دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن مقبوضہ یورپ بھر میں قتل و غارت پھیلانے کے دوران نازیوں نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے ہولوکاسٹ کے انکار کو ہوا دی۔

نازی جرمنی میں ہولوکاسٹ کو حکومتی راز سمجھا جاتا تھا۔ جرمن تحریری ثبوت نہيں چھوڑتے تھے۔ قتل و غارت کے بیشتر حکم زبانی طور پر دئے جاتے تھے، خاص طور پر اعلی سطحوں پر۔ یہودیوں کو قتل کرنے کا حکم صرف ضرورت کے تحت جاری کیا جاتا تھا۔ نازی سربراہان قتل و غارت کی کارروائیوں کی تفصیلی منصوبہ بندی سے گریز کرتے تھے، اور ان کا قتل و غارت باقاعدہ طریقے سے لیکن بغیر تیاری کے کیا جاتا تھا۔ جرمنوں نے جنگ کے اختتام سے پہلے موجود بیشتر ثبوت تباہ کر ديئے۔ بچنے والے اور قتل و غارت سے تعلق رکھنے والی دستاویزات کو خفیہ معلومات قرار دے کر Geheime Reichssache (مکمل طور پر خفیہ) کی مہر لگا دی گئی، اور اسے دشمنوں کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رکھنے کے لئے تباہ کر دیا جاتا تھا۔ ایس ایس کے رائخ لیڈر اور جرمن پولیس کے صدر ہائنریخ ہملر نے 1943 میں پوسین میں ایس ایس جرنیلوں سے ایک خطاب میں کہا کہ یورپی یہودیوں کے اجتماعی قتل کو خفیہ رکھنا ضروری تھا اور اسے ریکارڈ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

نامعلوم افراد سے اس قتل و غارت کو چھپانے کے لئے ہٹلر نے جرمن دستاویزات یا بیانات میں اس قتل و غارت کا ذکر نہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بدلے، جرمن قتل و غارت کے لئے کوڈ اور غیر جانبدارانہ اصطلاحات کا استعمال کرتے تھے۔ نازیوں کی زبان میں "کارروائی" (Aktion) سے مراد جرمن سلامتی کی فورسز کے ہاتھوں یہودی (یا دیگر) شہریوں پر تشدد تھا؛ "مشرق میں نوآبادکاری" (Umsiedlung nach dem Osten سے مراد جرمن مقبوضہ پولینڈ میں قتل کے مراکز میں یہودیوں کی جبری جلاوطنی تھا؛ اور "خصوصی سلوک"(Sonderbehandlung) سے مراد قتل و غارت تھا۔

اس وقت اور اس کے بعد بھی ایسی اصطلاحات کے استعمال کی وجہ سے نازیوں کے اقدام پر پردہ ڈالا جاتا رہا۔ یہ کچھ حد تک قتل و غارت کا نشانہ بننے والے افراد کو جتنی دیر تک ممکن ہو اتنی دیر تک اندھیرے میں رکھ کر انہيں مار ڈالنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا رہا۔ یہودی مزاحمت صرف اسی وقت ممکن تھی جب یہودی نازیوں کی قتل و غارت کی پالیسی کو سمجھ جاتے۔ اس کے علاوہ ہٹلر یہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ کوئی بھی یہودیوں کے قتل و غارت کے خلاف آواز نہيں اٹھائے گا۔ اس کی اپنی پارٹی میں ایسے کئی افراد تھے جو یہودیوں کے خلاف تشدد کی مہم سے متفق تھے، لیکن جو بعض اوقات قتل و غارت سے ہچکچاتے تھے۔ مثال کے طور پر، مقبوضہ بیلاروس کے جرمن شہری منظم ولہیم کویے بیلاروس کے یہودیوں کے قتل کی مکمل حمایت کرتے تھے، لیکن جب ایس ایس سے جرمنی کے یہودیوں کو منسک جلاوطن کر کے وہاں گولی مار کر ہلاک کر دیا تو انہوں نے احتجاج کیا۔

