یورپ بھر میں عام لوگ اپنے یہودی پڑوسیوں پر مظالم میں کیسے اور کیوں شریک ہوئے؟
بہت سے یورپیوں نے مظالم کی کارروائیاں دیکھیں جن میں یہودیوں کے خلاف تشدد اور بعد میں ملک بدری بھی شامل ہے۔ اگرچہ چند لوگ ہی نازیوں کے "آخری حل" کی مکمل حد سے آگاہ تھے، تاہم یہ تاریخ انسانی رویوں اور اس سیاق و سباق کے حوالے سے مشکل اور بنیادی سوالات کھڑے کرتی ہے جس میں انفرادی فیصلے کیے جاتے ہیں۔
ہولوکاسٹ کیسے اور کیوں ممکن ہوا اس کے بارے میں مزید سمجھنا جدید معاشرے اور اس آسانی کے بارے میں چیلنجنگ سوالات کو جنم دیتا ہے جس کے ساتھ لوگ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
ہولوکاسٹ کے دوران عام لوگوں نے مختلف طرز عمل دکھایا۔ محرکات دباؤ سے لے کر حکام کی موافقت اور ٹال مٹول، موقع پرستی اور لالچ، سے نفرت تک محیط تھے۔ کئی جگہوں پر یہودیوں پر ظلم صدیوں کی یہود دشمنی کے پس منظر میں ہوا۔ جرمنی میں ایسے بہت سے لوگ جو پرجوش نازی نہیں تھے، انہوں نے بھی یہودیوں اور دیگر متاثرین پر مظالم اور ان کے قتل میں مختلف سطحوں کے مطابق کردار ادا کیا۔ جرمن قبضے کے بعد دوسرے ممالک میں بھی بیشمار لوگوں نے یہودیوں پر ظلم و ستم کرنے میں تعاون کیا۔
گرد و نواح میں ایسے شاہدین موجود تھے جنہوں نے حصہ تو نہ لیا لیکن انہوں نے مظالم اور تشدد میں سرگرم طور پر حصہ لینے والوں کو سراہا۔
تاہم زیادہ تر لوگ خاموش رہے۔
نازی جرمنی کے اندر شرکت
1930 کی دہائی کے دوران بہت سے جرمنوں نے جرمنی کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی سے یہودیوں کو ہٹانے کے لیے نازی حکومت کی کوششوں میں مدد کی۔ سرگرم نازی کارکنان — مقامی نازی رہنما اور نازی پیراملٹری تنظیموں کے اراکین، ایس اے اور ایس ایس، اور ہٹلر یوتھ — نے نازی سماجی اور ثقافتی اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے یہودیوں اور غیر یہودیوں کے خلاف دھمکیوں کا استعمال کیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے ان جرمنوں کو ہراساں کیا جو یہودیوں کی دکانوں پر جاتے تھے یا جنہوں نے یہودیوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا۔
تاہم، یہاں تک کہ ان جرمنوں نے بھی جو اس انتہائی نازی عقیدے میں شریک نہیں تھے کہ "یہودی" "نسلی آلودگی" کا ایک ذریعہ ہیں، یہودی ظلم و ستم میں مختلف درجات میں حصہ لیا۔ مثال کے طور پر اسپورٹس کلبز، ادبی گروہوں اور دیگر رضاکارانہ انجمنوں کے ارکان نے یہودیوں کو نکال دیا۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان اپنے یہودی ہم جماعتوں یا حتیٰ کہ بالغوں کو ہراساں کرنے کی اپنی نئی آزادی سے لطف اندوز ہوئے۔ بہت سے عام جرمن تب اس میں شامل ہو گئے جب انہوں نے یہودی کاروبار، گھر، یا سامان سستے داموں فروخت کیا یا کم کاروباری مسابقت سے فائدہ اٹھایا، کیونکہ یہودی معیشت کا حصہ نہیں تھے۔ ایسے فوائد کے ساتھ جاری مظالم میں ان افراد کا حصہ شامل ہو گیا۔
