1945 میں جنگ کے احتتام پر یورپ کے بچے کھچے یہودیوں نے گھر والوں کی تلاش کا مشکل اور تکلیف دہ عمل شروع کردیا۔ والدین نے مختلف کانوینٹ، یتیم خانوں یا رضاعی خاندانوں کے ساتھ رکھوائے جانے والے بچوں کی تلاش شروع کردی۔ یورپ میں مقامی یہودی کیمٹیوں نے زندہ رہنے والوں کو رجسٹر کرنے اور مردہ لوگوں کی تعداد کا تعین کرنے کی کوشش کی۔ بین الاقوامی ریڈ کراس اور یہودی ریلیف تنظیموں کی قائم کردہ سراغ رساں خدمات نے مدد فراہم کی لیکن اکثروبیشتر کھوج کی ایسی کوششیں بہت لمبی چلیں کیونکہ نازیوں، جنگ اور وسطی اور مشرقی یورپ میں آبادیوں کی اجتماعی نقل مکانی اور آبادکاریوں کی وجہ سے لاکھو‎ں افراد بے دخل ہو گئے تھے۔

گھر والوں کی کھوج رشتہ داروں کی تلاش سے کہیں زیادہ تھی۔ بچوں کے لئے اپنی اصلی شناخت دوبارہ تلاش کرنے کے لئے اکثر دل ٹٹولنے کی تکلیف دہ صورت حال سے سابقہ پڑتا تھا۔ چھپائے جانے والے شیرخوار بچوں کو اپنے سگے والدین یاد نہيں تھے اور نہ ہی انہیں اپنی یہودی شناخت کا علم تھا۔ وہ صرف اپنے بچانے والوں کے خاندان کو ہی جانتے تھے۔ نتیجے کے طور پر جب انہیں رشتہ دار یا یہودی تنظیمیں ڈھونڈ لیتیں تو انہيں اکثر ڈر لگا رہتا تھا اور کبھی کبھار وہ ایک اور تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔

جیسے جیسے علاقوں کو جرمن اقتدار سے رہا کرایا گیا، یہودی تنظیميں بچ جانے والوں کو تلاش کرنے اور اُنہیں خاندانوں سے دوبارہ ملانے کے لئے سرگرم ہو گئیں۔ ہرجگہ انہیں ہالوکاسٹ کی ڈھائی ہوئی قتل و غارت نظر آئی۔ مثال کے طور پر پولینڈ کے شہر لوڈز میں نازيوں نے 220،000 سے زائد یہودی آبادی کو گھٹا کر 1000 سے کم کردیا تھا

جنگ کے بعد یہودی والدین کو اپنے چھپے ہوئے پچے تلاش کرنے میں مہینوں اور سالوں لگ جاتے تھے۔ اگر وہ خوش قسمت ہوتے تو انہيں اپنے بچے اُن لوگوں کے پاس مل جاتے جنہوں نے اُنہیں بچا لیا تھا۔ تاہم بہت سے والدین اپنے بچوں کو تلاش کرنے کے لئے سراغ رساں اداروں، اخباروں ميں شائع ہونے والے نوٹسں اور بچنے والوں کی رجسٹریوں کے ذریعے کھوج لگانے کی کوشش کرتے رہے۔

اکثر خاندان کی تلاش کا نتیجہ ایک المیے کی صورت میں ہی برامد ہوتا۔ والدین کے لئے المیہ یہ تھا کہ ان کا بچہ یا تو مارا گیا تھا یا غائب ہوگیا تھا۔ چھپے ہوئے بچوں کے لئے یہ تھا کہ انہيں واپس لینے کے لئے ان کے خاندان کا کوئی فرد باقی نہ تھا۔

