برلن میں ایک راہ گیر رُک کر ایک ڈسپلے بکس پر لگے سام دشمن اخبار "دیئر شٹوئرمر" (حملہ آور) کا ایک شمارہ پڑھ رہا ہے۔

پریس کی خود مختاری سے محرومی کے حوالے سے جنگ کے دوران اپنی ڈائری (14 اپریل 1943) میں بیان کرتے ہوئے سابق صحافی جوزف جیوبیل نے لکھا ہے: "کوئی بھی ایسا شخص جس کو ذرا سا بھی عزت کا خیال ہو گا وہ کافی محتاط رہے گا کہ صحافی نہ بن جائے۔"

جب ہٹلر 1933 میں اقتدار میں آیا تو جرمنی کے پاس ایک کافی ترقی یافتہ مواصلاتی بنیادی ڈھانچہ موجود تھا۔ جرمنی میں ہر سال 4,700 سے زیادہ روزنامے اور ہفتہ وار اخبارات شائع ہوتے تھے جو صنعتوں کے حامل کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ اخبارات تھے، نیز ان کی کل اشاعت 25 ملین سے زیادہ تھی۔ یوں تو برلن پریس کا مرکز تھا، مگر چھوٹے شہر کے پریس کے اخبار کی اشاعت پر غلبہ تھا (جرمنی کے کل اخبارات کا ‎81% مقامی ملکیت میں تھا)۔ مگر قدرے بڑے شہروں سے شائع ہونے والے آٹھ اخبارات بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔ جرمنی کی فلمی صنعت دنیا کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے، اس کی فلموں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی، اور اس نے ریڈیو اور ٹیلیویژن دونوں ہی کے فروغ میں زبردست پیشرفت کی تھی۔

پریس پر کنٹرول قائم کرنا

1933 میں جب ہٹلر نے اقتدار سنبھالا تو جرمنی کے 4,700 اخبارات کے تین فیصد سے بھی کم پر نازیوں کا اختیار تھا۔ کثیر جماعتی سیاسی نظام کے خاتمے نے غیر قانونی قرار دی جانے والی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ نکالے جانے والے سینکڑوں اخبارات کو صرف ختم ہی نہیں کیا؛ بلکہ اس سے ریاست کو اشتراکی اور سماجی جمہوری جماعتوں کے پرنٹنگ پلانٹوں اور آلات کو ضبط کرنے کی بھی اجازت مل گئی، جن کا رخ بیشتر اوقات نازی پارٹی کی سمت مڑ جایا کرتا تھا۔ آنے والے مہینوں میں نازیوں نے خود مختار پریس کے اجزاء پر یا تو قابو پا لیا یا ان پر سخت قانون لاگو کر دیا۔ 1933 کے شروع کے ہفتوں میں، نازی حکومت نے ایک زیر التوا "اشتراکی شورش" کے خوف کو بڑھاوا دینے کے لئے ریڈیو، پریس اور فلمیں تیار کیں، پھر ہر طرح کے اضطراب کو سیاسی اقدامات میں سلسلہ وار نافذ کیا جس نے شہری آزادی اور جمہوریت کی بیخ کنی کر دی۔

چند مہینوں میں نازی حکومت نے جرمنی کے سابق چاق و چوبند آزاد پریس کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ 1941 تک نازی پارٹی کا ایہر پبلشنگ ہاؤس جرمنی کی تاریخ میں اس وقت تک کا سب سے بڑا پبلشنگ ہاؤس بن گیا اور اس کے اصل روزنامہ اخبار والکیشر بیوباخٹر (دی نیشنل آبزرور) کی تعداد اشاعت 1,000,000 سے اوپر پہنچ گئی۔

اخبار والکیشر بیوباخٹر (پیپلز آبزرور) نے، جس کو ہٹلر نے پارٹی کے لئے 1920 میں خریدا تھا، اراکین کے لئے اجلاسوں اور دیگر خبروں کا اعلان کیا اور پارٹی کی پنہچ شراب خانوں اور پارٹی کے اجتماعات سے بھی کہیں آگے تک ہو گئی۔ نازی تحریک کی کامیابی کے ساتھ تعداد اشاعت بھی بڑھی، جو 1931 میں 120,000 اور 1944 تک 1.7 بلّین تک پہنچ گئی۔ یہودی مخالف قلمکار اور نازی نظریہ نواز الفریڈ روزنبرگ کی زیر ادارت والکیشر بیوباخٹر نے مختصر عرصے میں ہی پسندیدہ نازی موضوعات کی مبالغہ آرائی میں خصوصیت حاصل کر لی۔ ورسائی معاہدے کی تحقیر، ویمر پارلیمانی نظام کی کمزوری اور عالمی منصفوں اور بولشوک پسندی کی برائی، یہ سبھی باتیں نازی حب الوطنی کے نعروں سے کافی الگ تھیں۔