کچھ مکان مالکان اور پڑوسیوں نے کرایہ داروں یا دوسرے افراد کے نجی طور طریقے پر ملامت کی۔ اس میں "نسلی ناپاکی"، یہودیوں اور "جرمن یا متعلقہ خون" کے افراد کے درمیان جنسی تعلقات، یا جرمن ضابطہ فوجداری کے پیراگراف 175 کی خلاف ورزی شامل ہے جس کے تحت ہم جنس پرستی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
وہ جرمن جنہوں نے کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا، انہوں نے مختلف طریقوں سے یہودی ظلم و ستم کا جواب دیا۔ یہودیوں کو ان کے کام کی جگہوں سے نکالنے اور اسکولوں اور کمیونٹیز میں ان کو الگ کرنے کے عمل میں بڑی تعداد خاموش حامی تھی۔ دوسروں نے تماشائیوں کے طور پر عوامی پریڈ جیسے واقعات پر خوشی کا اظہار کیا تا کہ ان لوگوں کو شرمندہ کیا جا سکے جن پر "نسلی ناپاکی" کا الزام تھا۔
نازی پالیسیاں اور اقدامات بمع اشرافیہ اور عام جرمنوں کا ردعمل 1938 کے آخر تک جرمن معاشرے میں یہودیوں کی تقریباً مکمل تنہائی کا باعث بنے۔ اگرچہ بہت سے جرمنوں نے یہودیوں کو محدود اور پسماندہ کرنے کو قبول کیا تھا، لیکن انہوں نے 10-9 نومبر 1938 (کرسٹلناخت) کے نازیوں کی قیادت میں ہونے والے قتل عام کے دوران ہونے والے تشدد اور املاک کی تباہی کو ناپسند کیا۔ تاہم، چند لوگوں نے آواز اٹھائی۔ جنگ عظیم دوم کے آغاز کے بعد جرمنی سے یہودیوں کی جلاوطنی کے دوران بھی یہی ہوا۔ ان علاقوں میں، جہاں ملک بدری کی وجہ سے کچھ عدم اطمینان پیدا ہوا تھا، نازی پروپیگنڈا کرنے والوں نے "اندرونی دشمن" ہٹانے کی قبولیت کو فروغ دینے کے لیے اپنی کوششوں کو مضبوط کیا۔
نازی جرمنی میں ردعمل کے محرکات
مختلف محرکات نے یہودیوں پر مظالم کے ردعمل کو متاثر کیا اور غیر فعال یا بے حسی کا ماحول پیدا کیا۔ محرکات نازی نظریے پر یقین سے لے کر خوف اور خود غرضی تک پھیلے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر نازی پروپیگنڈے کی کوششوں سے دیرینہ یہود دشمن تعصبات کو فروغ ملا اور بہت سے لوگوں کی جانب سے یہودیوں کو بطور "اجنبی" دیکھنے کا باعث بنے۔ نازیوں کا عوامی مقامات پر بھی مکمل کنٹرول تھا۔ حکومتی سنسرشپ نے اختلافی آوازیں پھیلنے سے روکا اور بہت کم جرمنوں میں یہودیوں پر مظالم کے خلاف عوامی سطح پر بات کرنے کی ہمت تھی۔ وہ اس خطرے سے آگاہ تھے جو پولیس گردی والی ریاست میں درپیش ہو سکتا ہے جہاں حکومتی مخالفین کو من مانے طور پر گرفتار کیا جا سکتا ہے اور بغیر کسی مقدمے کے حراستی کیمپوں میں قید کیا جا سکتا ہے۔
حکام کو قبول کرنے اور قوانین اور احکام کی تعمیل کرنے کے دباؤ نازی کارکنوں کی جانب سے اضافی دھمکیوں کے بغیر بھی موجود تھے۔ بہت سے لوگ اپنی ملازمتوں کو محفوظ بنانا چاہتے تھے یا اپنے کیریئر میں پیش رفت کرنا چاہتے تھے۔ دیگر لوگ نازیوں کی نسلی روایات کی تعمیل میں ناکام ہو کر "حالات کے مخالف جانے" پر رضامند نہیں تھے۔ زیادہ تر لوگ یہودی دوستوں اور پڑوسیوں سے تعلقات منقطع کرتے تھے، اگر ذاتی طور پر نہیں تو عوامی سطح پر۔