ہٹلرکا ہولوکاسٹ کے متعلق معلومات کو عام ہونے کی وجہ سے ممکنہ منفی ردعمل کا خوف بے وجہ نہيں تھا۔ شکر ریز اصطلاحات کے استعمال اسے خفیہ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے تھے کیونکہ صرف وہی افراد بیانات کا مفہوم سمجھ پاتے یا تحریری ثبوت کا درست تجزیہ کر پاتے جو ان اصطلاحات کے حقیقی مفہوم سے واقف تھے۔

خفیہ زبان کے استعمال کے علاوہ، ہائنریخ ہملر نے حلیفوں کی بڑھتی ہوئی افواج سے قتل و غارت کو پوشیدہ رکھنے کے لئے نشانہ بننے والوں کی لاشوں کو تباہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے ایس ایس افسر پال بلوبل کو آپریشن (Aktion) 1005 پر مامور کیا، جو اجتماعی قتل و غارت کے مقامات کو تباہ کرنے کے منصوبے کا خفیہ نام تھا۔ ایس ایس نے قیدیوں کو جرمنی کے مقبوضہ پولینڈ اور سابقہ سوویت علاقہ جات میں قتل و غارت کے کھلے مقامات میں اجتماعی قبروں کو دوبارہ کھود کر لاشوں کو جلانے پر مجبور کیا تاکہ اجتماعی قتل کے ثبوت کو مٹایا جاسکے۔ مثال کے طور پر 1943 میں موسم گرما میں کیو میں بابی یار میں، 1942 میں بیلزیک میں اور 1943 میں سوبیبور اور ٹریبلنکا میں، اجتماعی قبروں کو دوبارہ کھود کر لاشوں کو جلا کر خاک کر دیا گيا۔ اس طرح جرمنوں اور ان کا ساتھ دینے والوں نے سوویت فوجوں کے وہاں پہنچنے سے قبل اجتماعی قتل کے کئی ثبوت مٹا دئے، لیکن وہ تمام ثبوت مٹا نہيں پائے۔

جنگ کے آخری حصے میں برطانیہ اور امریکہ کو ہولوکاسٹ کی خبریں پہنچنے کے بعد نازی حکومت نے باضابطہ طریقے سے غلط معلومات فراہم کرنے کی مہم کے ذریعے یہودیوں کی جانب اپنی پالیسیوں کی مذمت کا جواب دینے کی کوشش کی۔ 23 جون 1944 کو نازیوں نے انٹرنیشنل ریڈ کراس کے وفد کو مقبوضہ بوہیمیا، یعنی کہ موجود دور کے جمہوریہ چیک میں تھیریسئین شٹٹ میں واقع یہودی بستی کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ تھیریسئین شٹٹ کے یہودیوں کے لئے اچھی صورت حال دکھا کر مقبوضہ مشرقی علاقہ جات میں نازیوں کی قتل و غارت کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ریڈ کراس کا وفد دو ڈینش افسران اور ایک سویس نمائندے پر مشتمل تھا، اور ان کا دورہ صرف چھ گھنٹے تک جاری رہا۔ یہ بہت لمبا چوڑا فریب تھا۔ ایس ایس کے حکام نے یہودی بستی میں بھیڑ کو کم کرنے کے لئے یہودیوں کی جلاوطنی میں اضافہ کر دیا اور درخت اور باغ اگا کر، گھروں کو رنگ کر، کیفے اور سنیما گھر وغیرہ کھول کر یہودی بستی کو خوبصورت بنانے کی کوششیں کی۔ قیدیوں کو معائنے کے دوران یہودی بستی کی صورت حال کے متعلق مثبت معلومات فراہم کرنے کی بھی تعلیم دی گئی۔ تاہم وفد کے لوٹنے کے بعد، ایس ایس نے یہودیوں کی جلاوطنی بحال کر دی، خاص طور پر جرمن مقبوضہ پولینڈ میں آشوٹز کے قتل و غارت کے مرکز پر۔ وفد کی آمد کا مقصد پورا ہو گیا تھا یعنی یہودیوں کی طرف نازیوں کی پالیسیوں کی حقیقی نوعیت کے متعلق بین الاقوامی رائے کی گمراہی۔

