یورپ میں، سام دشمنی، قوم پرستی، نسلی منافرت، اشتراکیت مخالفت اور موقع پرستی نے مل کر مقبوضہ جرمنی کے شہریوں کو یورپی یہودیوں کی ہلاکت کیلئے اور دیگر نازی پالیسیوں میں نازی نظام کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے اُکسایا۔ یہ تعاون نہ صرف "حتمی حل" کو نافذ کرنے بلکہ نازی نظام کے نشانہ بنائے گئے دیگر گروہوں کو بھی بڑی تعداد میں قتل کرنے کا اہم عنصر تھا۔ شرکاء کار (تعاون کرنے والوں) نے ہالوکاسٹ کے دور کے چند بدترین مظالم کا ارتکاب کیا.

جرمنی کے یورپی محوری شرکاء نے یہودی مخالف قوانین کو لاگو اور نافذ کرکے نازی نظام کے ساتھ تعاون کیا اور بعض حالات میں اپنے یہودی شہریوں کو قتل کے مراکز یا مشقت کے کیمپوں میں بھیجنے کیلئے جرمنی کے حوالے کر دیا۔ کچھ حلیف ریاستوں میں، فاشسٹ (فسطائی) نیم فوجی تنظیموں نے جرمن رہنمائی کے تحت یا اپنی ایما پر مقامی یہودیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا، ان کو لوٹا اور قتل کیا۔ سلوواکیہ میں ہیلنکا، رومانیہ میں آئرن گارڈ، کروشیا میں یوسٹاسا اور ہنگری میں ایرو کراس اپنے مقامی علاقوں میں ہزاروں یہودیوں کی موت کے ذمہ دار تھے۔ ان ریاستوں اور دیگر ریاستوں میں فوجی اہلکاروں، پولیس، اور فرانسیسی فوجی پولیس کے دستے نے اپنے ممالک میں یہودی رہائشیوں کی جائیداد ہتھیانے، انہیں زیر حراست رکھنے اور پھر ملک بدر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہنگری، سلواکیہ، کروشیا، بلغاریہ، اور ویچی فرانس میں، پولیس، فوجی حکام، اور رانسیسی فوجی پولیس کے دستے اپنے زير اثر و رسوخ علاقوں میں یہودی رہائشیوں کو جلاوطن کرنے یا مشرق میں قتل کے مراکز پر بھیجنے کی جرمنی پالیسی نافذ کرنے کیلئے نہایت اہم تھے۔

کروشیا کی اوسٹاسا حکومت نے خود اپنے حراستی کیمپوں کی تعمیر کی۔ 1942ء کے آخر تک، کروشیائی حکام نے کروشیا کے دو تہائی یہودیوں (تقریبا 25,000) کو ہلاک کردیا، ان میں سے بہت سے جاسینوواک کیمپ کے نظام میں ہلاک کیے گئے۔ کروشیائی پولیس اور اوسٹاسا ملیشیا نے بھی تقریبا 320،000 سے 340،000 تک سربیوں کو ہلاک کیا، ان میں سے کچھ، جاسینوواک میں لیکن اکثریت کو ان کے رہائش پذیر گاؤں میں مارا گیا۔ 1942ء کے دوران سلاوا کے حکام نے جرمنوں کے ساتھ تعاون کر کے سلاوا کی یہودی آبادی سے تقریبا 80 فیصد کو جلاوطن کر دیا.

حالانکہ اٹلی اور ہنگری نے کئی صورتوں میں جرمنی کے ساتھ تعاون کیا، بشمول سام دشمنی کے قانون کا نفاذ، مگر ان ممالک نے جرمنی کے براہ راست قبضے میں گرنے تک کبھی یہودیوں کو جلا وطن نہیں کیا۔ یوگوسلاویہ کی محوری تقسیم اور یونان پر قبضہ ہو جانے کے نتیحے میں بلغاریہ کے قبضے میں آنے والےعلاقوں کے یہودیوں کو جلا وطن کر کے بلغاریہ نے اپنی مرضی سے جرمنوں کے ساتھ تعاون کیا۔ بلغاری حکام نے اپنی حکومت کی حکمران پارٹی کے تحفظات اور مقبول اپوزیشن پر عمل کر کے بلغاریہ سے یہودیوں کو جلاوطن کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم انہوں نے، یہودی کمیونٹی میں ڈھیروں افراد کی جائیدادیں ہتھیائیں اور مرد یہودیوں کو 1943ء اور 1944ء کے دوران جبری مزدوری پر بھیج دیا۔ رومانیہ کی فوجی پولیس کے دستوں اور فوجی یونٹوں نے بوکووینا اور بیس ساریبیا کے علاقوں اور یوکرائن میں رومانیہ کے زیر انتظام ٹرانسنسٹریا میں رومانیہ اور یوکرائن کے یہودیوں کو براہ راست قتل اور جلا وطن کر دیا۔ بہر حال، رومانیہ کی حکومت نے رومانیہ کے بنیادی صوبوں (مالڈووا، والاچیا، ٹرانسلوانیا اور بنات) سے یہودیوں کو جلاوطن کرنے سے انکار کردیا۔

