ہٹلر کے نائب روڈولف ھیس کے مطابق نازی ازم کا مطلب "حیاتیات کا اطلاق" تھا۔ تھرڈ رائش یعنی تیسری جرمن سلطنت کے دوران سیاسی انتہا پسندی کے عنصر کے ساتھ نسلی امتیاز پر مبنی سام دشمنی کے حوالے سے سرکاری حکمت عملی وضع کی گئی۔ ہٹلر کی حکومت نے نارڈک نسل کو اپنا آئڈیل قرار دیا اور جرمنی کو ایک ایسی ہم آہنگ قومی برادری کی شکل دینے کی کوشش کی جس میں نسلی طور پر کم قیمت یا نسلی اعتبار سے غیرملکی افراد کے لئے کوئی جگہ نہيں تھی۔ پیدائش کی شرح اور شادیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے عوامی صحت کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کا مقصد لوگوں نے حیاتیاتی طور پر پرخطر نسلی اکائيوں کو حذف کرکے قوم کو طاقتور بنانا تھا۔ 1933 سے قبل نسلی صفائی کی حمایت کرنے والے کئی جرمن ڈاکٹروں اور سائینسدانوں نے نئی حکومت کے حیاتیات اور نسلیات کے فروغ اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے پیشہ ورانہ مواقع اور تحقیق کے لئے اضافی فنڈز کو خوشی سے قبول کیا۔

ہٹلر کی آمرانہ حکومت نے پولیس کے بے پناہ اختیارات کے ساتھ نازی نسلی امتیاز کی پالیسی کے ناقدوں اور انفرادی حقوق کے حامیوں کو خاموش کردیا۔ تمام تعلیمی اور ثقافتی تنظیموں اور میڈيا کے نازی کنٹرول میں آنے کے بعد نسلی امتیاز پر مبنی سوچ جرمن معاشرے اور اداروں میں پھیل گئي۔ غیرملکی سمجھے جانے والے یہودیوں کو تعلیمی اور سائنسی تحقیق کے اداروں، ہسپتالوں اور عوامی صحت کی دیکھ بھال کے اداروں سے خارج کردیا گیا۔ اعلی عہدوں پر فائز افراد جنہيں سیاسی طور پر غیرمعتبر سمجھا گيا، ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا

پیدائش کی جنگ
نسلی امتیاز کے خوف کی عکاسی کرتے ہوئے، نازیوں نے "قومی موت" کے حوالے سے آبادی کے ماہرین کی تنبیہات کو خوب اچھالا اور گرتی ہوئی پیدائش کی شرحوں کو بدلنے کی کوشش کرتے رہے۔ اکتوبر 1935 کے اذدواجی صحت کے قانون نے "موروثی طور پر صحت مند افراد" اور جینیاتی طور پر بیمار افراد کے درمیان شادیوں پر پابندیاں عائد کردیں۔ شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کو نسلی اعتبار سے صحت مند افراد کا قومی فریضہ بنا دیا گیا۔ 9 ستمبر 1941 کو ایک تقریر میں ہٹلر نے کہا: "میری ریاست میں سب سے اہم شہری ماں ہے۔"

شراب، تمباکو اور سیفلس کے اثرات کے متعلق نسلی تشویش پر عمل کرتے ہوئے نازی حکومت نے تحقیق کو فروغ دیا، عوامی تعلیم کی مہم چلائي اور ایسے قوانین نافذ کئے جن کا مقصد پیدائشی خامیاں اور آنے والی نسلوں کے نسلی نقصان سے تعلق رکھنے والے "جینیاتی زہروں" کو ختم کرنا تھا۔ 1936 میں ہم جنس پرستی اور ابارشن کی روک تھام کرنے سے متعلق رائش کا مرکزی دفترقائم کیا گیا تاکہ ایسے اقدامات کو روکنے کی کوشش کی جائے جن کی وجہ سے تولید میں کمی واقع ہوتی ہو۔ 1937 میں جرمن پولیس کے سربراہ ھائن رش ھملر نے ایک تقریر میں ہم جنسی کو گرتی ہوئی پیدائشی شرح سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ "اچھی نسل کے افراد کے لئے جن کے بہت کم بچے ہوں، قبر میں جانے کے بعد کوئی واپسی نہيں ہوگی۔"

ضبطِ تولید کا وسیع پروگرام
14 جولائی 1933 کو مطلق العنان نازی حکومت نے نسلی طور پر بیمار بچوں کی پیدائش کی روک تھام کے قانون کو نافذ کرکے نسلی امتیاز پر مبنی اپنے دیرینہ خواب کو پورا کیا۔ یہ قانون 1932 میں پرشیا کے صحت کے افسران کی طرف سے وضع کئے گئے رضاکارانہ طور پر تولیدگی کی صلاحیت ختم کرنے کے قانون پر مبنی تھا۔ نئے نازی قانون کو تیار کرنے میں وکیل فاک رٹکے، پبلک ہیلتھ شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آرتھر گٹ اورایک ماہرِ نسفیات اور جرمن نسلی صفائی و صحت کی تحریک کے اولین رہنماؤں میں سے ایک ارنسٹ روڈن نے بھی حصہ لیا۔ جن افراد کو اِس قانون کا نشانہ بنایا گیا وہ وہ مرد اور عورتیں تھیں جن پر ان 9 حالتوں میں سے کسی ایک کا "اطلاق" ہوتا تھا جن میں دماغی کمزوری، شائزوفرینیا، مینک ڈی پریسو ڈس آرڈر، جینیاتی لقوہ، ڈی مینشیا کی مہلک کیفیت ھنٹنگ ٹنز کوریہ، جینیاتی طور پر ہونے والا اندھا پن، جینیاتی طور پر ہونے والا بہرا پن، شدید جسمانی معذوری اور کثرت سے شراب پینے کی بیماری شامل تھی۔

