"ہم نے نازیوں کو وہ چیز دی جسے انہوں نے اپنے مخالفین کو دینے سے انکار کر دیا تھا… یعنی قانون کا تحفظ۔"
سابق امریکی وزیر جنگ ہنری اسٹمسن نیرمبرگ، جرمنی میں منعقدہ بین الاقوامی فوجی عدالت کی وضاحت کرتے ہوئے۔

کیا الفاظ اور عمل کے درمیان واقعی کوئی براہ راست ربط موجود ہے؟ کیا الفاظ اور تصاویر سے لوگوں کی نسل کشی کے اعمال کا ارتکاب کرنے کی تحریک ملتی ہے؟ جب یورپ میں مئی 1945 میں جنگ کا خاتمہ ہوا تو اتحادیوں کو جرمن معاشرے کی تشکیل نو اور بارہ سالہ نازی حکومت کے بعد اپنے عوام کو نئی تعلیم دینے اور منافرت کی تشہیر کا تیزی سے قلع قمع کرنے کے جاں گسل کام کا سامنا ہوا۔ جیسا کہ یہودی مصنف وکٹر کلیمپیریر نے 1946 میں ہی لکھا تھا، "نازی ازم ان واحد الفاظ، محاوروں اور جملوں کی ساخت کے ذریعے لوگوں کے جسم و جان میں سرایت کر گیا تھا جو لاکھوں دفعہ کی تکرار کے بعد ان کے اوپر عائد کیا گیا تھا اور میکانکی طور پر اور غیر محسوس طریقے سے اس کی تشہیر کی گئی تھی۔ اتحادیوں نے جرمن عوام کو قومی قائدین کا محاسبہ کر کے اور فہرر کلٹ اور جوزف گوئیبل کے پروپیگنڈے کی باقیات کی بیخ کنی کر کے نازی عہد کے ظلم و بربریت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے حالیہ ماضی کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ تاریخ میں پہلی بار جنگی جرائم کی عدالتوں نے پروپیگنڈا کرنے والوں – وہ افراد جن کی باتیں، تصاویر، اور تحریریں نازی بربریت کے مواخذے اور قتل عام میں معاون ثابت ہوئیں، ان پر شکنجہ کسا۔

بین الاقوامی فوجی عدالت: ایک انوکھی عدالت

جنگ کے دوران اتحادیوں نے جرمنی اور اس کی دیگر محوری طاقتوں کو بار بار اپنے اس فیصلے سے متنبہ کیا کہ جنگی اعمال کی ذمہ دار حکومتوں، فوج یا نازی پارٹی کے اہلکاروں کو سزا ضرور ملے گی۔ بین الاقوامی فوجی عدالت نیورمبرگ میں 20 نومبر 1945 کو کھلی۔ جرمن عوام کے سامنے سرکردہ نازی قائدین کے مقدمات کی تشہیر کر کے، اتحادیوں کو ہٹلر کے عہد کو بے اعتبار کرنے اور بربریت و قتل عام کی گنجائش کو ابتلاء میں ڈالنے کی امید بندھی۔ دنیا بھر کے دو سو پچاس صحافی جائے انصاف پر موجود تھے۔ یہ یقینی بنانے کے لئے جرمن عوام کو مقدمات کی خبریں ملتی رہیں، اتحادی قابض اتھارٹیوں نے جرمن پریس کے لئے اخبارات کی تعداد اشاعت میں اضافہ کر دیا اور مقدمے کے دوران ریڈیو اسٹیشنوں نے روزانہ کئی کئی بار تبصرے کے ساتھ رپورٹیں نشر کیں۔ 7 دسمبر 1945 کو شروع ہونے والی مختصر فلموں نے عالمی پیمانے پر چلنے والی فلم کے ناظرین کے سامنے مقدمے کے بارے میں مستقل رپورٹیں پیش کیِں۔