جرمن مقبوضہ ممالک اور علاقوں میں بہت سے لوگوں نے جرمن قبضے کے حکام کے ساتھ تعاون کیا۔ اسٹونین، لاٹویئن، لتھواینین، یوکرائن، اور نسلی جرمن حلیفوں نے مشرقی اور جنوب مشرقی یورپ بھر میں یہودیوں کے قتل میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں بہت نے قتل کے مراکز میں گارڈز کے طور پر خدمات انجام دیں اور وہ زہریلی گیس کے ذریعے سینکڑوں ہزاروں یہودیوں کے قتل میں ملوث تھے۔ دوسرے، جو کہ خاص طور پر جنوب مشرقی یورپ کے نسلی جرمن گروہوں نے نازی حراستی کیمپ کے نظام میں خدمات انجام دیں۔

لیتھوانینز، لاٹویئنز، اسٹونینز بیلاروسینز، اور یوکرینیز نے اپنے دفاع کیلئے تنظیمیں قائم کیں جنہیں جرمن ایس ایس اور پولیس نے صفایا کر کے دوبارہ منظم کیا۔ شروع سے ہی ان "حمایتی" یا "خود دفاعی" گروہوں کے اراکین نے سینکڑوں یہودیوں کے علاوہ حقیقی اور نمایاں اشترکیوں کا قتل کیا۔ جرمنی کی طرف سے دوبارہ منظم کی جانے والی یہ اکائیاں، پولیس کی بے رحم اور قابل اعمتاد حلیف بن گئيں اور مقبوضہ سوویت یونین میں سینکڑوں ہزاروں یہودیوں اور ہلاکھوں غیر یہودیوں کا قتل عام کرنے میں جرمن حکام، فوج ، ایس ایس اور جرمن پولیس کی مدد کی۔ قبضے کی مدت کے دوران جرمنوں نے سوویت یونین کے مقامی لوگوں میں سے اپنی پولیس فورسز، فوجی اکائیوں اور شہری انتظامیہ کیلئے مددگاروں کی بھرتی کا عمل جاری رکھا۔

وکی فرانس کی حکومت نے Statut des Juifs (یہودی قانون) کا قانون وضع کر کے جرمنوں کے ساتھ تعاون کا اظہار کیا، اس قانون نے یہودیوں کی تعریف نسلی بنیاد پر کی اور ان کے حقوق کو محدود کیا۔ وکی حکام نے مزید فعال تعاون کا اظہار کیا بلکہ ابتدائی اقدامات بھی لیے اور جنوبی فرانس میں عسکری نظر بندی کیمپ قائم کیے جہاں اجنبی یہودیوں اور فرانسیسی یہودیوں کو گرفتار کیا گیا اور یہودیوں (زیادہ تر فرانس میں رہنے والے غیر ملکی یہودیوں) کو جرمن مقبوضہ پولینڈ میں قتل کے مراکز پر بھیجنے میں مدد کی گئی۔ وکی حکومت نے فرانکو باغیوں کے خلاف ہسپانوی جمہوریہ کے دفاع میں ہسپانوی اور بین الاقوامی جنگجوؤں کو جرمنی کے حوالے کر دیا۔ فرانکو کی جیت اور 1939ء میں ایک قدامت پسند، آمرانہ نظامِ حکومت کے قیام کے بعد، ان نام نہاد ہسپانوی رپبلکنز یا "ریڈ اسپینیارڈز" نے عدالتی کاروائی اور ممکنہ سزائے موت سے بچنے کیلئے فرانس میں پناہ حاصل کی۔ وکی فرانسیسی نے کئی ہزار پناہ گزینوں کو جرمن کے حوالے کرنے کے بعد انہیں حراستی کیمپوں میں قید میں ڈال دیا گیا جہاں ہزاوں افراد جاں بحق ہو گئے۔