سپردگی کی لڑائیاں اور یتیم بچے

سینکڑوں صورتوں میں بچانے والے افراد نے بچوں کو ان کے گھر والے یا یہودی تنظیموں کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ چند نے بچوں کے عوض قیمت کا مطالبہ کیا۔ دوسروں کو ان بچوں سے انسیت ہوگئی تھی اور وہ انہيں دینا نہيں چاہتے تھے۔ زیادہ مشکل مثالوں میں بچے کی کسٹڈی کا فیصلہ عدالت میں کیا جاتا تھا۔ چند بچانے والوں نے عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کو دوسری دفعہ چھپا دیا۔

ہزاروں یتیم یہودی بچوں کا مستقبل ایک سنگین مسئلہ بن گیا تھا۔ نیدرلینڈ میں 4000 سے 6000 یہودی بچوں میں سے آدھے سے زیادہ کو "جنگی رضاعی بچے" یعنی اورلوگزپلیگ کنڈرن قرار دے دیا گیا اور زیادہ تر بچوں کو ایک ریاستی کمیٹی کی سرپرستی میں دے دیا گیا۔ اکثریت کو بچ جانے والے گھر والوں یا یہودی تنظیموں کو دے دیا جاتا لیکن 300 سے زائد کو غیریہودی گھرانوں میں دے دیا گیا۔

شکستہ شناخت

بچوں کو بازیاب کرنے کے خواہش مند والدین، رشتہ دار یا یہودی تنظیموں کے نمائندوں کو متضاد جذبات، مخالفت اور کبھی کبھار مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کئی سالوں تک اپنی اصلی شناخت چھپانے کے بعد کچھ چھپے ہوئے یہودی بچوں کے لئے یہودی ہونے کا مطلب آزاردہی جبکہ عیسائیت کا مطلب تحفظ تھا۔ کچھ بچے اسکول میں اپنے ساتھ پڑھنے والوں اور بڑوں سے سیکھے گئے سام دشمن فقرے بھی دہراتے تھے۔ جن بچوں کو بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے اپنے والدین یاد نہيں تھے، وہ صرف اپنے رضاعی خاندان، مذہب اور اکثر قومیت کو ہی جانتے تھے۔ کئی تو اپنے رضاعی خاندانوں سے محبت کرتے تھے اور انہوں نے کسی "اجنبی" کے پاس جانے سے صاف انکار کردیا۔ چند بچوں کو اپنے رضاعی خاندانوں سے زبردستی الگ کرنا پڑا۔ جنگ کے ختم ہونے سے کئی چھپے ہوئے بچوں کے دردناک تجربات کم نہيں ہوئے۔

یادداشت برقرار رکھنا

جنگ کے فوراًً بعد ہالوکاسٹ میں بچنے والوں نے یہودیوں کے خلاف نازیوں کے جرائم کے بارے میں لکھنا، اپنے تجربات بیان کرنا اور مارے جانے والوں کی یادگار بنانا شروع کردیا۔ یہ کوششیں اکثر ماضی کے دردناک سفر کی مانند ہوتیں۔ 1948 تک پولینڈ، ہنگری اور جرمنی کی یہودی تنظیموں نے 10,000 سے زائد تحریری شہادتیں جمع کرلی تھیں۔

سینکڑوں چھپے ہوئے بچوں نے اپنی زندگی کی سخت تکلیف کی داستان سنائی۔ بہت سے افراد نے اپنا وہ ماضی بازیاب کرنے کی کوشش کی جسے نازیوں نے چرا لیا تھا- اپنے گھر والے جن کے بارے میں انہيں کبھی کوئی بھی علم نہ تھا یا جو اب صرف بھولی بسری یادیں بن کر رہ گئے تھے اور ان کے نام بھی بدل دئے گئے تھے۔ کچھ دوسرے افراد حیرت زدہ رہ گئے جب اُنہیں معلوم ہوا کہ وہ یہودی ہیں۔ اپنی سابقہ زندگیوں کے اندھیرے کونوں میں جھانک کر بچ جانے والے یہ خاص لوگ اُنہیں جنم دینے والے والدین، بچانے والے افراد اور ایک وقت کی یادیں برقرار رکھتے ہيں جس کے ان پر حاوی ہو جانے کا خطرہ تھا۔