کئی لحاظ سے نیورمبرگ میں چلنے والی قانونی کارروائیاں انوکھی تھیں۔ اپنے ہی فوجی فاتحین پر مشتمل عدالتوں کے ذریعہ اتنے زیادہ قومی قائدین پر کبھی مقدمہ نہیں چلا تھا۔ نازی دور میں سیاسی زندگی کے تمام شعبوں کی نمائندگی کرنے والے چوبیس افراد کو چار وجوہات سے مجرم قرار دیا گیا تھا: امن کے خلاف ارتکاب جرائم کے لئے عمومی منصوبہ یا سازش؛ امن کے خلاف جرائم؛ جنگی جرائم؛ انسانیت کے خلاف جرائم۔ مدعا علیہم میں دو افراد ایسے تھے جن کا ربط نازی پروپیگنڈے کی تخلیق یا اس کی نشر و اشاعت سے تھا۔ دیئر شٹٹمر کے مدیر جولیئس اسٹرائخر اور وزارت برائے عوامی روشن خیالی اور پروپیگنڈا کے اہلکار ہنس فرائشے کے خلاف چلنے والے معاملات کلی طور پروپیگنڈا کرنے والوں کی حیثیت سے ان کے ہی اعمال پر مبنی رہے۔ اثبات جرم میں یہ بیان بھی شامل تھا کہ پروپیگنڈا "سازشیوں کا ایک زبردست ہتھیار تھا [جنہوں نے] شروع سے ہی…قومی اشتراکیت کے اصولوں اور تصورات کے ساتھ جرمن عوام کو شامل کرنے کے فوری طلب امر کی ستائش کی"، اور جنہوں نے پروپیگنڈہ کو "سیاسی عمل اور فوجی بربریت کے لئے نفسیاتی طور پر اساس تیار کرنے کے لئے" استعمال کیا۔

کیا کہنے اور کرنے کے درمیان کوئی ربط موجود ہے؟

استغاثہ کو اسٹرائخر اور فرائشے کے خلاف اپنے مقدمات میں جس سب سے بڑی پریشانی کا سامنا ہوا، وہ تھا نازی پروپیگنڈا کنندگان کی سرگرمیوں اور بربریت یا قتل عام کی پالیسی کو نافذ کرنے کے درمیان ایک راست، سوچا سمجھا ربط ثابت کرنا۔ ایک بار پھر بتائیں کہ کیا کہنے اور کرنے کے درمیان واقعی کوئی براہ راست ربط موجود ہے؟ اسٹرائخر کا مقدمہ ان دونوں میں سے زیادہ زبردست ثابت ہوا:دیئر شٹرمر کی اشاعت کے بائیس سالوں میں یہودیوں کے لئے اسٹرائخر کی ازلی دشمنی اور ان کے خلاف میدان عمل میں کود پڑنے کی اپیل کے کافی شواہد دستیاب ہوئے۔ عدالت نے اسٹرائخر کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام کا قصوروار پایا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 1938 اور 1941 کے درمیان دیئر شٹرمر میں شائع شدہ تیئیس مضامین میں یہودیوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ "آخری تدبیر" کے حوالے سے اسٹرائخر کی معلومات کو ثابت کرنے کے لئے استعمال ہونے والا اہم ثبوت یا تھا کہ وہ سویڈن سے نکلنے والے ایک یہودی اخبار اسرائیلائیٹیشے ووخن بلاٹ (اسرائیلی ہفتہ وار) کا خریدار تھا، جس میں نازی ہلاکتوں کی رپورٹیں شائع ہوتی تھیں۔ عدالت نے یہ حکم سنایا کہ "ایسے وقت میں قتل اور نسل کشی کے حوالے سے اسٹرائخر کا جوش وخروش جب مشرقی حصے میں یہودیوں کو انتہائی خوفناک حالات کے تحت ہلاک کیا جا رہا تھا، جنگی جرائم کے سلسلے میں سیاسی اور نسلی وجوہات سے واضح طور پر مواخذے کو جواز فراہم کرتا ہے، جیسا کہ منشور میں بیان کیا گیا ہے، اور انسانیت کے خلاف جرم کا اثبات ہوتا ہے۔"

عدالت نے اسٹرائخر کے لئے پھانسی پر چڑھاکر سزائے موت کا حکم دیا۔ 16 اکتوبر 1946 کو دوپہر 2:12 پر اسے تختے پر چڑھایا گیا اور پھانسی دیدی گئی۔ جنگ کے بعد چلنے والے مقدمات سے نازی عہد کی مشہور حمایت کو برقرار رکھنے اور یہودیوں اور ہولوکاسٹ کے دور کے دیگر متاثرین کے مواخذے کو جواز عطا کرنے میں پروپیگنڈے نے جو اہم کردار ادا کیا تھا اس کی تصدیق ہوئی۔ "انسانیت مخالف جرائم" کے لئے پروپیگنڈا کرنے والوں کا مواخذہ ایک اہم مثال بن گیا جسے بین الاقوامی اداروں اور موجود دور کی عدالتوں کے ذریعہ تحریک ملی۔

