محوری قوتوں کے ساتھ اشتراک عمل

جنگ کے دوران نازی حکومت کو دنیا بھر میں بہت سے رضامند تعاون کار ملے جو خود اپنے سیاسی مقاصد کے حصول اور محوری اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے کوشاں تھے۔ بھارتی قوم پرست راہنما سبھاش چندر بوس، شامی باغی گوریلا لیڈر فوزی الکواکجی، سابقہ عراقی وزیر اعظم راشد الکیلانی، اور یروشلم کے مفتی اعظم حاجی امین الحسینی (عرب قوم پرست اور ممتاز مسلم مذہبی رہنما) سمیت بہت سے جلاوطن راہنما برلن فرار ہو گئے جہاں سے وہ اتحادیوں کے خلاف بدامنی، تخریب کاری، اور بغاوت کو بھڑکانے کے لئے اپنے ممالک میں اپیلیں نشر کرتے تھے۔ 1941 سے 1945 تک یورپ میں جلاوطنی کے دوران الحسینی کی حیثیت ایک ممتاز فرد، یہود- مخالف عرب اور مسلمان رہنما کی تھی۔

مشرق وسطیٰ کے کسی بھی علاقے میں عربوں پر حاکمیت کی کسی مستند بنیاد کے بغیرالحسینی نے عرب قوم کے ایک مجوزہ رہنما کے طور پر محوری طاقتوں کے مابین عوامی پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے فلسطین میں مجوزہ یہودی وطن کو "مٹانے" یا "ختم" کرنے کے لئے ایک آزاد عرب ریاست یا فیڈریشن کے لئے محوری طاقتوں سے عوامی منظوری حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے عرب دنیا میں عمومی بغاوت کی توقعات کے پیش نظراس اعلانیہ کو ایک شرط کے طور پر اپنا لیا۔ جرمنوں اور خاص طور پر ہٹلر نے الحسینی کی درخواست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ اٹلی یا وکی فرانس کے ساتھ غیر ضروری تنازعات کا آغاز کرنے سے گریزاں تھے۔ وہ عرب دنیا میں الحسینی کی اصل حاکمیت یا اہمیت کی حد کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے، اور وہ علاقے جو جرمنی کی افواج کی پہنچ سے بہت دور تھے ان کے بارے میں طویل المدتی بیانات دینے سے گریزاں تھے اور اس بارے میں تحفظات رکھتے تھے۔ جب ہٹلر نے 28 نومبر 1941 کو الحسینی سے ملاقات کی تو اُس نے اُن کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا لیکن الحسینی کے مطالبے کے باوجود اس نے ان کے حق میں کھلے عام اعلامیہ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ اس ملاقات کی تشہیر میڈیا میں خوب ہوئی تھی۔ ہٹلر کے جواب کے باوجود الحسینی نے بدستور کئی طریقوں سے فسطائی اٹلی اور نازی جرمنی کے ساتھ شتراک عمل کو جاری رکھا۔ انہوں نے جرمن کنٹرول یا اثر و رسوخ کے تحت عرب دنیا اور مسلمان معاشرے میں اتحادی-مخالف اور یہود مخالف پروپیگنڈہ کو ریڈیو کے ذریعے نشر کیا۔ انہوں نے مسلمان مردوں کو محوری فوج اور معاون یونٹوں میں خدمت سرانجام دینے کے لئے راغب کرنے کی کوشش کی۔ حتٰی کہ جب اُنہیں یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ جرمن اُنہیں وہ نہیں دیں گے جس کے وہ متمنی ہیں اور وہ اُن کے مشورے کی قدر کئے بنا اُن کی طرف سے بھرتی کئے گئے مسلمانوں کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، الحسینی نے 1945 تک فسطائی اٹلی اور نازی جرمنی دونوں کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھا۔ جرمنوں نے الحسینی کو پناہ اور فنڈز فراہم کئے اور جہاں کہیں بھی اُن کی خدمات فائدہ مند تھیں، اُنہیں استعمال کیا۔ لیکن انہوں نے عرب دنیا کے مستقبل کے بارے میں یا اس میں الحسینی کی حیثیت کے بارے میں کوئی وعدے کرنے سے انکار کر دیا۔ جرمنوں نے الحسینی کو اتنے مالی وسائل فراہم کئے کہ وہ آرام سے اور شاہانہ انداز میں زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے اپنے دفتر اور رہائش گاہ کے لئے برلن-زہلینڈورف میں ایک بنگلہ استعمال کیا اور اس بنگلے کے اخراجات، اپنی سیاسی سرگرمیوں اور اپنی تفریح کیلئے ایک کثیر ماہانہ وظیفہ موصول کیا۔