تاہم، خوف اور دھمکی کے عنصر میں مبالغہ آرائی نہیں کرنی چاہئیے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مظلوموں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ بہت سے جرمنوں کے لیے ان کی روزی روٹی اور ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود اس گروہ کے مقابلے میں بڑی ترجیح تھی جو آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے کی نمائندگی کرتا تھا اور جسے مسلسل "خطرناک خطرہ" کے طور پر برا بنایا جاتا تھا۔ جب 1930 کی دہائی کے دوران جرمنی کی معیشت اور عالمی حیثیت میں بہتری آئی تو جرمنوں کی اکثریت — جن میں ایسے متعدد لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی ہٹلر کو ووٹ نہیں دیا تھا اور جو نازی کے طور پر اپنی پہچان نہیں کرواتے تھے — انہوں نے مثبت تبدیلیوں کی حمایت کی اور یہودیوں اور دیگر نازی اہداف کو لاحق خطرات کو نظرانداز کر دیا۔
براہ راست نازی حکومت کے تحت مشرقی یورپ کے علاقوں میں شرکت
جنگ شروع ہونے کے بعد بہت سے لوگ براہ راست نازی حکومت کے ماتحت ہو گئے۔ ان علاقوں میں عام لوگوں نے جس طرح یہودیوں کے مظالم کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا، وہ مختلف عوامل پر منحصر تھا، جیسا کہ ملک، علاقہ، نازی تسلط کی شدت، یہودیوں کے خلاف موجودہ دشمنی، اور اس بارے میں تاثرات کہ آیا جرمنی جنگ جیت جائے گا اور یورپ کا حکمران رہے گا یا نہیں۔
1939 میں پولینڈ، 1940 میں مغربی اور جنوبی یورپ، اور 1941 میں سوویت یونین کے حملے کے بعد، جرمن فوجیں وسیع تر مقبوضہ علاقوں میں پھیل گئیں۔ انہیں مقامی حکام اور پولیس سے لے کر عام شہریوں تک ہزاروں کی تعداد میں غیر جرمنوں کی ضرورت تھی، تا کہ تسلط قائم کرنے کی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں مدد ملے، بشمول ایسے اقدامات جن میں یہودیوں اور نازی ازم کے دیگر متاثرین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
مشرقی یورپ کے علاقوں میں براہ راست نازی حکمرانی کے تحت غیر جرمنوں نے نازی پالیسیوں کو پورا کرنے میں مدد کی جس میں یہودیوں کی یہودی بستی اور جبری مشقت، یہودی املاک پر قبضہ یا منتقلی، اور یہودیوں کی پکڑ دھکڑ اور انہیں قتل گاہوں تک لے جانا شامل ہے۔ سوویت علاقوں میں یہودیوں، کمیونسٹوں، روما اور نفسیاتی مریضوں پر نازیوں کے منظم اجتماعی فائرنگ کے واقعات کے دوران لاکھوں غیر جرمن "معاون پولیس" نے محافظوں اور قاتلوں کے طور پر کام کیا۔ مقامی حکومتی اہلکاروں نے دوسروں کو کلرک، قبر کھودنے والے کارکن، ویگن ڈرائیور اور باورچی کے طور پر کام کرنے کے لیے بھرتی کیا۔ بعض اوقات کچھ مقامی لوگ اپنی ایماء پر یہودیوں پر تشدد کرتے، انہیں لوٹتے اور قتل کر دیتے۔
مشرقی یورپ میں غیر جرمن ردعمل کے محرکات