نازی ازم کا خاتمہ

جنگ کے خاتمہ سے کافی پہلے ہی اتحادیوں نے جرمن عسکریت پسندی اور نازی ازم کو نیست و نابود کرنے کا حلف اٹھایا۔ مئی 1945 میں جرمنی کی شکست کے بعد قابض حکمرانوں نے جنگ کے مقصد کو نافذ کرنا شروع کر دیا۔ پوسٹڈیم کانفرنس (جولائی اگست 1945) میں فاتح ممالک نے جرمنی کی تشکیل نو کے لئے بنیادی اصول طے کیے: اس ملک کو مکمل طور سے غیر مسلح اور فوج سے پاک کر دیا گیا؛ اس کی فوجی قوت کو نیست و نابود کر دیا گیا اور وہاں کے عوام کو "نازی ازم سے پاک" کر کے نئے سرے سے ان کی ذہن سازی کی گئی۔

جنگ کے فوراً بعد کے وقفے میں اتحادیوں کے قبضے والے جرمنی میں "نازی ازم کو ختم کرنے" کے کام میں، ان سڑکوں، پارکوں، اورعمارتوں کے نام تبدیل کرنا جو نازی یا فوج سے وابستہ رہے تھے؛ نازیوں یا فوج سے تعلق رکھنے والے یادگاروں، مورتیوں، علامات اور قومی نشان کو ختم کرنا؛ نازی پارٹی کی جائیداد کی ضبطی؛ تعلیم، جرمن ذرائع ابلاغ سے نازیوں کے پروپیگنڈے اور ایسے متعدد مذہبی اداروں کے سربراہوں یا مذہبی پیشواؤں کو ہٹانا جو نازی حامی تھے اور نازی یا فوجی پریڈ، ترانے، یا نازی علامات کو عوامی طور پر دکھانے پر پابندی شامل رہی۔

اتحادی فوجیوں، حراستی کیمپوں کے سابق قیدیوں اور ہٹلر مخالف جرمنوں نے سواستکا کے نشان والے جھنڈوں، بینر، اور پورسٹروں کو جلا کر یا تباہ کر کے نازی علامات پراپنی بھڑاس نکالی۔ فلم میں قید ایک لمحے میں امریکی فوجیوں کو نیورمبرگ اسٹیڈیم میں ایک عظیم الشان سواستکا کے نشان کو تباہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو پہلے نازی ریلیوں کے انعقاد کا مرکز تھا۔

جن لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے یا مووی تھیٹروں میں خبری مواد کے طور پر دیکھا، ان کیلئے یہ دھماکہ نازی ازم کے اختتام اور ایک نئے دور کے آغاز کی علامت بن گیا۔ فیوہررمسلک کو شرم کی علامت مانا گیا اور سابق جرمن قائد کو بے رحم اجتماعی قاتل قرار دیا گیا جس کی پالیسیاں یورپ کے لاکھوں باشندوں کیلئے تباہی لے کر آئیں اور انجام جرمنی کی تباہی کی شکل میں سامنے آیا۔ فلم کے عملے نے دکھایا کہ کارکنان ایک بہت بڑے ہتھوڑے کے ذریعہ ہٹلر کے عظیم الشان دھاتی بت کو توڑ رہے ہیں اور اس کی خودنوشت سوانح حیات، مین کیمف، کو چھاپنے والے سیسے کی چھپائی پلیٹوں گو گلا کر نئے جرمنی کے لئے ایک جمہوری اخبار چھاپنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آج بھی جرمنی میں نازی پروپیگنڈے کی ترویج و اشاعت ممنوع ہے۔