ایک شخص، ایک اخبار

دیئر شٹٹمر جرمنی میں سب سے زیادہ بدنام یہودی مخالف اخبار تھا۔ سابق اسکول ٹیچر سے سرگرم نازی کارکن بن جانے والے نازی صوبائی رہنما [گولیٹر] جولیئس اسٹرائش نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی اور اس کی نئی جہت عطا کی۔

یہ اخبار 1923 سے 1945 تک 20 سال سے زیادہ عرصے تک چلا جس نے یہودی "روایتی قتل"، جنسی جرائم، اور مالی خرد برد کے سلسلے میں تنقیدی خبریں شائع کیں۔ ویمر جمہوریہ کے دوران دیئر شٹٹمر کے پرزور اور اخباری دعووں کا بیشتر نتیجہ مشہور سیاست دانوں اور یہودی تنظیموں کی جانب سے بذات خود اسٹرائش اور اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی داخل کرنے کی صورت میں برآمد ہوا۔

تاہم نازی تسلط کے بعد اس اخبار اور اس کے مدیر کی قسمت کو پر لگ گئے۔ تعداد اشاعت جو 1927 میں 14,000 تھی 1935 میں ڈرامائی طور پر بڑھ کر قریب قریب 500,000 ہو گئی۔ اگرچہ غیر ملکی سیاحوں اور بہت سے جرمن عوام بشمول نازی پروپیگنڈہ کنندگان کویہ اخبار یک موضوعی لگا، مگر ہٹلر نے دیئر شٹٹمر کو حتی کہ جب نازی پارٹی کی ایک عدالت نے اسٹرائشر کو بدعنوانی کی وجہ سے اپنی سیاسی اور جماعتی دفاتر سے نکال باہر کردیا اس وقت بھی بند کرنے سے انکار کر دیا۔

1930 کی دہائی میں جرمن عوام کو پورے جرمنی میں ہر سڑک اور گلی کے نکڑ پر دیئر شٹٹمر نظر آ سکتا تھا۔ اسٹرائشر نے اپنی یہود دشمنی والے پروپیگنڈا کو فروغ دینے اور تعداد اشاعت بڑھانے کے لئے متعدد نمائش خانے بنائے۔ ان سبھی نمائشی ڈبوں اور خریداری کو پُر کرنے کے لئے اس نے کبھی کبھی اخبار کی تعداد اشاعت بڑھا کر 2,000,000 تک کردی۔

فرقہ وارانہ ردّعمل کے طور پر یہودی اخبارات

جس طرح نازی پروپیگنڈا مشین نے اپنے انتہاپسندانہ تصورات کی خدمت کے لئے جرمن پریس کو یرغمال بنا لیا تھا، اسی طرح مقامی یہودی معاشروں کے ذریعہ شائع ہونے والے اخبارات (جیمینڈر) اپنے ممبروں کے لئے پورے جرمنی کے چھوٹے اور بڑے شہروں میں بسے یہودیوں کے لئے رگ حیات اور مقامی معاشروں اور یہودی قومی تنظیموں کے رہنماؤں کے بیچ ایک رابطہ بن گئے۔

اپریل 1933 میں ملکی پیمانے پر یہودی کاروبار کے مقاطعہ کے بعد برلن میں واقع جیوش ٹیلیگراف ایجنسی کے بیورو چیف ارنو ہرزبرگ نے لکھا: "جرمن جیوری خود اپنے آپ کو بھی جن نئے حالات میں موجود پاتی ہے وہی حالات یہودی پریس کے لئے بھی ایک نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ اس نئے دور نے یہودی صحافت کے لئے ایک دور رس کام کے حوالے سے شوق پیدا کر دیا ہے۔ قبل ازیں، یہودی پریس ایک عضو معطل تھا۔ اوسط جرمن یہودیوں کے حوالے سے یہ حاشیہ پر چلا گیا تھا …ایک ایسے دور میں آ کر جہاں یہودیوں کو وسیع تر جرمن دانشوروں اور سماجی حلقوں سے خارج کر دیا گیا تھا بنیادی طور پر یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔"