اپریل 1942 میں الحسینی اور امام کیلانی نے جرمن وزیر خارجہ جوواچم وون ربن ٹروپاور اور اطالوی وزیر خارجہ کاؤنٹ گلیزو سیانو کو ایک مشترکہ خط میں درخواست کی کہ محوری طاقتیں عرب دنیا کیلئے تمام "قابل فہم معاونت" کے وعدے کے حوالے سے ایک بیان دیں جس میں عرب اقوام کی آزادی اور ان کے متحد ہونے کے حق کو تسلیم کیا جائے، اور "فلسطین میں یہودی قومی وطن کو ختم کرنے" کیلئے حمایت بھی شامل ہو۔ ہٹلر نے اُس بیان کی مخالفت کی جس میں عرب آزادی کی حمایت کی گئی تھی۔ مئی میں جرمنی نے الحسینی کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ "جب عرب ممالک آزادی حاصل کریں گے تو جرمن حکومت اُن کی آزادی کو تسلیم کر لے گی۔" اس خط میں، جسے الحسینی کو خفیہ رکھنا تھا، الحسینی کا کوئی حوالہ موجود نہیں تھا، اور نہ ہی کوئی ایسے الفاظ تھے جو جرمنی میں یا مشرق وسطٰی میں عرب دنیا کی نمائندگی کرنے کے لئے ان کے دعوے کو قانونی جواز فراہم کر سکتا ہو۔

محوری افواج عرب ممالک کی سرزمین کی جانب بڑھتی ہیں

1942 کے موسم گرما میں فوجی واقعات نے بظاہر الحسینی کو وہ موقع فراہم کر دیا جس کا تصور ہٹلر نے "عرب کارروائی کو بھرپور انداز میں شروع کرنے کے بارے میں آٹھ ماہ قبل ہی کر لیا تھا اور جس کیلئے اس نے خفیہ طور پر تیاری کی ہوئی تھی۔" 1942 کے موسم گرما کے آخر میں محوری افواج نے مصر پر دھاوا بول دیا اور وہ کاکیشیائی پہاڑوں کے شمالی پاسز میں دور تک داخل ہو گئے۔ تاہم جرمنوں کو توقع تھی کہ وہیران اور عراق میں کاکیشیا کے ذریعے داخل ہو گئے اور ایک بڑے پیمانے پر عرب بغاوت کے لئے پڑاؤ کے طور پر الکیلانی اور عراق کی حمایت کی۔ 17 جولائی کو الحسینی نے جرمن اور اطالوی فوجی انٹیلی جنس کے سربراہوں کو تجویز پیش کی کہ وہ محوری اور "عرب قوم" کے درمیان تعاون کے تمام پہلوؤں کو مربوط کرنے کی خاطر تنظیم کے لئے مصر میں ایک مرکز قائم کریں۔ اس مرکز کو ریڈیو نشریات، مطبوعات، اور اشتہاری تحریروں کے ذریعے نشر واشاعت کا کام سرانجام دینا تھا۔ یہ تخریب کاری کرنے اور برطانوی حکام کی ناک تلے بغاوت کو پھیلانے کیلئے حامی عرب یونٹوں اور باقاعدہ عرب فوجی یونٹوں کو قائم کرے گا جو محوری افواج کے ساتھ "شانہ بشانہ" لڑیں گے۔ الحسینی نے اصرار کیا کہ فوجی یونٹ عرب یونیفارم پہنیں، کمان عرب افسران کی ہو اور کمان کی زبان کے طور پر وہ عربی بولیں۔ ایک بار پھر جرمنوں نے انکار کر دیا: ہٹلر نے بیان دیا کہ وہ "عربوں سے کچھ نہِں چاہتا تھا۔" ستمبر 1942 کے اواخر میں الحسینی نے تیونس میں ایک عرب مرکز کی بنیاد رکھنے کی تجویز دی جو مندرجہ ذیل ہو گی/: 1) فرانسیسی شمالی افریقہ میں عربوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنائے گی؛ 2) ایک اتحادی طور پر پہنچ جانے کے نتیجہ میں مسلم مزاحمت کو مضبوط بنانے کیلئے ہتھیار، ایجنٹ، سامان، اور پیسے بہم پہنچائے گی؛ اور 3) عرب فوجیوں کی بھرتی اور اُنہیں تربیت دینا جو شمالی افریقہ کا دفاع کرنے کے لئے "اتحادیوں، بالشویزم اور یہودیت سے کسی بھی خطرے کے خلاف" تیار کھڑے ہوں گے۔

