1933 میں نازیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی جرمنی، بلکہ یورپ بھر میں روما (خانہ بدوشوں) پر ظلم و ستم کیا جارہا تھا۔ بویریا، جرمنی، کی پولیس نے 1889 سے ہی روما کی مرکزی رجسٹری برقرار رکھنا شروع کردی تھی اور میونیخ میں روما کے خلاف پولیس کارروائی ہم آہنگ کرنے کے لئے کمیشن قائم کرلیا تھا۔ 1933 میں نازیوں سے قبل جرمنی کی پولیس نے "خانہ بدوش" نامی طرز زندگی گزارنے والوں کے خلاف قوانین کا مزید سختی سے نفاذ شروع کردیا۔ نازیوں نے ان افراد کو نسلی طور "ناپسندیدہ" قرار دے دیا اور روما کے خلاف ظلم و ستم کے باقاعدہ اقدام اپنانا شروع کردئیے۔

نازوں نے فیصلہ کرلیا کہ روما میں بیرونی خون تھا، جس کے بعد انہیں تمام رومانی افراد کی باقاعدہ طور پر شناخت کی فکر ہونے لگی۔ باقاعدہ طور پر ظلم و ستم شروع کرنے کے لئے "روما" کی تعریف ضروری تھی۔ اس لحاظ سے یہودیوں کی زمرہ بندی زیادہ آسان تھی کیونکہ حکومت کو مذہبی کمیونٹیوں کے ریکارڈ باآسانی دستیاب تھے۔ جرمنی کے روما کا صدیوں سے عیسیائی مذہب سے تعلق تھا، اس لئے رومانی نژاد لوگوں کا تعین کرنے کے لئے مذہبی ریکارڈ سے مدد حاصل نہيں کی جاسکتی تھی۔

نازیوں نے نسلی حفظان سے کام لیا اور جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر رومانیت کا تعین کرنے کی کوشش کی۔ روما کے مطالعے میں یونیورسٹی آف ٹیوبینگین سے تعلق رکھنے والے بچوں کے ماہر نفسیات ڈاکٹر رابرٹ ریٹر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ انہیں مجرمانہ حیاتیات، یعنی کہ جرم اور جینیات کے تعلق، میں مہارت حاصل تھی۔ 1936 میں ریٹر وزارت صحت میں مرکز تحقیق برائے نسلی حفظان اور آبادیاتی حیاتیات کے ڈائریکٹر نامزد ہوگئے اور انہوں نے روما کا نسلی مطالعہ شروع کردیا۔ ریٹر نے جرمنی میں رہنے والے تقریبا 30 ہزار روما کو تلاش کرنے اور نسل کے مطابق زمرہ بند کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ریٹر نے روما کو زمرہ بند کرنے کے لئے طبی اور معاشرتی معائنے شروع کردئیے۔ ریٹر نے نیم سائینسی انداز سے اپنے فیصلوں کو تحریری شکل دینے کے دعوے کئے، لیکن درحقیقت ان کی ٹیم روما لوگوں کے شجرہ نسب کے تعین اور ریکارڈ کے لئے روما کی تفتیش کرنے لگی۔ ریٹر کے لئے انٹرویو کرنے والوں نے موضوعات کو اپنے رشتہ دار اور ان کی آخری معلوم شدہ رہائش کے متعلق معلومات نہ فراہم کرنے کی صورت میں گرفتار اور کنسنٹریشن کیمپ میں قید کی دھمکیاں دیں۔ اس طرح ریٹر نے جرمنی میں رہنے والے تمام روما لوگوں کا رجسٹر تیار کر لیا۔

اس مطالعے کے اختتام پر ریٹر نے اعلان کیا کہ روما کا تعلق دراصل ہندوستان سے تھا، وہ ایک زمانے میں آرین نسل سے تعلق رکھتے تھے لیکن طویل ہجرت کے دوران کم تر ذات سے تعلق رکھنے والوں سے ازدواجی تعلقات کے بعد ان کی نسل خراب ہوچکی تھی۔ ریٹر نے اندازہ لگایا کہ جرمنی ميں رہنے والے تمام روما میں سے 90 فیصد کی نسل پاک نہيں تھی، لہذا ان کا خون "گندا" تھا، اور وہ مجرمانہ خاصیتوں کے مالک تھے۔ ان کی طرف سے دوسروں کو مبینہ طور پر خطرہ پیش ہونے کی وجہ سے ریٹر نے انہيں زبردستی بانجھ کرنے کی تجویز کی۔ ریٹر کے مطابق باقی پاک خون کے مالک روما کو علیحدہ کر کے ان کا مزید مطالعہ کرنے کی ضرورت تھی۔ درحقیقت، ریٹر کے نام نہاد پاک خون اور ملاوٹ والے خون کے نظریات کے درمیان کوئی فرق نہیں ظاہر کیا گیا۔ ان سب کو ظلم و ستم اور بعد میں اجتماعی قتل کی نازی کی پالیسی کا نشانہ بنایا گیا۔