موروثی صحت کی خصوصی عدالتوں نے تولیدگی کی صلاحیت ختم کرنے کے عمل کو ایک طریقہ کار کے تحت چلانے کا تصور دلایا تاہم تولیدگی کی صلاحیت ختم کرنے کا فیصلہ عمومی طور پر ایک معمول ہی ہوتا تھا۔ تقریبا تمام نامور ماہرجینیات، دماغی امراض کے ڈاکٹر اور ماہر بشریات کسی نہ کسی وقت ایسی عدالتوں میں بیٹھتے تھے اور انہوں نے تقریبا 4 لاکھ جرمنوں کی نس بندی کا اختیار جاری کیا۔ مردوں کو عام طور پر تولیدی صلاحیت ختم کرنے کیلئے ویسیکٹومی اور عورتوں کے لئے ٹیوبل لی گیشن کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ٹیوبل لی گیشن ایک ایسی کارروائی تھی جس کے نتیجے میں سینکنڑوں خواتین کی موت واقع ہوگئی۔

بیرون ملک سے آراء
نازیوں کے ضبطِ تولید کے قانون سے متعلق بین الاقوامی رد عمل ملا جلا تھا۔ امریکہ میں کچھ اخباری مدیروں نے پالیسی کو وسیع پیمانے پر لاگو کئے جانے کا ذکر کیا اور اِس خدشے کا اظہار کیا کہ "ہٹلر کے چیلے" اِس قانون کو یہودیوں اور سیاسی مخالفوں کیلئے استعمال کریں گے۔ اِس کے مقابلے میں نسلی امتیاز میں یقین رکھنے والے امریکیوں نے اسے "ہٹلر کی حکومت کے ایک عجلت میں کئے گئے فیصلے" کے بجائے جرمنی کے "بہترین" ماہرین کی پرانی سوچ کا منطقی نتیجہ قرار دیا۔

1930 کی دہائی میں نامور امریکی اور برطانوی ماہر جینیات نے نسلی تنظیموں کے تعصبات کو انسانی نسلیات کی قدیم اور سادہ سمجھ بوجھ کے ساتھ ملانے کے لئے اصلاح نسل کی تنظیموں پر مسلسل تنقید کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ضبط تولید کو اِن حلقوں سے ماورا بھی بہت قبول عام حاصل ہوا کیونکہ اسے طبی اداروں میں دیکھ بھال اور سہولتیں حاصل کرنے کے اخراجات سے سستا سمجھا جانے لگا۔ ضبط تولید کے ریٹ کساد بازاری کے زمانے میں کچھ امریکی ریاستوں میں بڑھ گئے۔ اسی زمانے میں فن لینڈ، ناروے اور سویڈن میں اس بارے میں نئے قانون وضع کئے گئے۔ برطانیہ میں کیتھولک حزب اختلاف نے اس قانون کا راستہ روک لیا۔ تاہم کہیں بھی ضبط تولید کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد نازی پروگرام کے تحت ایسے افراد کی تعداد کے قریب نہيں تھی۔

یہودیوں کی علیحدگی
نسلی اقلیتوں کو "نسلی اعتبار سے غیر ملکی" قرار دیا گیا تھا اور اُن کی ضبط تولید 1933 کے قانون کے تحت نہیں تھی۔ اس کے بجائے 5 جون 1935 کو نیورمبرگ میں اعلان کئے گئے بلڈ پروٹیکشن لاء یعنی خون کے تحفظ کے قانون کے تحت یہودیوں اور غیریہودیوں کے درمیان جنسی تعلقات یا شادی کو جرم قرار دے دیا گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد نازی لیڈرحیاتیاتی علیحدگی کو ایک قدم اور آگے لے گئے اور آپس میں تمام یہودیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنے کے پارے میں بات کرنے لگے۔ مارچ 1938 میں آسٹریا (این شلس) پر قبضہ کرنے کے بعد , ایس ایس کے افسر ایڈولف آئش مین نے لاکھوں آسٹرین یہودیوں کو زبردستی بے دخل کر دیا۔ 9-10 نومبر 1938 کو جرمن اور آسٹرین یہودیوں اور اُن کی املاک پر نازیوں کے منظم حملوں یعنی کرسٹل ناخٹ کے دوران رائش میں باقی رہ جانے والے یہودیوں نے طے کر لیا کہ ملک چھوڑ دینا ہی اُن کے بچاؤ کا واحد راستہ ہے۔