اپریل 1940ء میں ناروے پر جرمن حملے کے بعد، ویڈکُن کوئس لنگ ایک ناویجین فاشی نے وزیر اعظم بننے کا اعلان کیا۔ مگر جلد ہی جرمنوں نے اس سے ناامید ہو کر خود اپنی انتظامہ قائم کی مگر وقفے وقفے سے کوئس لنگ کو کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرتے رہے-- کوئس لنگ کا نام انگریزی لغت میں ایک ایسے شخص کی وضاحت کرنے کیلئے ہے جو قابض دشمن کے ساتھ تعاون کر کے اپنے وطن کو دھوکہ دیتا ہے۔ نارویجن پولیس اور نیم فوجی نتظیموں نے آشوٹز۔برکیناؤ میں یہودیوں کو ملک بدر کرنے میں ایس ایس اور جرمن پولیس یونٹوں کی معاونت کی۔ اسی طرح، بیلجیم اور نیدرلینڈ میں مقامی شہریوں اور پولیس حکام نے ان ممالک میں رہنے والے یہودیوں کو پکڑنے اور ملک بدر کرنے میں جرمنوں کے ساتھ مل کر تعاون کیا۔

جرمن مقبوضہ علاقوں اور جرمنی کے یورپی محوری حلیفوں کے علاقوں میں علاقائی پروپیگنڈا کنندگان نے جرمن قبضے کے حکام یا ان کی حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا، وہ اس کوشش میں سرگرداں تھے کہ جارحیت اور سیٹلمنٹ پالیسیوں کے ذریعے، بشمول اور خاص طور پر یورپی یہودیوں کا خاتمہ اور نازی جرمنی اور محوری شرکاء کے ذریعے نشانہ بنائے جانے والے دیگر گرہوں کا قتل عام کر کے، محور کی توسیع کو قانونی روپ دیا جائے۔ اس پروپیگنڈے نے بڑے پیمانے پر جائیداد ہتھیائی، ملک بدری، اور قتل میں شرکت کے خلاف مقامی مزاحمتوں کا ازلہ کرنے میں مدد کی۔ خاص طور پر محور، جرمنی اور اٹلی میں غیر ملکی پروپیگنڈا کنندگان اور شرکاء بھی جمع کئے کئے جو حلیف ممالک یا افریقہ اور ایشیا میں ان کے زیر قبضہ علاقوں کے شہری یا رہائشی تھے تاکہ ریڈیو براڈ کاسٹ کے ذریعے یورپی اور دیگر جگہوں کے یہودیوں اور نازی جرمنی کے خلاف لڑنے والے رہبر حلیف حکومتوں کے خلاف تشدد کو جائز قرار دیا جائے۔

جرمن حکام نے "حتمی حل" نافذ کرنے کیلئے محوری اقوام اور اپنے زیر قبضہ علاقوں کے مقامی شرکاء کی مدد کا تقاضا کیا۔ حلیف حکومتوں، پولیس، اور فوجی حکام نے یہودیوں کو پکڑ کر اور قتل کے مراکز پر بھیج کر فعال طور پر یہودیوں کا خاتمہ کرنے میں شرکت کی اور دیگر صورتوں میں اپنی قومی سرحدوں کے اندر اپنے ہم وطن یہودیوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔ اپنے زیر قبضہ علاقوں (خاص طور پر مشرق) میں، یہودی آبادی کا خاتمہ کرنے کیلئے جرمنوں کا اعتماد مقامی حلیفوں (شہریوں، فوج اور پولیس) پر ہوتا تھا۔

محور سرکاری حکام اور جرمن مقبوضہ علاقوں کے مقامی مددگار دونوں نے جائیداد ہتھیائی، جبری مشقت کے لئے ملک بدری اور غیر یہودی آبادی کی بڑے پیمانے پر قتل کی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں اہم کاردار ادا کیا خاص طور پر جرمن مقبوضہ پولینڈ، جرمن مقبوضہ سوویت یونین اور جرمن مقبوضہ سربیا میں۔

مزید مطالعہ

Curtis, Michael. Vichy پر فیصلہ: Vichy فرانسیسی نظامِ حکومت میں طاقت اور تعصب۔ نیو یارک: Arcade Pub, 2002.

Davies, Peter. خطرناک رابطے: تعاون اور دوسری عالمی جنگ۔ Harlow: Pearson Education, 2004.

Dahl, Hans Fredrik. Quisling: غداری کا مطالعہ۔ کیمبرج، یو کے: کیمبرج یونیورسٹی پریس, 1999

Deák, István, Jan T. Gross, اور Tony Judt. یورپ میں مکافات عمل کی پالیسیاں: دوسری عالمی جنگ اور اس کے عواقب اور نتائج۔ پرنسٹن, NJ: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2000.

Gaunt, David, Paul A. Levine, اور Laura Palosuo, ایڈیٹرز. ہالوکاسٹ کے دوران تعاون و مزاحمت: بیلاروس، ایسٹونیا، لٹویا، لتھوانیا۔ Bern: Peter Lang, 2004.

Tomasevich, Jozo. یوگوسلاویہ میں جنگ اور انقلاب، 1941-1945: قبضہ اور تعاون۔ سٹینفورڈ: سٹینفورڈ یونیورسٹی پریس، 2001ء۔