نازیوں کی طرف سے ہولوکاسٹ کو خفیہ رکھنے کی کوششوں کے باوجود، معلومات پھر بھی باہر چلی گئیں۔ مجرم خود اپنے اقدام کے بارے میں بات کرتے تھے۔ بعض اوقات اجتماعی قتل سے بچنے والے بھی قتل و غارت کے متعلق گفتگو کرتے تھے۔ یہودی اور پولش دونوں ہی خفیہ تنظیمیں مشرقی یورپ میں جرمن کارروائی کی خبریں دنیا بھر میں پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ بعض اوقات معلومات نامکمل، اور غلط ہوتی تھی، لیکن 1942 کے دوسرے حصے تک عمومی پالیسی اور واقعات واضح ہونا شروع ہو گئے۔

لیکن نازیوں کے قتل و غارت کے پروگرام کے وجود کو قبول کرنے کی نفسیاتی رکاوٹیں قابل قدر تھیں۔ ہولوکاسٹ نہایت خلاف عقل تھا اور اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہ تو دیکھی گئی اور نہ ہی قائم کی گئی۔ یہ سوچا بھی نہيں جا سکتا تھا کہ ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک اپنے وسائل کو استعمال کر کے لاکھوں کروڑوں شہریوں کو، بشمول عورتیں، بچے، بوڑھے اور بہت کم عمر کے افراد کے قتل کر دے گا۔ ایسا کرنے کے لئے اکثر نازی جرمنی کے مالی اور فوجی مفادات کو بھی نظر انداز کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے قتل و غارت میں اضافہ کر کے جنگ میں مزدوروں کی کمی کے باوجود بھی ماہر یہودی مزدوروں کو بھی قتل کر دیا۔

کئی افراد نے یہودی شہریوں کے قتل و غارت کی اطلاعات کے جواب میں ان اطلاعات کا موازنہ پہلی جنگ عظیم کے دوران مقبوضہ اور مشرقی فرانس میں ہونے والے ظلم و ستم سے کرنا شروع کر دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی میڈیا نے جرمن قبضے کو وحشت ناک قرار دے دیا، اور جرمن سپاہیوں پر جرمن مقبوضہ بیلجیم میں غیرمسلح شہریوں کے خلاف ستم ڈھانے کے الزام لگائے۔ انہوں نے جرمن سپاہیوں پر بچوں میں چاقو گھونپنے، عورتوں کی شکل بگاڑنے اور فوج کی طرف سے جاری ہونے والی زہریلی گیس کے ذریعے شہریوں کو قتل کرنے کے الزامات لگائے۔ بعد میں ثابت ہوا کہ جنگ کے بعد اتحادیوں نے جنگ کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے یہ کہانیاں گھڑی تھیں۔ اس کے نتیجے میں کئی افراد دوسری جنگ عظیم کے دوران اجتماعی قتل کی اطلاعات کو سنجیدگی سے نہيں لیتے تھے۔ تاہم اس بار یہ اطلاعات عام طور پر درست ثابت ہوئيں۔