1936 میں نازیوں نے جرمنی کی تمام پولیس کی قوت کو ہینریخ ہملر، ایس ایس چیف اور جرمن پولیس کے چیف کے ماتحت یکجا کر دیا۔ اس طرح روما کی جانب پولیس کی پالیسی بھی مرکوز ہو گئی۔ برلن میں ہملر نے خانہ بدوشوں کی تکلیف کو ختم کرنے کے لئے رائيخ کا مرکزی دفتر قائم کیا۔ اس ایجنسی نے روما کے ساتھ باقاعدہ طور پر ظلم و ستم کرنے کے لئے بیوروکریٹک تدابیر کا بیڑا اٹھایا او ان میں توسیع کی۔

اس ایجنسی کے ابتدائی فیصلوں میں سے ایک روما پر نسلی قوانین کا نفاذ تھا۔ 1936 کے بعد روما پر نیورمبرگ کے قوانین، نسلی امراض کے شکار اولاد کی روک تھام کے قانون اور خطرناک اور عادی مجرمان کے قانون کا اطلاق ہونے لگا۔ ریاست کی نظر میں آنے والے کئی روما کو بانجھ کر دینے کی ضرورت پیش آئی۔

برلن میں 1936 میں منعقد ہونے والے اولمپک گیمز کے افتتاح سے کچھ دیر قبل پولیس نے عظیم برلن میں رہنے والے تمام روما کو تحویل میں لے کر زبردستی مازاہن منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ مشرقی برلن میں ایک قبرستان اور سیویج ڈمپ کے قریب ایک کھلا میدان تھا۔ پولیس نے تمام رومانی بستیوں کو گھیرے میں لے لیا اور ان کے رہائشیوں اور ان کی ویگنوں کو مارزاہن منتقل کر دیا۔ یہ کارروائی 16 جولائی 1936 کو صبح 4 بجے شروع ہو گئی۔ وردی پہنے ہوئے پولیس والوں نے بستیوں کی نگرانی کی اور تمام افراد کے اندر اور باہر جانے پر پابندی لگادی۔ تحویل میں لئے جانے والے 600 روما روزانہ کام پر جاتے رہے، لیکن رات کو لوٹنا ضروری ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ان سے اسلحے کے پلانٹ میں جبری مشقت کروائی گئی۔

جرمنی بھر میں مقامی شہری اور مقامی پولیس کے دستے روما کو میونسیپل کیمپس میں زبردستی منتقل کرتے رہے۔ بعد میں ان کیمپوں نے روما کے لئے جبری مشقت کے کیمپس کی شکل اپنا لی۔ مارزاہن اور 1935 اور 1938 کے درمیان دوسرے شہروں میں قائم ہونے والے خانہ بدوشوں کے کیمپ نسل کشی کی راہ میں پہلا قدم تھے۔ مثال کے طور پر مارزاہن میں رہنے والے مردوں کو 1938 میں سیخسینہاؤسن بھیجا گیا اور ان کے گھر والوں کو 1943 میں جلاوطن کر کے آشوٹز بھیجا گيا۔

رومانی افراد کو "سماج سے علیحدہ ہونے والے" یا "عادی مجرم" قرار دے کر تحویل میں لے گيا اور انہيں کنسنٹریشن کیمپس بھیج دیا گيا۔ جرمنی میں تقریبا ہر کنسنٹریشن کیمپ میں رومانی قیدی تھے۔ ان کیمپوں میں تمام قیدیوں پر مختلف شکلوں اور رنگوں کے نشانات لگائے گئے تھے، جو ان کے زمرے کی نشان دہی کرتے تھے۔ روما کے کپڑوں پر لگائے جانے والے پیوند کالے، یعنی کہ "سماج سے علیحدہ ہونے والے افراد"، یا سبز یعنی کہ "پیشہ ورانہ مجرم"، رنگ کے تکون تھے۔