14 جولائی 2004 کو سٹی یونیورسٹی آف یو یارک کے گریجوئیٹ سینٹر میں منعقد ہونے والے دارفور ھنگامی سربراہ اجلاس کے موقع پر دیا جانے والا بیان۔ اِس اجلاس کا اہتمام امریکن جیوئش ورلڈ سروس اور یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم نے کیا تھا۔

سوڈان انسان کے دکھ درد، اذیت اور تکلیف کے حوالے سے آج کی دنیا کا کیپٹل بن چکا ہے۔ یہاں آبادی کے ایک غالب حصے نے ایک دوسرے حصے کو ذلت، بھوک اور موت کی طرف دھکیل دیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کافی عرصے تک نام نہاد مہذب دنیا اِس صورتِ حال سے آگاہ رہی مگر اُس نے اِس سے منہ پھیر لینا مناسب جانا ہے۔ مگر اب لوگ شعور رکھتے ہیں اور یوں اب اس کیلئے بے حسی برقرار رکھنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ میرے دوستو! وہ لوگ جو آپ کی طرح بے حسی کا حصار توڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہر شخص کی حمایت اور تعاون کے حقدار ہیں۔

آج کی اِس نشست کا اہتمام کئی تنظیموں نے ملکر کیا ہے۔ اِن میں یونئیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میوزیم کی ضمیر سے متعلق کمیٹی (جیری فاؤلر)، نیو یارک کی سٹی یونیورسٹی کا گریجوئیٹ سینٹر، امریکن جیوئش ورلڈ سروس (روتھ میسنگر) اور انسانی بھلائی کی کئی دوسری تنظیمیں شامل ہیں۔

جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے تو میں ان مظلوم سوڈانیوں کی مدد کرنے کی کوشش میں کئی سال تک شامل رہا ہوں اور یہ میرے اُس ملینیم لیکچر کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہے جو میں نے "بے اعتنائی کے خطرات" پر وھائیٹ ھاؤس میں دیا تھا۔ جب میں اپنے لیکچر سے فارغ ہوا تو حاضرین میں سے ایک عورت کھڑی ہوئی اوراُس نے مجھے کہا " “میں روانڈا سے ہوں"۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ میں روانڈا کے قتلِ عام سے متعلق بین الاقوامی برادری کی بے اعتنائی کی وضاحت کیسے کر سکتا ہوں۔ میں صدر کی طرف متوجہ ہوا جو میرے دائیں طرف تشریف فرما تھے اور کہا " جنابِ صدر! بہتر ہو گا کہ آپ اِس سوال کا جواب دیں۔ ہماری طرح آپ بھی جانتے ہیں کہ روانڈا کی المیہ جس میں بے گناہ مرد، عورتوں اور بچوں سمیت چھ لاکھ سے آٹھ لاکھ افراد مار ڈالے گئے روکا جا سکتا تھا۔ پھر اِسے کیوں نہیں روکا گیا؟" صدر صاحب کا جواب سچا اور مخلصانہ تھا۔ اُنہوں نے کہا " یہ سچ ہے کہ اسے روکا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی طرف سے اور امریکی عوام کی طرف سے معذرت کا اظہار کرنے کیلئے خود وہاں گیا۔ بہر حال میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا پھر کبھی نہیں ہو گا"۔

اگلے روز سوڈان سے سوڈان کے ایک مہاجر پادری کی قیادت میں ایک وفد مجھ سے ملنے آیا۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ بیس لاکھ سوڈانی پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا " اب آپ صدر کے وعدے کے ضامن ہیں۔ اُنہیں سوڈان میں قتلِ عام روکنے کا وعدہ پورا کرنے پر مجبور کریں"۔