اعتراف جرم

پروپیگنڈا کرنے والوں (مبلغین) پر جنگ کے بعد چلنے والے مقدمات میں عام جرمنوں نے دیکھا کہ کس طرح جولیس اسٹرائخر جیسی ذرائع ابلاغ سے متعلقہ شخصیتیں پھانسی کے پھندے سے بچنے کیلئے اور فلم ساز لینی ریفینسٹال، اپنا کریئر اور ساکھ بچانے کیلئے، نازی جرائم میں اپنے ملوث ہونے کی ذمہ داری قبول کرنے میں ناکام رہے اور معمولی شرمندگی کا اظہار کیا۔ نیورمبرگ میں بطور مدعا علیہ ہنس فرائشے کا بیان ایک استثناء تھا: "مطلق العنان حکومت کے ذریعے 5 ملین افراد کے قتل کے سانحے کے بعد، میں نے حکومت کی اس شکل کو ہر صورت میں، یہاں تک کہ ہنگامی حالات میں بھی غلط مانا۔ میرا یقین کسی بھی طرح کے جمہوری اقتدار میں ہے، خواہ وہ پابند جمہوری اقتدار ہی کیوں نہ ہو، جو اس قسم کی تباہی کو ناممکن بنا سکتی ہے۔ سابقہ ریڈیو براڈکاسٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ، "آشوٹز کے بعد، جس نے بھی نسلی سیاست کو اپنایا، اس نے خود کو غلطی پر مانا۔ اس سے جنگ کے بعد پیدا ہونے والی اور بیسویں صدی کی گزشتہ تین دہائیوں میں فعال رہنے والے جرمنوں کی نئی نسل، بشمول اسکالرز، کے ذہن میں نازی حکومت کے دوران اپنے والدین اور جدی والدین کے طرز عمل کے بارے میں سوالات پیدا ہونگے۔

نیورمبرگ کے وکلاء کیلئے "حتمی حل" سے متعلق اسٹرائخر کی معلومات اور اس کے نفاذ میں اس کی ذمہ داری کو ثابت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ڈیرشٹرمر کیلئے 4 نومبر، 1943 میں لکھے گئے ایک مضمون میں یہ بات بتائی گئی: "یہ واقعتاً درست ہے کہ یورپ سے یہودیوں کا نام و نشان مٹ گیا اور یہودیوں کو ان کی 'مشرقی پناہ گاہ' سے کھدیڑ دیا گیا جہاں سے یہودی وبا نے صدیوں تک یورپ کو متاثر رکھا۔ لیکن جنگ کے آغاز میں جرمن عوام کے فیوہرر نے جو پیشگوئی کی تھی، وہ اب سامنے آ رہی ہے۔" اپنے دفاع میں دلیل دیتے ہوئے اسٹرائخر نے اس بات پر زور دیا کہ اسے اجتماعی قتل عام کے بارے میں تبھی معلوم ہوا جب اسے اتحادیوں نے قید کر لیا تھا۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس کی تقاریر اور مضامین کا مقصد جرمنوں کو اشتعال دلانا نہیں تھا بلکہ انہیں ایک ایسے سوال کے بارے میں "بتانا" اور اس کی "وضاحت" کرنا تھا جو میرے لئے انتہائی اہم سوالات میں سے ایک تھا۔" اسٹرائخر، جس کے بارے میں ماہرین نفسیات نے یہ تشخیص کی کہ وہ معقول آدمی تھا لیکن "یہودیوں" سے نفرت کے سبب وہ غیر ذمہ دار اور ناقابل اعتبار تھا۔

نیورمبرگ کے کمرۂ عدالت میں استغاثہ نے اپنے اختتامی دلائل میں ملزم کے گناہوں یا جرائم کی یہ تفصیلات پیش کیں: "مدعاعلیہ اسٹرائخر جرمنی اور مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کو خوفزدہ کرنے کا ایک ذریعہ تھا جس کے نتیجے میں تخمیناً چھ ملین مرد، عورتوں اور بچوں کا اجتماعی قتل عام ہوا۔ دیئرشٹرمر اور اسٹرائخر کی دیگر اشاعتوں میں کئے گئے پروپیگنڈے، جس کی ذمہ داری اس نے لی تھی، اس نوعیت کے تھے جس سے یہودیوں کی طرف سے خوف اور نفرت کو بڑھاوا ملا اور انہیں جان سے مارنے کی ترغیب ملی۔ مزید برآں، اسے ایک ایسے ملک میں پھیلایا گیا جہاں تصورات اور خیالات کے اظہار کی آزادی نہیں تھی؛ جس میں، درحقیقت، بطور مدعا علیہ اسٹرائخر کو اچھی طرح معلوم تھا اور اس نے تسلیم بھی کیا کہ عوامی اظہار کا مقابلہ کوئی بھی دلیل نہیں کر سکتی، لہذا اس قسم کے پروپیگنڈے کے اثرات واضح طور پر متوقع اور خاص طور پر تحریک دینے والے تھے۔ نفرت اور خوف پھیلانے کیلئے تیار کردہ پروپیگنڈے کے ذریعہ مدعا علیہ اسٹرائخر پچیس سال کے عرصے تک اپنی ذہنیت کے مطابق اجتماعی قتل عام کے پروگرام کیلئے ضروری نفسیاتی بنیاد تیار کرتا رہا۔ صرف یہی بات اس کے قتل عام کے مجرمانہ پروگرام کا ایک حصہ ہونے کو ثابت کرنے کیلئے کافی تھا۔"اس بات کو ثابت نہیں کیا جا سکا کہ قتل عام کے عمل میں اسٹرائخر کا کوئی باضابطہ تعلق رہا، استغاثہ نے یہ دلیل دی کہ اسٹرائخر نے اجتماعی قتل کے عمل کے دوران فعال طور پر" قتل عام کے پروگرام کی حمایت کی اور اسے فروغ دیا"۔

