نسل کشی کی ٹائم لائن
یہ ایک ٹائم لائن ہے جس میں "نسل کشی" کے مراحل سے متعلق تصوراتی اور قانونی اقدامات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ محض اُن تمام واقعات کی تفصیل بیان کرنے کی کوشش نہیں ہے جنہیں نسل کشی کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے بلکہ اِس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ اصطلاح کیسے مختلف گروپوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد کی دھمکیوں کے حوالے سے سیاسی، قانونی اور اخلاقی اصطلاح کی حیثیت اختیار کر گئی۔
1900:رافائیل لیمکن
رافائیل لیمکن، جس نے بعد میں "نسل کشی" کی اصطلاح وضح کی، پولنڈ کے ایک یہودی گھر میں 1900 میں پیدا ہوئے۔ اُن کی یادداشتوں میں آرمینین لوگوں کے خلاف عثمانی حملوں کا اوّلین اظہار ملتا ہے (جسے اکثر دانشور نسل کشی گردانتے ہیں)۔ اُن میں مختلف گروپوں کو ہدف بنا کر تشدد روا رکھنے کے تاریخی واقعات بھی موجود ہیں جو ان گروپوں کے قانونی تحفظ کی ضرورت کے سلسلے میں لیمکن کے خیالات کے حوالے سے اہم ہیں۔
1933 : ہٹلر کا منظرعام پر آنا
30 جنوری 1933 کو ایڈولف ہٹلر کے چانسلر بننے کے ساتھ ہی نازی پارٹی نے جرمنی پر اپنا کنٹرول مسلط کر دیا۔ اسی سال اکتوبر میں جرمنی کے مندوبین نے جنیوا میں تخفیف اسلحہ سے متعلق کانفرنس سے واک آؤٹ کیا اور نازی جرمنی لیگ آف نیشن سے بھی نکل گیا۔ اکتوبر میں میڈرڈ میں قانون سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں رافائیل لیکمن (جنہوں نے بعد میں نسل کشی کی اصطلاح وضح کی) نے مختلف گروپوں کے تحفظ کیلئے قانونی اقدامات کی تجویز پیش کی۔ تاہم اُن کی تجویز کوئی حمایت حاصل نہ کر سکی۔
1939:دوسری جنگ عظیم
دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر 1939 کو شروع ہوئی جب جرمنی نے پولینڈ پر جارحیت کرتے ہوئے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ایک معاہدے کے تحت برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ 17 ستمبر 1939 کو سوویت فوج نے پولینڈ کے نصف مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا۔ لیمکن پولینڈ سے فرار ہو کر سوویت یونین سے ہوتے ہوئے بالآخر امریکہ پہنچ گئے۔
1941 : ایک بے نام جرم
22 جون 1941 کو نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا۔ جوں جوں جرمن فوجیں مذید مشرق کی جانب پیش قدمی کرتی گئیں، ایس۔ ایس، پولیس اور فوجی اہلکاروں نے ظلم و ستم کا شدید سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے اگست 1941 میں یہ کہا "ہم ایک ایسے جرم کی کیفیت میں ہیں جس کا کوئی نام نہیں ہے"۔ دسمبر 1941 میں امریکہ اتحادی فوجوں کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گیا۔ لیمکن نے جو 1941 میں ایک پناہ گذیں کی حیثیت سے امریکہ پہنچے، چرچل کی تقریر سن رکھی تھی اور بعد میں اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی طرف سے متعارف کرائی گئی اصطلاح "نسل کشی" جزوی طور پر چرچل کے بیاں ہی کا ردّ عمل تھی۔
1944 : "نسل کشی" کی اصطلاح کا وجود میں آنا
نازی قیادت نے آبادی سے متعلق مختلف انداز کی کئی پالیسیاں شروع کیں جن کا مقصد طاقت کے استعمال کے ذریعے یورپی آبادی کی نسلی حیثیت کو تبدیل کرنا تھا اور اِس مقصد کیلئے قتل عام کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اِن پالیسیوں کے ایک حصے کے طور پر جس میں قتل عام کے حربے کا ستعمال بھی شامل تھا یورپ کے تمام یہودیوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جسے اب ہم ہالوکاسٹ کے نام سے یاد کرنے ہیں۔ اِس کے علاوہ یورپ میں روما خانہ بدوشوں کی بیشتر آبادی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور اِس کے ساتھ ہی پولینڈ اور سوویت یونین کے قائدانہ طبقوں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کے جتن کئے گئے۔ اِن پالیسیوں میں ایسے اقدامات بھی شامل تھے جن میں مخصوص آبادیوں کو طاقت کے شدید استعمال اور قتل و غارتگری کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آجکل اِس اقدام کو نسل کشی کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے۔ 1944 میں رافائیل لیمکن نے جو واشنگٹن ڈی۔ سی پہنچ گئے تھے جہاں وہ جنگی محکمے میں کام کر رہے تھے، اپنے مقالے "مقبوضہ یورپ میں ایکسس رُول" میں "نسل کشی" کی اصطلاح وضح کی۔ اِس مقالے میں تباہی و بربادی اور نازیوں کے زیر اثر تمام علاقوں پر قبضے کا ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔
1945-1946 : بین الاقوامی فوجی ٹرائبیونل
20 نومبر 1945 اور یکم اکتوبر 1946 کے درمیان نیورمبرگ میں قائم بین الاقوامی فوجی ٹرائبیونل نے امن کے خلاف جرائم، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور اِن تمام جرائم کیلئے سازباز کرنے کے جرائم پر 22 نمایاں نازی جرمن لیڈروں پر مقدمات چلائے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ جنگ کے بعد کے اقدام کے طور پر قومی لیڈروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے بین الاقوامی ٹرائبیونلز کا استعمال کیا گیا۔ فرد جرم میں "نسل کشی" کے الفاط بھی شامل کئے گئے۔ تاہم یہ الفاظ قانونی اصطلاح کی بجائے بیانیہ ظور پر شامل کئے گئے۔
1947-1948 : نسل کشی سے متعلق بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا
رافائیل لیمکن نے "نسل کشی" کے اقدامات کو نئی تخلیق شدہ اقوام متحدہ کے سامنے لانے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا جہاں دنیا بھر کے مندوبین نے نسل کشی سے متعلق ایک بین الاقوامی قانون وضح کرنے کے بارے میں بحث کی۔ 8 دسمبر 1948 کو مکمل اتفاق رائے سے حتمی مسودہ قانون منظور کر لیا گیا۔ نسل کشی کو روکنے اور اس کی سزا دینے سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کو دنیا بھر سے 20 ملکوں کی توثیق کے بعد 12 جنوری 1951 کو لاگو کر دیا گیا۔
1950-1987 : سرد جنگ
دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سرد جنگ کے دوران کے برسوں میں شہری آبادیوں کے خلاف شدید ترین جرائم بہت عام رہے ہیں۔ اِن واقعات کو "نسل کشی" کے مترادف قرار دینے کے سلسلے میں اُن ملکوں نے کوئی کوشش نہیں کی جنہوں نے نسل کشی کے کنونشن میں شرکت کر کے اسے روکنے اور اس کے مرتکب افراد کو سزا دینے کا عہد کیا تھا۔
1988: نسل کشی کے کنونشن پر امریکہ کے دستخط
5 نومبر 1988 کو امریکی صدر رونالڈ ریگن نے نسل کشی کی روک تھام اور اس کی سزا سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر دئے۔ اِس کنونشن کو کچھ لوگوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جن کا موقف تھا کہ اس سے امریکہ کی قومی سالمیت اور حمایت متاثر ہو گی۔ اِس کنونشن کی بھرپور وکالت کرنے والوں میں سے ایک وسکانسن سے سنیٹر ولیم پراکس مائر تھے جنہوں نے کانگریس میں 1968 اور 1987 کے دوران کنونشن کے حق میں 3 ھزار سے زیادہ تقریریں کیں۔
1991-1995 :سابق یوگوسلاویہ کی جنگیں
سابق یوگوسلاویہ کی جنگوں میں بے شمار جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کئے گئے۔ بوسنیا کے تنازعے(1992-1995 ) کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں شدید ترین لڑائی اور انتہائی خوفناک قتل عام ؕظہور پزیر ہوا۔ ایک چھوٹے قصبے سریبرینیکا میں 7800 بوسنیائی مرد اور بچے سربین فوجوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
