبدیل ہو گئی۔ اکتوبر تک تشدد میں 306 افراد ہلاک اور 1,322 زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے 277 افراد عام شہری تھے جن میں 187 مسلمان، 80 یہودی اور 10 عیسائی شامل ہیں۔ برطانوی فوجی کمک سے خوفزدہ ہونے اور عرب کاروباروں کے لئے خطیر اقتصادی نقصان کی بنا پر عرب ہائر کمیٹی نے 12 اکتوبر 1936 کو ہڑتال کے خاتمے کا سمجھوتہ کر لیا۔ اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ "عرب قوم" مسلمان عربوں کے مقدس مقام پر یہودیوں کے قومی وطن کیلئے رضامند نہیں ہو گی، الحسینی نے برطانوی حکام کو یہ یقین بھی دلایا کہ وہ قوم کے حقوق پر زور دیتے ہوئے قانونی راستے اختیار کرنے کے متمنی ہیں۔ "

برطانوی حکام نے صورت حال جاننے اور سیاسی تصفیے کی تجویز پیش کرنے کیلئے پیل کمشن کو فلسطین بھیجا۔ کمیشن کے سامنے الحسینی کی شہادت سے یہ اخذ کیا گیا کہ ایک آزاد فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔ 6 جنوری 1937 کو ایک بیان میں عرب ہائر کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ مینڈیٹ حکومت کو برخواست کیا جائے اور فلسطین کو اپنی حکومت قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ جب 7 جولائی 1937 کو کمشن کی رپورٹ نے تقسیم کی سفارش کی تو بنیاد پرستوں میں تشدد کی ایک نئی لہر نے جنم لیا۔ الحسینی کے دستخط کے تحت ایک نئے بیان میں عرب ہائر کمیٹی نے یہودی نقل مکانی اور زمین کی خریداری کو روکنے اور فلسطین میں قومی جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا اور یہودیوں کے "جائز حقوق" کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا۔

17 جولائی 1937 کو الحسینی برطانوی حکام، جنہیں اُن کی شام، عراق اور سعودی عرب کے ذرائع سے مالیاتی اور سفارتی معاونت تلاش کرنے کی کوششوں کی وجہ سے تخریب کاری کا شک تھا، کی طرف سے گرفتاری سے بچنے کے لئے فرار ہو کر قبة الصخرة کے مقدس مقام میں پناہ لے لی۔ جب بڑھتی ہوئی بغاوت الحسینی کے اختیار سے باہر نکل گئی، عرب ہائر کمیٹی نے 31 اگست کو بنیاد پرستوں سے آخری بار خود کو قابو میں رکھنے کی اپیل کی۔ 26 ستمبر کو باغیوں کی جانب سے گلیلی/گرجا کے ضلعی کمشنر کو قتل کئے جانے کے بعد برطانیہ نے عرب ہائر کمیٹی کو برخواست کر دیا اور اس کے اراکین کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے الحسینی کو مفتی، صدر برائے سپریم مسلم کونسل، اور وقفکے منتظم کے عہدوں سے برخواست کر دیا۔ وسط اکتوبر 1937 میں الحسینی مکمل طور پر پرتشدد بغاوت میں مصروف عمل ہو کر لبنان کی جانب فرار ہو گئے۔ 1938 کے موسم خزاں میں برطانوی حکام نے عرب بغاوت کو کچل دیا۔ فسادات میں 206 یہودی شہری، 454 عرب شہری اور 175 مینڈیٹ حکام کے ملازمین مارے گئے۔ اس کے علاوہ برطانوی فوجی دستوں نے 1,138 مسلح عرب باغیوں کو ہلاک کیا۔