ان فرقہ پرست اخبارات نے ایسے مضامین اور اداریے شائع کیے جن کا مقصد باضابطہ یہود مخالف پروپیگنڈے کی حقارت کو سامنے رکھتے ہوئے مثبت یہودی شناخت کو استحکام عطا کرنا، اور نازی یہودی مخالف قانون کے تحت گزرنے والی زندگی سے پیدا شدہ روزمرہ کے چیلنجوں کو پورا کرنے کے لئے معاشرہ کے افراد کو مشورہ اور حوصلہ افزائی فراہم کرنا تھا۔ جرمنی سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کے ترک وطن کرنے کے ساتھ ہی بہت سے چھوٹے چھوٹے جیمینڈر بھی غائب اور ان کے اخبارات بند ہو گئے۔ 11 نومبر 1938 کو کرسٹل ناخٹ پروگرام کے تشدد کے بعد جرمن حکومت نے باقی ماندہ یہودی فرقہ پرست اخبارات کی اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ یہودیوں کو اب سب خبریں اور سرکاری اعلانات حکومت کے زیر اختیار جیوڈیشس نیخرکٹن بلاٹ سے ہی موصول ہونی تھیں۔

جرمن حکام نے یہودی فرقہ پرست اخبارات سے بڑے پیمانے پر جرمن پریس پر عائد شدہ ضوابط پر عمل پیرا ہونے کا تقاضہ نہیں کیا۔ مثال کے طور پر یہودی مطبوعات زیر بحث نکات کو لفظ بہ لفظ شائع کرنے یا پروپیگنڈا وزرات کے ذریعے اپنی روزانہ کی پریس کانفرنس میں جاری کردہ باضابطہ پروپیگنڈے کا اعادہ کرنے پر مجبور نہیں تھے۔ جرمن حکام نے غیر یہودیوں کو ان فرقہ پرست یہودی اخبارات کو خریدنے یا پڑھنے پر ضرور پابندی عائد کر دی۔

پروپیگنڈے کے لئے نئے مقامات: فلم، ریڈیو، ٹیلی ویژن

ہٹلر اپنی تقریر کی مشق کرتے ہوئے۔ ہٹلر نے محتاط طور پر اپنے امیج کو نازی پارٹی کے قائد کے طور پر پیش کیا۔۔۔

نازیوں نے پروپیگنڈے کی خدمت انجام دینے کے لئے ارتقاء پذیر ٹکنالوجی، جیسے فلم، لاؤڈ اسپیکرز، ریڈیو، اور ٹیلیویژن کی طاقت اور کشش کو سمجھ لیا۔ ان ٹکنالوجیز سے نازی قیادت کو اپنے نظریاتی پیغامات کی وسیع پیمانے پر نشر و اشاعت کے لئے ایک وسیلہ اور اجتماعی طور پر سنے سنائے اور دیکھے ہوئے تجربات کے ذریعہ ووکس جیمین شیفٹ کے ابہام کو نئی توانائی فراہم کرنے کے لئے ایک حربہ مہیّا ہو گیا۔

1933 کے بعد جرمن ریڈیو نے لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعہ ہٹلر کی تقریریں گھروں، فیکٹریوں اور یہاں تک کہ شہر کی گلیوں تک میں نشر کیں۔ جیوبیل کی پروپیگنڈا وزارت میں موجود اہلکاروں کو پروپیگنڈا کے لئے ریڈیو کا حیرت انگیز وعدہ دیکھنے میں آیا۔ وزارت ہذا نے فروخت کی سہولت بہم پہنچانے کے لئے سستے داموں والا "عوام کا ریڈیو" (ووکسیم فینگر) کی تیاری میں زبردست رعایت برتی۔ 1935 تک ان میں سے قریب 1.5 ملین ریڈیو فروخت ہو گئے جس سے جرمنی میں ریڈیو سننے والوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہوگئی۔

1935 میں جرمنی ٹیلیویژن کی مستقل خدمت متعارف کروانے والا سب سے پہلا ملک بن گیا۔ پروپیگنڈا کے وزیر جوزف جیوبیل نے نئے وسیلہ کے توسط سے پروپیگنڈا کے زبردست امکان کو دیکھا، لیکن انہیں یقین تھا کہ یہ سنیما یا تھیئٹر کی طرح اجتماعی طور پر دیکھنے کی صورت میں بہترین ہے۔

