شمالی افریقہ میں لڑائی 13 ستمبر 1940 کو شروع ہوئی جب مارشل روڈولفو گرازیانی کی اطالوی دسویں فوج نے لیبیا میں موجود اپنے اڈے سے مغربی مصر میں واقع برطانوی فوج کی نسبتاً بڑی تعداد پر حملہ کر دیا۔ اِس کے رد عمل میں 9 دسمبر 1940 کو جنرل سر آرچیبالڈ ویول کی سرکردگی میں برطانیہ نے کامیاب جوابی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں اٹلی کو 22 جنوری 1941 کو مشرقی لیبیا کے مقام تبروک میں شکست ہو گئی۔ 12 فروری 1941 کو جرمن جنرل ایرون رومیل لیبیا میں جرمنی کے اطالوی حلیفوں کی مدد کیلئے بھیجی گئی فوجوں کی کمان سنبھالنے کیلئے لیبیا پہنچ گئے۔ جرمن فوجیوں میں تیزی سے اضافہ کر کے اُنہیں فوجی کور کا درجہ دے دیا گیا اور اُسے ڈوئشس افریقہ کورپس (جرمن افریقہ کور) کے نام سے جانا جانے لگا۔

جنرل رومیل نے 24 مارچ 1941 میں ایک بڑا حملہ شروع کیا اور تبروک کو بائی پاس کرتے ہوئے 14 اپریل کو مصری سرحد تک جا پہنچے۔ وہاں برطانیہ اور جرمنی و اٹلی کی فوجیں نومبر 1941 تک ایک دوسرے کے خلاف ایستادہ رہیں۔ شمالی افریقہ سے انسانی اور مادی وسائل کی یورپ میں مشرقی محاذ کی جانب ترسیل کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 1941 کے موسم گرما اور خزاں میں برطانیہ کی ازسرنو منظم ہونے والی آٹھویں فوج نے (جس میں برطانیہ، آسٹریلیہ، انڈیا، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور آزاد فرانس کے فوجی شامل تھے) جنرل رومیل کی پوزیشنوں پر حملہ کر دیا جسے "صلیبی" آپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ابتدائی پسپائیوں کے بعد برطانیہ نے حلیف فوجوں کو دوبارہ لیبیا کی جانب دھکیل دیا۔ اُس نے تبروک میں چھاؤنی کو آزاد کرا لیا اور 6 جنوری 1942 کو رومیل کی فوجوں کو ال اغیلہ (لیبیا کے صوبوں سائرینیکا اور ٹریپولی تانیہ کی سرحدوں پر واقع مقام) کی جانب پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

جرمنوں کی طرف سے جنوری 1942 میں مشرقی محاذ کو مستحکم کرنے کے بعد شمالی افریقہ کی جانب وسائل کی منتقلی کی صلاحیت اور 7 دسمبر 1941 کو جانی خطرے سے نمٹنے کی خاطر برطانوی وسائل کی فراہمی کی بدولت جنرل رومیل کو 21 جنوری 1942 کو دوسرا حملہ شروع کرنے کا موقع مل گیا۔ حلیف ممالک کی فوجیں دو ہفتے کے اندر تبروک کے مغربی علاقے ال غزالہ پہنچ گئیں۔

2 مئی 1942 کو جرمن اور اطالوی فوجوں نے آپریشن "وینیزیہ" کے نام سے ایک اور حملہ شروع کیا جس کی وجہ سے وہ تبروک کا محاصرہ کرنے اور اتحادی فوجوں کو مصری سرحد کی جانب دوبارہ دھکیلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ تبروک 21 جون کو فتح کر لیا گیا اور پھر رومیل کی فوجوں نے برطانوی فوجوں کا مصر کے اندر تک پیچھا کیا۔ جولائی 1942 کے دوران برطانوی فوجوں نے حلیف فوجوں کو ال الامین پر روک دیا۔ رومیل کی پیش قدمی روکنے میں برطانیہ کی کامیابی کے باوجود برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے مشرق وسطٰی میں اپنے اعلٰی کمانڈروں کو تبدیل کر دیا اور جنرل سر ہیرالڈ ایلیگزانڈر کو مشرق وسطٰی میں برطانوی فوجوں کا کمانڈر انچیف اور لیفٹننٹ جنرل سر برنارڈ ایل منٹگمری کو آٹھویں فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا۔

30 اگست 1942 کو حلیف فوجوں نے ویسٹرن ڈیزرٹ کیمپین کے سلسلے میں اپنا آخری حملہ شروع کر دیا۔ 3 ستمبر کو برطانوی فوجوں نے حلیف دستوں کو ال الامین کے جنوب میں عالم ال حیفہ کی لڑائی میں روک دیا۔ منٹگمری نے امریکہ کی طرف سے فراہم کئے گئے ٹینکوں سمیت فوج اور رسد کو اکٹھا کر کے 23 اکتوبر 1942 کو ال الامین کے مقام پر رومیل کی فوجوں پر حملہ کر دیا۔ دس روز بعد حلیف فوجیں علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ رومیل نے ایک بہتر پوزیشن سے حملہ کرنے کیلئے اپنی طاقت مجتمع رکھنے کی اُمید میں تیزی کے ساتھ تمام تر لیبیا سے پسپائی اختیار کر لی۔ رومیل نے 23 جنوری 1943 کو لیبیا کا دارالحکومت طرابلس بھی خالی کر دیا اور ایک ہفتے بعد تیونس کی سرحد پر پہنچ گئے۔