برطانوی حکام نے الحسیسنی کو 1936-1937 میں بغاوت کے ساتھ غیر واضح طور پر کبھی منسلک نہیں کیا۔ اس میں تھوڑا شبہ ہو سکتا ہے تاہم مفتی نے انتہا پسندوں کے ساتھ رابطوں کو برقرار رکھا اور جب انہوں نے مناسب موقع جانا، چوری چھپے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے تشدد کو کم کرنے کی کوشش بھی کی جب یہ فلسطین میں اُن کے اثر و رسوخ کے لئے ایک خطرہ نظر آنے لگا۔ 1939 کے موسم سرما کے دوران فلسطین میں عرب اور یہودی رہنماؤں کے درمیان بے نتیجہ مذاکرات کی میزبانی کے بعد برطانوی حکومت نے مئی 1939 کا وھائیٹ پیپر جاری کر دیا۔ اس وھائیٹ پیپر نے ملک میں دو تہائی عرب اکثریت کی ضمانت دیتے ہوئے اگلے پانچ سالوں میں یہودیوں کی ہجرت کو 75,000 تک محدود کر دیا۔ اس نے زمین کی منتقلی کو بھی پابند کر دیا، اور 10 سال کے اندر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا۔ اگرچہ وھائیٹ پیپر نے برطانوی حکومت کو نمایاں طور پر عرب پوزیشن کی جانب جھکا دیا، لبنان میں جلاوطن الحسینی سمیت عرب رہنماؤں نے اسے مسترد کر دیا۔

جرمنی اور اٹلی کے ساتھ الحسینی کے ابتدائی روابط
الحسینی نے یروشلم کے مفتی کی حیثیت سے 1933 کے شروع میں فسطائی اٹلی اور نازی جرمنی سے مدد طلب کی۔ نازی جرمنی کی یہود مخالف انتہا پسندی اور مغربی جمہوریتوں (برطانیہ اور فرانس) کے ساتھ دشمنی کے باعث مفتی نے محسوس کیا کہ فلسطین میں عرب مقاصد کیلٰے جرمن ایک فطری اتحادی ہو سکتا ہے۔ الحسینی نے 1933 کے شروع میں جرمن دفتر خارجہ کے حکام سے رابطہ کیا۔ 1938 میں ان کے جرمن مسلح افواج کی ہائی کمان (اوبرکمانڈو دیر وہرماخٹ ۔ او کے ڈبلیو-) ملٹری انٹیلیجنس سروس ( ایمٹ آؤسلینڈ/ ایبوہر، یا ایبویہر کے ساتھ بھی روابط استوار ہو چکے تھے۔ تاہم الحسینی نے عرب دنیا کیلٰے جرمنی کی دلچسپی کا غلط اندازہ لگایا۔ 1938 کے آخر تک جرمنوں نے، جو برطانیہ عظمیٰ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے، عربوں کی آزادی کی معاونت کرنے یا باغیوں کو مادی امداد فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ عرب باغیوں نے کم از کم 1936 کے شروع میں فسطائی اٹلی اور دیگر عرب ریاستوں سے فنڈز اور ہتھیار وصول کئے۔

الحسینی کی لبنان اور عراق میں جلا وطنی
دوسری جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد لبنان میں فرانس کی بڑھتی ہوئی نگرانی نے الحسینی کو عراق منتقل ہونے پر مجبور کر دیا، جو برائے نام آزاد تھا، لیکن جون 1940میں فرانس کی شکست کے بعد برطانوی اثر و رسوخ میں چلا گیا۔ الحسینی نے عراق میں اتحادیوں اور محوری قوتوں دونوں سے امداد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عراقی حکومت سے بھی مالی امداد حاصل کی۔ انہوں نے بغداد میں رہتے ہوئے ممتاز عراقی سیاستدان راشد علی الکیلانی اور عراقی فوج میں کئی محوری طاقتوں کے حامی افسران کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ یکم اپریل 1941 کو انہوں نے برطانیہ نواز عراقی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایک حکومت قائم کی جس میں الکیلانی وزیر اعظم اور الحسینی جرمنی اور اٹلی کے ساتھ رابطہ کار مقرر ہوئے۔ جب الکیلانی حکومت نے ہندوستان سے برطانوی فوجوں کو عراق کے راستے سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا تو برطانوی حکومت نے عراق پر حملہ کر دیا۔ جیسے ہی برطانوی افواج بغداد کے قریب پہنچیں، الکیلانی اور الحسینی، جو محور قوتوں سے مناسب معاونت حاصل کرنے میں ناکام ہو چکے تھے، 29 مئی کو ایران فرار ہو گئے۔ اس برس کے موسم خزاں میں اطالوی حکام نے الحسینی کو ایران سے اٹلی اسمگل کر دیا۔ وہ 11 اکتوبر 1941 کو روم پہنچے۔