سرخیوں کے پس پشت: نازی میڈیا کا جوڑ توڑ کرسٹل ناخٹ 9/10 نومبر 1938 کی رات کو نازی رہنما تشدد کی ایک لہر کا باعث بنے جس نے پورے عظیم تر جرمن ریخ میں یہودی معاشروں کو تباہ کر دیا اور عالمی رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ پروپیگنڈا وزیر جوزف جیوبیل کی استدعا پر غصے میں بھرے ایک نوعمر یہودی کے ذریعہ پیرس میں جرمن سفارتکار کے قتل کو استعمال کرتے ہوئے اس تشدد کو جائز قرار دینے کے لئے مقامی اور علاقائی نازی رہنما دانستہ تباہی اور بہیمیت میں مصروف ہوگئے۔ کرسٹل ناخٹ (ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات) کو بلوائیوں نے کوئی 7,500 یہودیوں کے کارباروں کو نقصان پہنچایا یا تبادہ کر دیا، سینکڑوں کلیساؤں کو آگ لگا دی اور 91 یہودیوں کو قتل کر ڈالا۔ اگلے دن جرمن سیکیورٹی پولیس نے 30,000 عیسائی مردوں کو گرفتار کیا اور انہیں بوخن والڈ، ڈیخاؤ اور سیخسین ہاؤسن کے حراستی کمیپ میں قید کر دیا۔

حتی کہ جب دنیا بھر کے اخبارات نے ان واقعات اور کرسٹل ناخٹ کے عواقب کی رپورٹ دی تو جرمن پروپیگنڈا وزارت ڈرامہ کے انداز میں تیار کردہ میڈیا مہم کے توسط سے سنگین نقصانات پر قابو پانے میں مصروف ہوئی جو ا س کو جرمن عوام کے "فطری غصہ" کے ساتھ متصف کرتے ہوئے اور اموات و تباہی کی اصل تعداد کو کم سے کم کرنے کے لئے تشدد کے پس پردہ صبر و ضبط کو جائز قرار دینا چاہتا تھا۔

اس واقعہ کے پس منظر میں پریس کی کوششوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نازی پروپیدنڈا مشین نے اس واقعہ سے پہنچنے والے نقصان کی شدت کو کم کر کے ظاہر کرنے کی کوشش کی (جرمن عوام اور بین الاقوامی رائے عامہ دونوں کے سامنے) اور کس طرح اس مقصد کیلِے بیرونی تنقید اور تازہ ترین خبروں کے حوالے سے تیزی سے ردّعمل کا اظہار کیا۔

ممنوعہ نشریات: خبروں کے متبادل وسیلے کے طور پر غیر ملکی ریڈیو

جنگ کے اوقات میں حکومت عام طور پر معلومات تک عوام کی رسائی محدود کر دیتی اور اس پر پابندی لگا دیتی ہے تاکہ حساس نوعیت کے اعداد و شمار دشمن کے پاس نہ پہنچ جائیں یا اندرون ملک عوام کو ایسی معلومات سے الگ تھلگ رکھا جائے جو عوام کی اخلاقیات کو کھوکھلا کر سکتی ہیں۔ یکم ستمبر 1939 کو جرمنی کے پولینڈ پر حملہ کرنے کے بعد نازی انتظامیہ نے اپنے عوام کو بیرونی معلومات حاصل کرنے سے روکنے کی خاطر انتہائی سفاکانہ اقدامات لاگو کئے۔ جرمن حکومت نے اپنے شہریوں کیلئے غیر ملکی نشریات سننا ممنوع قرار دیدیا، اس طرح کہ ایسا کرنا فوجداری جرم سمجھا جائے۔ جرمن عدالتیں ایسے شخص کو جس نے دشمن کے ریڈیو اسٹیشنوں سے خبریں حاصل کر کے اس کی تشہیر کی ہو، سزائے قید یا یہاں تک کہ سزائے موت بھی سنا سکتی تھی۔

اس خوف سے تحریک پا کر کہ پہلی عالمی جنگ میں اتحادی پروپیگنڈا نے جرمنی کے وقار کو ملیامیٹ کر دیا تھا اور بدامنی کو ہوا دی تھی، جرمن حکام کو یہ امید تھی کہ غیر ملکی نشریات سننے پر شدید قسم کی سزا کا خوف عوام کو "دشمن کی بکواس" سننے سے باز رکھنے کی کوششوں کو نئی توانائی عطا کرے گا۔ گسٹاپو اور نازی پارٹی کے مخبروں کی عقابی نگاہوں اور سماعتوں کے باوجود، لاکھوں جرمن عوام نے معلومات اکٹھی کرنے کے لئے برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) اور دیگر ممنوعہ نشریاتی اسٹیشنوں کو کھول لیا۔