1993 : قرارداد نمبر827
بوسنیا میں ہونے والے ظلم و ستم کے جواب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 827 جاری کی جس کے تحت ہیگ میں سابق یوگوسلاویہ کیلئے بین الاقوامی کریمنل ٹرائبیونل (آئی۔ سی۔ ٹی۔ وائی) قائم کیا گیا۔ یہ نیورمبرگ کے بعد قائم ہونے والا پہلا بین الاقوامی کریمنل ٹرائبیونل تھا۔ آئی۔ سی۔ ٹی۔ وائی جن جرائم کے مقدمات کی سماعت کر سکتا ہے وہ یہ ہیں: 1949 کے جنیوا کنونشن کی شدید خلاف ورزیاں، جنگ کے قوانین اور روایات کی خلاف ورزیاں، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم۔ اِس کا دائرہ اختیار سابق یوگوسلاویہ کے علاقوں میں سرزد ہونے والے جرائم تک محدود ہے۔
1994 : روانڈا میں نسل کشی
روانڈا میں اپریل سے جولائی تک کے عرصے میں 8 لاکھ سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جن میں بیشتر افراد اقلیتی گروپ ٹوٹسی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تمام قتل بہت بڑے پیمانے پر اور نہایت ہی تیزی کے ساتھ عمل میں آئے۔ اسی سال اکتوبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آئیٰ۔ سی۔ ٹی۔ وائی کا دائرہ اختیار بڑھاتے ہوئے روانڈا کے لئے ایک الگ مگر مربوط ٹرائبیونل کی منظوری دی۔ یوں روانڈا کیلئے بین الاقوامی کریمنل ٹرائبیونل (آئی۔ سی۔ ٹی۔ آر) تنزانیا کے شہر اروشا میں عمل میں آیا۔
1998 : نسل کشی کے مقدمے میں پہلی عدالتی سزا
2 ستمبر 1998 کو آئی۔ سی۔ ٹی۔ آر نے ایک بین الاقوامی ٹرائبیونل کے ذریعے نسل کشی کے حوالے سے دنیا کی پہلی سزا سنائی جب یاں پال اکاییسو کو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ یہ سزا اُن کے روانڈا کے قصبے طبا کے میئر کی حیثیت سے ایسے اقدامات میں ملوث ہونے اور اُن کی سرپرستی کرنے کی بنا پر دی گئی۔
اِس بات کے باوجود کہ یہ عدالتیں اور بعد میں وجود میں آنے والے بین الاقوامی کریمنل ٹرائبیونل قانونی کارروائیاں کرنے اوراپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے جرائم کی تحقیقات کرنے میں مددگار ہیں، نسل کشی کے حوالے سے سزا دینا اب بھی ایک مشکل کام ہے۔ تاہم نسل کشی کی روک تھام کے حوالے سے مسلسل درپیش چیلنج کا سامنا کرنا اِس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔
2004 : دارفور میں نسل کشی
امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلسل جاری بحران کو نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔9 ستمبر 2004 میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل نے سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے یہ شہادت دی کہ "ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں -- میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں-- کہ دارفور میں نسل کشی کا ارتکاب کیا گیا ہے جس کے لئے سوڈانی حکومت اور جنجوید ذمہ دار ہیں-- اور یہ نسل کشی شاید اب بھی جاری ہے"۔
17 مارچ، 2016 : عراق اور شام میں قتل عام
امریکی سیکٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اعلان کیا کہ خود ساختہ اسلامی ریاست (آئی ایس) نے شام اور عراق میں اپنے زیر کنٹرول یزیدی، عیسائی اور شیعہ برادریوں کا قتل عام کیا ہے۔ امریکہ نے ایک عشرے سے زائد عرصے کے بعد پہلی مرتبہ قتل عام کا باقاعدہ ذکر کیا ہے۔ سیکٹری کیری نے مذید کہا کہ آئی ایس نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا اور ان گروپوں کی نسل کشی کی۔ بعض واقعات میں آئی ایس نے سنی مسلمانوں، کردوں اور دیگر اقلیتوں کی نسل کشی بھی کی ہے۔