نازی حکومت والے مشرقی یورپ میں یہودیوں پر مظالم اور ان کے قتل میں شریک ہونے والے غیر جرمنوں کے مقاصد مختلف تھے۔ نازی پراپیگنڈے نے دیرینہ، مقامی یہود دشمن تعصبات کو تقویت دی۔ نظریاتی طور پر چلنے والے افراد یہودیوں کے خلاف لائسنس یافتہ تشدد کے ماحول میں کام کرنے کے لیے آزاد تھے۔ 1939 اور 1941 کے درمیان جن جگہوں پر سوویت افواج نے قبضہ کیا تھا، وہاں مقامی آبادی اکثر یہودیوں کو جابرانہ سوویت پالیسیوں کے لیے ایک گروہ کے طور پر مورد الزام ٹھہراتی تھی۔ جرمن پروپیگنڈا کرنے والوں کا مقصد یہودیوں اور کمیونسٹوں کو ایک فرضی "یہودی - بولشویک" خطرے سے منسلک کر کے اس دشمنی کو بڑھانا تھا۔
لاکھوں لوگ معاون پولیس فورسز یا ملیشیا میں شامل ہو گئے۔ شمولیت کے حوالے سے ان کے محرکات میں روزگار، آمدنی اور خوراک کی ضرورت، یا لوٹی ہوئی جائیداد سے اپنے آپ کو خوشحال بنانے جیسے مواقع شامل تھے۔ کچھ لوگوں کا مقصد نئے جرمن آقاؤں سے وفاداری ثابت کرنا تھا۔ دیگر لوگوں نے سوویت حکمرانی کے تحت اپنے خاندانوں کی تکالیف کا بدلہ لینے یا کوئی اور حساب چکانے کا موقع تلاش کیا۔ یوکرین اور بالٹکس (لیتھوانیا، لیٹویا، ایسٹونیا) میں بنیاد پرست قوم پرستوں نے اس بناء پر جرمنوں سے تعاون کیا کہ انہیں امید تھی کہ جرمن انہیں آزاد کر دیں گے اور نسلی طور پر یکساں ریاستیں قائم کرنے کی اجازت دے کر انعام دیں گے — وہ امیدیں جو بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔
مقامی پولیس اہلکاروں کو یہودی بستیوں میں یعنی قصبوں کے سیل بند علاقوں میں جہاں یہودی خوفناک حالات میں رہنے پر مجبور تھے، حفاظت میں معاونت کے مقصد کے لیے بھرتی کیا گیا۔ یہودی بستیاں ختم کرنے کے دوران ان فورسز نے یہودیوں کی پکڑ دھکڑ اور نازیوں کی قتل گاہوں میں جان سے مارنے کے لیے بے دخلی کے لیے جمع کرنے میں ایس ایس اور دیگر جرمن پولیس کی مدد کی۔ باقاعدہ پولیس کے تمام لوگ پرجوش معاون نہیں تھے، لیکن وہ جرمن احکامات کی نافرمانی کے نتائج سے خوفزدہ تھے۔ دیہی علاقوں میں کچھ مقامی پولیس والوں نے رضاکار فائر فائٹرز کے ساتھ "یہودیوں کے شکار" میں حصہ لیا۔
دیگر مقامی افراد نے چھپے ہوئے یہودیوں کی خبریں دی۔ فائدہ حاصل کرنے کے موقع نے، جو جرمنوں کی طرف سے ادائیگی یا یہودی سامان لینے کے ذریعے تھا، دیہی علاقوں اور شہروں میں "یہودی شکاریوں" کو ترغیب دی۔ بلیک میل کرنے والوں نے دھمکی دی کہ وہ چھپے ہوئے یہودیوں کی اطلاع دیں گے تا کہ ان سے رقم اور سامان چھین لیا جائے۔ کچھ مقامی لوگوں نے پہلے تو یہودیوں کو چھپا لیا لیکن پھر اس خوف سے انہیں واپس بھیج دیا کہ اگر یہودیوں کا پتہ چلا تو انہیں اور ان کے خاندانوں کو گولی مار دی جائے گی۔
یورپ کے دیگر علاقوں میں شرکت، محرکات اور ردعمل
یورپ کے دیگر علاقوں میں جو نازی جرمنی کے ساتھ منسلک تھے یا ان کے زیر تسلط تھے، کچھ لیڈروں اور عوامی عہدیداروں نے نسبتاً کم جوش کے ساتھ یہودی مخالف پالیسیوں کو نافذ کرنے میں مدد کی۔ ان اقدامات میں شہریت، ملازمت اور کاروبار کی ملکیت سے متعلق امتیازی قوانین اور احکامات کو نافذ کرنا، اور یہودیوں کی املاک کو ضبط کرنا شامل تھا۔ بعض معاملات، جیسا کہ رومانیہ، ہنگری، اٹلی، بلغاریہ، اور فرانس میں، غیر جرمن رہنماؤں نے، جو آبائی یہود دشمنی، نسل پرستی، اور قوم پرستی سے متاثر تھے، ان احکام پر عمل کیا۔ جرمن تسلط کے تمام ممالک میں انہوں نے یہودیوں کی شناخت، رجسٹریشن اور نشان زد کرنے میں مدد کی۔ باقاعدہ پولیس اور عسکری طور پر تربیت یافتہ صنفی دستوں کے ارکان نے یہودیوں کو گھیرے میں لیا اور انہیں "مشرق میں" بھیجنے کے لیے جمع کیا۔ نازیوں نے ان جلاوطنیوں کو "مزدوری کے لیے دوبارہ آباد کاری" کا بھیس دیا۔ غیر جرمن ریلوے کارکنوں نے جلاوطن لوگوں کو سرحد تک پہنچایا۔