وزارت برائے پروپیگنڈا کا ہنس فرائشے سب سے کم تر حیثیت کا جرمن اہلکار تھا جس پر بین الاقوامی فوجی عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا گیا۔ فرائشے ممکنہ طور پر زیادہ سینئر جرمن اہلکاروں کی فہرست میں سب سے آخر میں تھا کیونکہ وزیر برائے پروپیگنڈا جوزف گوئیبلز کی موت کے سبب اتحادیوں کے پاس وزارت برائے عوامی روشن خیالی اور پروپیگنڈا کا کوئی مدعا علیہ نہیں بچا تھا۔ اس کے علاوہ مغربی اتحادی ممالک فرائشے کو منتخب کر کے سوویت یونین کے لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے کوشاں تھے، جو 1945 میں نیورمبرگ میں پیش ہونے والے ایسے صرف دو مدعاعلیہان میں سے ایک تھا جو سوویت حراست میں تھے۔ اس نے وزارت برائے پروپیگنڈا کے ریڈیو والے شعبے کے ڈائرکٹر کے طور پر کام کیا اور اپنے نشریاتی پروگرام، ہیئر اسپرائٹ ہنس فرائشے! (ہنس فرائشے نے کہا!) کی میزبانی کی۔ فرائشے کے کیس میں استغاثہ نے مدعا علیہ کی متعدد نشریات میں واضح طور پر یہود مخالف بیانات کے ذریعہ اس کے قصور کو ثابت کرنے کی کوشش کی جسے بی بی سی نے پکڑا تھا اور اس کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا۔ وکیل استغاثہ نے کہا کہ "فرائشے آزاد صحافیوں میں شامل نہیں ہے"، "لیکن وہ ایک کارآمد، منضبط نازی پروپیگنڈا کرنے والا (مبلغ) تھا . . جس نے جرمن عوام پر نازیوں کی گرفت کو مضبوط بنانے میں کافی مدد کی [اور] اس نے ان سازشیوں کو جرمن عوام کی صوابدید پر زیادہ مؤثر طور پر اثرانداز ہونے میں اعانت کی۔"عدالت نے ثبوتوں کو قابل اعتبار نہیں مانا اور فرائشے کے خلاف لگائے گئے تینوں الزامات میں اسے قصور وار نہیں پایا گیا۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ "ایسا لگتا ہے کہ فرائشے نے کبھی کبھی اپنی نشریات میں پروپیگنڈے والی نوعیت کے سخت بیانات دئے ہیں"۔ "لیکن عدالت اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ اس کا مقصد جرمن عوام کو مفتوح لوگوں کے قتل عام پر اکسانا تھا اور اسے ان جرائم کا شریک نہیں مانا جا سکتا جس کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس کے بجائے اس کا مقصد عوام میں ہٹلر اور جرمنی کی جنگی کوششوں کے حوالے سے جذبہ بیدار کرنا تھا۔

