نومبر 1942 میں اتحادی فوجوں کے شمالی افریقہ میں پہنچنے کے باوجود مراکش، الجزائر اور تیونس میں یہودیوں کی صورت حال میں کوئی فوری تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

اتحادیوں کے وہاں پہنچنے کے فوراً بعد الجزائر میں چیف ربی مورس آئزن بیتھ اور الجزائر کی سماجی تعلیم سے متعلق کمیٹی "کومیٹین جوئف الجیرئن ڈس ایٹوڈس سوشلیس نے یہودیوں کے حقوق کی بحالی کیلئے کوشش کی باوجود اِس بات کے کہ فرانسیسی حکام کا کہنا تھا کہ نہ تو امریکی فوجی کمان اور نہ ہی مسلمان قیادت امتیاز پر مبنی قوانین ختم کرنے کی حق میں تھے۔ دسمبر 1942 میں گینڈارمس نے فرینچ الجیرین حکام کے احکام پر الجزائر میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں شریک مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا اور اُنہیں الجزائر کے جنوب میں واقع قید خانوں میں بھیج دیا گیا۔ وکی حکام نے بھی اپنے کیمپوں میں زیر حراست رکھے گئے گئے سیاسی قیدیوں یا جبری مشقت پر معمور کئے گئے قیدیوں میں سے اکثر کو رہا کرنے سے احتراز کیا۔

چونکہ الجزائر میں فرانسیسی انتظامیہ وکی حکومت کی طرف سے یہود مخالف اقدامات کو بدلنے کیلئے تیار نہ تھی اِس لئے شمالی افریقہ کے یہودیوں نے مدد کیلئے امریکہ کی یہودی تنظیموں اور امریکی ذرائع ابلاغ کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ اتحادیوں کے فرانسوا ڈارلن کا ساتھ دینے کے خلاف عام لوگوں کے شدید رد عمل اور 17 نومبر 1942 کو صدر روزویلٹ کی سخت الفاظ پر مشتمل تقریر کی بدولت وکی حکومت کی طرف سے نافذ کئے گئے تمام امتیازی قوانین کو فوری طور پر ختم کرنے اور ایسے قوانین کی مخلفت کرنے یا اُن کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر قید کئے گئے افراد کی رہائی کے لئے دباؤ بڑھ گیا۔ نیو یارک ٹائمز جیسے اخبارات میں اداریے لکھے گئے جن میں نسلی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کو ختم کرنے، ڈی گال کی حمایت کرنے اور شمالی افریقہ کیلئے صدر روزویلٹ کے خصوصی مشیر رابرٹ مرفی کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا جو شمالی افریقہ میں ڈی گال کے حامیوں کی حمایت کے جھوٹے وعدوں سے منسلک رہے۔

بالآخر 14 مارچ 1943 کو جنرل ہنری گیروڈ نے، جنہوں نے 1942 میں کرسمس ایو کے موقع پر ڈارلن کے قتل کے بعد فرینچ شمالی افریقہ کیلئے ہائی کمشنر کے فرائض سنبھالے، تقریر کی جس میں اُنہوں نے وکی حکومت اور اُس کی طرف سے روا رکھے جانے والے نسلی اور امتیازی قوانین کی مذمت کی۔ گیروڈ نے غلط طور پر دعوٰی کیا تھا کہ یہ امتیازی قوانین نازی جرمنی نے فرانس پر لاگو کئے تھے۔ گیروڈ نے کریمئکس حکمنامے کی مخالفت جاری رکھی اور یہ دعوٰی کیا کہ یہ حکمنامہ مقامی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان امتیاز پر مبنی تھا۔ ورلڈ جیوئش کانگریس، امریکن جیوئش کانگریس اور قومی آزادی کیلئے فرانسیسی کمیٹی کی کئی ماہ تک جاری کوششوں اور بالآخر الجزائر میں جنرل ڈی گال کی آمد کے نتیجے میں 20 اکتوبر 1943 کو کریمئکس حکمنامے کو بحال کر دیا گیا۔

مراکش اور تیونس میں یہودیوں کے شہری حقوق بھی فوری طور پر بحال نہیں کئے گئے تھے۔ اتحادی افواج کے پہنچنے کے بعد مراکش میں جہاں مارچ 1943 میں نسلی قوانین بالآخر ختم کر دئے گئے تھے، یہودیوں پر حملے اور گرفتاریاں جاری رہیں۔ تیونس میں نسلی خواتین کا خاتمہ مئی 1943 میں عمل میں آیا تھا حالانکہ اطالوی شہریت رکھنے والے یہودیوں کو کچھ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا جب فرانسیسی حکام نے یہودی برادری کے کچھ راہنماؤں کو دشمن غیر ملکی یا دشمنوں کے ہمدرد قرار دے دیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانس کی شمالی افریقی نوآبادیوں میں یہودیوں کو سیاسی اور قانونی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن سے معاشی ناانصافی روا رکھی گئی اور کچھ مثالوں میں اُنہیں حراست میں بھی رکھا گیا، جبری مشقت کیلئے مجبور کیا گیا اور جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ فرانس کے نوآبادیاتی معاشرے میں موجود یہود دشمنی نے ایک ایسا سازگار ماحول پیدا کر دیا تھا جس میں فرانس کے وکی حکام کیلئے یہود مخالف قوانین پر عمدرآمد آسان ہو گیا۔ چونکہ جرمن بیشتر علاقوں میں حقیقی معنوں میں کنٹرول قائم کرنے میں ناکام رہے اور اتحادیوں کی بحریہ کی زبردست برتری کی وجہ سے بحیرہ روم کے آرپار نقل و حمل فوجی اعتبار سے ناممکن ہو گئی تھی، اِس وجہ سے شمالی افریقہ اور تیونس کے اُن یہودیوں کو حراستی کیمپوں اور یورپ کی قتل گاہوں میں بھیجے جانے سے نجات مل گئی جو براہ راست جرمن تسلط میں آ گئے تھے۔

جب جنگ کا آغاز ہوا تو شمالی افریقہ کے ڈی پورٹ کئے جانے والے یہودی فرانس کے میٹروپولٹن علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ منفرد نوعیت کے سیاسی، فوجی، اسٹریٹیجک اور جغرافیائی عوامل کی وجہ سے شاملی افریقہ کے یہودیوں کو اُس طرح منظم انداز میں قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی حلیف قوتوں نے اُنہیں اُس حد تک حراست میں رکھ کر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جتنا ہالوکاسٹ کے دوران یورپ میں کیا گیا تھا۔

سارہ سسمان

اسٹین فورڈ یونیورسٹی