وہ خطرناک المیہ اب بھی سوڈان کے علاقے دارفور میں جاری ہے۔ اب اِس کی خوفناک صورتِ حال کو ٹیلیویژن پراور بارسوخ جریدوں کے پہلے صفحے پر دکھایا جاتا ہے۔ کانگریس کے مندوبین، خصوصی سفارتی نمائندے اور انسانی بھلائی کی ایجنسیاں ہمیں وہاں پر ہونے والے ظلم وستم سے بھری اطلاعات بھیج رہی ہیں۔ دس لاکھ انسان، جس میں چھوٹے بڑے سب شامل ہیں، دربدر ہوچکے ہیں اور اُنہیں جلاوطن کر دیا گیا ہے۔ ہرروز درجنوں عورتوں کی بے حُرمتی کی جارہی ہے۔ بچے بیماری، بھوک اور تشدد سے مررہے ہیں۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی آزاد ملک کا شہری اِس طرف توجہ نہ دے۔ کیسے کوئی بھی کسی بھی جگہ غصے میں نہ آتا ہو؟ کیسے ایک شخص، چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، ان کے بارے میں رحم محسوس نہ کرے؟ اور ان سب سے بڑھ کریہ کہ کیسے کوئی شخص جو اِس صورتِ حال کو یاد کرے وہ پھر بھی خاموش بیٹھا رہے؟

ایک یہودی کی حیثیت سے جو کسی واقعہ کا ہولوکوسٹ سے مقابلہ نہیں کرتا میں خود کو سوڈانی المیے کو دیکھ کر بہت پریشان ہوتا ہوں اور اسے ایک چیلنج تصور کرتا ہوں۔ ہمیں ہر صورت اِس بارے میں کچھ سوچنا اور کرنا چاہئیے۔ ہم یہودیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں غیر یہودیوں کی بے اعتنائی پر لعنت ملامت کیسے کر سکتے ہیں اگر ہم خود دوسروں پر ہونے والے ظلم سے چشم پوشی کرنے لگیں۔۔

یہ سب پہلے کمبودیا میں ہوا، پھر سابق یوگوسلاویہ اور پھر روانڈا میں ہوا۔ اب یہی کچھ سوڈان میں ہو رہا ہے۔ تین برّ اعظم لاتعداد بے گناہ اور نہتی آبادیوں کیلئے جیل، قتل گاہیں اور قبرستان کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کیا اِس وباء کو یونہی پھیلنے دیا جائے گا؟

تورات کی آیت ہے "Lo taamod al dam reakha" اِس کا مطلب ہے "” ”تم اپنے انسان بھائي کے بہتے خون پر خاموش مت بیٹھو”"۔ اس آیت میں لفظ "akhikha" یعنی" تمہارا یہودی بھائی" استعمال نہیں کیا گیا بلکہ "reakha" کا لفظ استعما کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں "تمہارا انسان بھائی چاہے وہ یہودی ہو یا نہ ہو"۔ یہ سب کا حق ہے کہ وہ وقار اور اچھی اُمید کے ساتھ اور بلا خوف اور تکلیف کے زندہ رہیں۔

آج سوڈان کے متاثرین کی مدد نہ کرنا میرے لئے اس بات کی نفی ہوگی جو میں نے اپنے اساتذہ، خاندانی بزرگوں اور دوستوں سے سیکھی تھی کہ تنہا صرف خدا کی ذات ہے اور اُس کی مخلوق کو ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔

سب سے زیادہ جو چیز میرے لئے تکلیف کا باعث ہے وہ ہےاِن واقعات کا ایک تسلسل کے ساتھ ہوتے جانا۔ اس وقت جب کہ ہم یہاں بیٹھے انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ بحث کررہے ہیں کہ ہم اس بحران کو اخلاقی طور پر کیسے حل کریں، وہاں سوڈان کے دارفور اور دوسری جگہوں میں لوگ قتل و گارت گری میں مصروف ہیں۔

سوڈان میں ان مصائب کے شکار لوگوں کا یہ احساس کہ انکو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان پر کوئی توجہ نہیں کی جارہی ہے،یہ ہماری غلطی ہوگي بلکہ شاید یہ ہمارا گناہ ہوگا۔

اسی لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم مداخلت کریں۔

اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو وہ اور ان کے بچے ہمارے شکرگزار ہونگے اور پھر اُن کے ذریعے ہمارے اپنے بچے بھی۔