"یہودی شکاریوں" کی موجودگی کی وجہ سے ان میں سے کچھ نے نظریاتی طور پر نازیوں کے ساتھ اتحاد کیا اور بہت سوں نے مالی انعامات کے لالچ میں یہودیوں کے چھپ کر زندہ رہنے کے امکانات کو کم کر دیا۔ ہالینڈ جیسے ملک میں بھی ایسا ہی تھا، جہاں جنگ سے پہلے یہودیوں کے خلاف مقامی دشمنی اتنی زیادہ نہیں تھی۔
جنگ بطور ترغیب
عام طور پر، جرمنوں کی غیر جرمنوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سٹالن گراڈ (موسم سرما 1943-1942) میں ان کی شکست سے پہلے بہت زیادہ تھی، جو جنگ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا تھا۔ بہت سے یورپی جنہوں نے سوچا تھا کہ جرمنی مستقبل قریب میں یورپ کا مالک رہے گا، جرمنی کی شکست کے امکان کا سوچنے لگے۔ وہ ان کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے نسبتاً کم خواہشمند ہو گئے جن کے لیے وہ جنگ کے بعد جوابدہ ہو سکتے تھے۔ جنگ کے نتائج کے بارے میں بدلتے تاثرات نے بھی منظم مزاحمتی کوششوں کو حوصلہ دیا۔ 1943 کے موسم خزاں تک جرمنی کی شکست کا قوی امکان تھا۔ تاہم، تب تک یورپ کے بیشتر یہودیوں کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔ پانچ ملین یہودی مر چکے تھے۔
یہودیوں کے معاون افراد
افراد کی ایک معمولی اقلیت اکیلے یا منظم نیٹ ورکس کی صورت میں یہودیوں کی مدد کا خطرہ مول لے رہی تھی۔ مدد متعدد صورتوں میں آئی۔ کچھ نے یکجہتی کا عندیہ دیا۔ مثال کے طور پر پیرس میں کچھ غیر یہودیوں نے احتجاج کے طور پر سٹار آف ڈیوڈ کے بیجز پہنے۔ بعض جرمن شہروں میں غیر یہودی اکثر اوقات ستارہ پہن کر یہودیوں کو تسلیمات پیش کرتے تھے۔ دوسرے افراد نے یہودیوں کو بچانے کی کوشش کر کے سزا اور موت کا خطرہ مول لیا۔ انہوں نے پکڑ دھکڑ کے دوران یہودیوں کو چھپایا، انہیں کھانا فراہم کیا، انہیں خطرے سے آگاہ کیا اور ان کے ساز و سامان کی حفاظت کی۔
تنقیدی سوچ سے متعلق سوالات
تحقیق کریں کہ معاشرے میں ایسے پیشے اور کام جو اقلیتوں کے ساتھ حقیقی جسمانی بدسلوکی سے متعلق نہیں ہیں، وہ مظالم اور حتیٰ کہ قتل کا باعث کیسے بن سکتے ہیں۔
غور کریں کہ معاشرے میں کون سے رویے، حالات اور عقائد ظلم اور قتل کو نظر انداز کرنا آسان بنا سکتے ہیں؟ اس دور کی مثالوں پر تحقیق کریں۔
آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ جنگ کے بعد یورپ بھر میں زیادہ تر لوگوں نے یہ ماننے کا انتخاب کیا کہ صرف نازی ہی ان جرائم کے ذمہ دار ہیں؟ ایسی خرافات سے آج کیا خطرات لاحق ہیں؟ اپنے ماضی کے مشکل پہلوؤں کا سامنا نہ کرنے کے کیا مضمرات ہیں؟