فرائشے کے مقدمے میں عدالت کے فیصلے نے نفرت انگیز تقریر یا نفرت انگیز پروپیگنڈا اور تحریک کے درمیان تفریق کرتے ہوئے ایک اہم فرق کو واضح کیا۔ اگرچہ فرائشے نے اپنی نوکری کے دوران یہود مخالف نشریات کیں لیکن اس نے خاص طور پر یورپ کے یہودیوں کے اجتماعی قتل عام کی دعوت نہیں دی۔ اس سے اس کے پروپیگنڈے اور اس کے ساتھی مدعاعلیہ جولیس اسٹرائخر کے پروپیگنڈے کے درمیان فرق واضح ہو گیا۔ (صرف سوویت جج، میجر جنرل آئی۔ ٹی۔ نیکیچینکو نے اس سے عدم اتفاق کیا: "اشتعال انگیز جھوٹ پھیلانا اور بتدریج رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہٹلر کے پیروکاروں کیلئے اسلحے بنانے اور فوجی لائحہ عمل تیار کرنے کی طرح ہی اپنے منصوبوں کو عملی شکل کیلئے ضروری تھا۔") فرائشے کو بعد میں نیورمبرگ کے نازی ازم کے خاتمے کی عدالت میں زمرہ ایک کا "بڑا مجرم" مانا گیا اور اسے ایک لیبر کیمپ میں نو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ چونکہ اس پر تاحیات تحریری پابندی تھی، اس نے جیل میں رہنے کے دوران اپنی یادداشتوں کو لکھا اور اسے اپنے قلمی نام سے شائع کیا۔ سزا میں کمی ہونے کے بعد 1950 میں آزاد ہونے پر فرائشے نے 1953 تک اشتہارات و رابطہ عامہ میں کام کیا، پھر 53 سال کی عمر میں کینسر کے سبب اس کی موت ہو گئی۔

پروپیگنڈا کرنے والے دیگر لوگوں کے مقدمے

جنگ کے بعد نازی پروپیگنڈا کنندگان پر اتحادیوں کے ذریعہ مقدمات کا سلسلہ فوجی عدالت کے بعد بھی جاری رہا، لیکن بعد کے مقدمات کے ملے جلے نتائج سے الفاظ اور عمل کے درمیان رابطے کی قانونی دشواری کی بہت کم وضاحت ہو سکی۔ ریخ پریس کے سابق چیف اوٹو ڈیٹریچ پر امریکی فوجی عدالت میں مقدمہ چلنے کے علاوہ جرمن "نازی ازم کے خاتمے" سے متعلق عدالتوں نے سرکردہ نازی پریس میکس امان، فلم ڈائریکٹر (ڈریویج جیوڈے) فریز ہیپلر اور دیئر شٹرمر کے کارٹون ساز فلپ روپریٹ (قارئین جسے "فیپس" کے نام سے جانتے تھے) پر مقدمات چلائے گئے۔ پروپیگنڈا کرنے والے دیگر افراد کو قصوروار نہیں پایا گیا، جن میں فلم ڈائریکٹر لینی ریفنسہال شامل تھے (ٹریمف آف دی وِل)۔ ایک برطانوی عدالت نے امریکی نژاد ٹریسن کے ویلیم جوائس (لارڈ ہاؤ ہاؤ) کو نازی پروپیگنڈے کے نشرواشاعات کا مجرم پایا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ یروشلم کے مفتی اعظم الحاج امین الحسینی کو جرمنی کے فرانسیسی قبضے والے علاقے سے گرفتار کیا گیا جنہوں نے برلن ریڈیو سے عرب دنیا کے نام محوری ممالک کے خلاف پروپیگنڈا نشر کیا تھا۔ وہ مصر بھاگ گئے جہاں سے وہ لگاتار صیہونیت مخالف، یہود مخالف اور اسرائیل مخالف پروپیگنڈا کرتے رہے۔

تاریخ میں پہلی بار

تاریخ میں پہلی بار جنگی جرائم کی عدالتوں نے پروپیگنڈہ کرنے والوں – وہ افراد جن کی باتیں، تصاویر اور تحریریں نازی بربریت کے مواخذے اور قتل عام میں معاون ہوئیں، ان پر شکنجہ کسا۔ جنگ کے بعد چلنے والے مقدمات سے نازی عہد کی مشہور حمایت کو برقرار رکھنے اور یہودیوں اور ہولوکاسٹ کے دور کے دیگر متاثرین کے مواخذے کو جواز عطا کرنے میں پروپیگنڈے نے جو اہم کردار ادا کیا تھا، اس کی تصدیق ہوئی۔ "انسانیت مخالف جرائم" کے لئے پروپیگنڈا کرنے والوں کا مواخذہ ایک اہم مثال بن گیا جسے بین الاقوامی اداروں اور موجودہ دور کی عدالتوں کے ذریعہ تحریک ملی۔