آج کل ایک طرف کچھ افراد کے دلوں میں ہولوکاسٹ کی حقیقت پر شبہ کرنے کے لئے مذکورہ بالا نازیوں کی پالیسیوں کے حوالے سے گمراہ کیا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف دیگر کئی افراد نسلی، سیاسی یا حکمت عملی کی بنیادوں پر ہولوکاسٹ سے انکار کرتے ہيں۔ انکار کرنے والے یہ افراد اس منطق سے شروع کرتے ہيں کہ ہولوکاسٹ کبھی واقع ہی نہيں ہوا تھا۔ یہ منطق ان کے مقاصد کو پورا کرتی ہے۔ ہولوکاسٹ سے انکار ان کے لئے دین کے ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور ان سے کتنی بھی بحث کر لی جائے، وہ اپنے عقیدے پر ڈٹے رہتے ہيں۔ یہ انکار خلاف عقل ہے، اور اس واقعے کی تاریخ یا اس کی وسعت کے حقائق سے قطعا اس کا کوئی تعلق نہيں ہے۔ کچھ افراد سام دشمنی، یعنی کہ یہودیوں سے خلاف عقل نفرت کی وجہ سے ہولوکاسٹ سے انکار کرتے ہيں/

اگرچہ کئی دانشوروں نے ہولوکاسٹ سے انکار کو "جدید شکل کی سام دشمنی" کا نام دیا ہے کیونکہ اس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سیاق و سباق میں 1945 سے قبل واقع ہونے والی سام دشمنی کے کئی عناصر کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ ہولوکاسٹ سفیدفام مشرقی دنیا کو شرمندہ کرنے اور یہودیوں کے مفاد کو آگے بڑھانے کے ایک وسیع منصوبے کا حصہ ہيں۔ ہولوکاسٹ کے دوران بھی ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کچھ افراد سمجھتے رہے کہ یہودی شہریوں کی جرمنوں کے ہاتھوں قتل و غارت کی اطلاعات پروپاگینڈا رپورٹیں ہیں جن کا مقصد حکومت کو یہودیوں کے ساتھ حسب منشا سلوک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔

ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والے کئی افراد کہتے ہيں کہ یہ فریب سب سے پہلے اسرائیل کے مفادات کو پورا کر رہا تھا۔ ایسے افراد کے لئے ہولوکاسٹ سے انکار ریاست اسرائیل کے استحقاق پر حملہ ہے۔ آخر میں دیگر افراد نازی نسل پرستی کو ابھرتا ہوا دیکھنے کی خواہش کی وجہ سے ہولوکاسٹ سے انکار کرتے ہيں۔ وہ اس بات پر قائم ہيں کہ نازی ازم ایک اچھا سیاسی فلسفہ تھا، اور یہ کہ نازیوں کے قتل و غارت کی اطلاعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی "منفی" خبریں آج کے دور میں نازی تحریک کے دوبارہ شروع ہونے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہيں۔ وہ نئی تازی تحریک کے لئے حمایت میں اضافہ کرنے کے لئے ہولوکاسٹ سے انکار کرتے ہيں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہولوکاسٹ سے انکار ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اس کے باہر نفرت انگیز گروپوں کو یکجا کرنے کا کام کرتا ہے۔ جس میں کوکلوس کلین کے علیحدگی پسند، نازی ازم کو دوبارہ شروع کرنے والے بے عقل، اور اسرائیل کو تباہ کرنے کے خواہش مند شدت پسند مسلم کارکنان شامل ہيں۔

ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والے افراد ایک تاریخی واقعے کی حیثیت سے ہولوکاسٹ کے وجود کے متعلق بحث کرتے ہیں۔ ان کی اولین خواہش اپنے آپ کو کسی تاریخی نقطے پر بحث کرنے والے عالم ظاہر کروانا ہے۔ وہ توجہ اور "مسئلے کا دوسرا پہلو" بیان کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم چاہتے ہيں۔ حقیقی دانشور ہولوکاسٹ کی حقیقت سے انکار نہين کرتے ہيں، لہذا ایسے بیانات تاریخی مباحثے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے ہيں۔ انکار کرنے والے اصرار کرتے ہيں کہ ہولوکاسٹ کے من گھڑت ہونے کا تصور مباحثے کے لئے مناسب عنوان ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود قابل قدر ثبوت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہولوکاسٹ کا واقعی کوئی وجود تھا، اور یہ انکار کرنے والوں کے مباحثے کا مقصد تاریخ سے زيادہ سام دشمنی اور نفرت انگیزی پر مبنی سیاست ہے۔