عراق میں قیام کے دوران، الحسینی نے محور ممالک سے عوامی طور پر حمایت کے اعلان کیلئےکوشش کی تھی جس میں یہ چیزیں شامل ہوں: 1) برطانوی اور فرانسیسی تسلط سے عربوں کی آزادی؛ 2) آزاد عرب ممالک کو کسی نہ کسی شکل میں متحد کرنے کی آزادی؛ 3) اور فلسطین میں مجوزہ یہودی وطن کا خاتمہ۔ اُنہوں نے عرب بغاوت کے لئے فوجی اور مالی امداد حاصل کرنے کی کوششیں بھی کیں، جس کیلئے اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ یہ بغاوت مؤثر طور پر منظم کر سکتے ہیں بشرطیکہ اُنہیں محور قوتوں کی طرف سے کھلے عام حمایت حاصل ہو۔ 1939 کی ابتداء میں جرمنوں نے اندرونی طور پر ایسے معاملات پر بحث شروع کر دی۔ 1941 کے موسم بہار تک وہ معاونت فراہم کرنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن عربوں کی آزادی کی تجاویز سے متعلق اُنہیں پریشانی لاحق رہی۔ جرمن اطالویوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے جو شمالی افریقہ اور مشرقی بحیرہ روم کے کچھ حصوں (لبنان اور شام) کو اپنے دائرہ اثر و رسوخ میں سمجھتے تھے۔ اور نہ ہی وہ جنرل چارلس ڈیگال کی آزدانہ فرانسیسی تحریک کی کال کا جواب دینے کیلئے وکی فرانس کے نو آبادیاتی منتظمین کو ترغیب دینے کی خواہش رکھتے تھے۔ 1941 کے موسم سرما میں الحسینی کی ہٹلر سے براہ راست اپیل کے باوجود جرمنی نے ان کا درخواست کردہ بیان جاری نہیں کیا۔

1941 کے موسم بہار میں جرمن دفتر خارجہ نے تخریب کاری کی کارروائیوں کے لئے الحسینی کے نیٹ ورک کو استعمال کیا، اور ایبویہر کو مالی امداد فراہم کرنے کے لئے مجاز بنایا۔ اگر عرب برطانیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو جرمنی براہ راست فوجی امداد فراہم کر دیتا۔ جرمنی الحسینی کو اپنی دیکھ بھال کے لئے بھی خرچ و رقوم بھیجنے پر تیار تھے۔ جب برطانوی فوجیں بغداد کی طرف پیش قدمی کرنے لگیں تو فوجی اور مالی امداد کی بیتاب درخواستوں کے جواب میں جرمن دفتر خارجہ نے الحسینی کو پہلی بڑی نقد ادائیگی فراہم کی۔ اس مالی مدد کے جواب میں اُن سے "مستقبل قریب میں فلسطین میں ایک بڑی کاروائی کو سرانجام دینے" کی توقع کی گئی۔ 9 مئی کو الحسینی نے تمام مسلمانوں کو انگلستان کے خلاف مقدس جنگ میں عراق کی معاونت پر زور دیتے ہوئے بغداد کے ریڈیو پر ایک فتوٰیجاری کیا۔ برطانیہ نے 2 جون 1941 کو بغداد پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی افواج کی آمد سے قبل عراقی شہریوں نے 1-2 جون، 1941 کو بغداد کی یہودی آبادی کے خلاف ایک پروگرام مرتب کیا، جسے فرحود کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت 128 یہودیوں کی جانیں لے لی گئیں اور تقریباً 1,500 کاروباری اداروں اور گھروں کو تباہ کر دیا گیا۔ اگرچہ بعد میں الحسینی نے عراق میں شکست کا الزام یہودیوں پر لگایا تاہم دستیاب دستاویزات میں اُن کے الفاظ یا افعال کی کسی طور فرحود سے منسلک ہونے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے۔ فلسطین میں دوبارہ کسی بغاوت کی تشکیل نہیں ہوئی۔

مزید معلومات کے لئے، دیکھیں:

1. حاجی امین الحسینی: یروشلم کا مفتی
2. حاجی امین الحسینی: جنگ کے وقت کا داعی
3۔ حاجی امین الحسینی: ٹائم لائن