8 نومبر 1942 کو 63,000 برطانوی اور امریکی فوجی آپریشن ٹارچ کے تحت مراکش اور الجزائر میں اترے۔ دس دن کے بعد الحسینی نے تیونس میں تمام مقاصد کے حامل ایک پین-عرب مرکز کے قیام کی تجویز اس اصرار کے ساتھ دوبارہ پیش کی کہ اس کی افادیت کا انحصار شمالی افریقہ میں عرب ریاستوں کی آزادی کی حمایت کے لئے محوری طاقتوں کے ایک اعلامیے پر ہے۔ تاہم جرمنی اور اٹلی دونوں ہی اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یونان اور اٹلی میں ریڈیو پر جلاوطن عربوں کی جانب سے نشر کردہ پروپیگنڈہ کے باوجود 1942 کے دوران بحیرہ روم اور خلیج فارس کے درمیان کوئی قابل ذکر بغاوت واقع نہیں ہوئی۔ 13 مئی 1943 کو محوری افواج نے شمالی افریقہ میں ہتھیار ڈال دیئے۔

عرصہ جنگ کے دوران الحسینی کی پراپیگنڈہ کی کوششیں

جنگ کے دوران محوری حکومتوں نے برلن، باری، لگزمبرگ، پیرس، اور ایتھنز میں طاقتور ٹرانسمیٹروں کے ذریعے ایک درجن سے زائد زبانوں میں روزانہ پروپیگنڈا کے پیغامات نشر کئے۔ امریکی نژاد ولیم جوائس (لارڈ ہا-ہا) اور جدید دور کے شاعر عذرا پاؤنڈ جیسے کچھ افراد نے اپنے اشتعال انگیز خطابات کے ذریعے بدنامی کمائی اور اُنہیں کچھ پزیرائی بھی ملی۔ ایشیا سے امریکہ تک محوری ریڈیو نے اتحادیوں اور یہودیوں کے خلاف بیانات کے ساتھ نسلی منافرت، غیر جانبدار ملکوں کو تنہا کر دینے، دشمن کی سرزمین پر ان کی شکست خوردگی، اور اتحادی-مقبوضہ علاقوں میں بدامنی کی امید اور حوصلہ افزائی کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں کیں۔ دیگر عرب براڈکاسٹروں کے ساتھ الحسینی نے برلن سے مشرق وسطی تک محوری قوتوں کی حمایت، برطانیہ-مخالف، اور یہود مخالف پروپیگنڈے کو خوب پھیلایا۔ ریڈیو نشریات میں انہوں نے برطانیہ عظمیٰ کے خلاف ایک عرب بغاوت اور فلسطین میں یہودی بستیوں کو تباہ کرنے کی ترغیب دی۔

الحسینی اکثر اپنے نشریوں میں "یہودیوں کی عالمی سازش" کا ذکر کرتے ہوئے کہتے کہ وہ برطانوی اور امریکی حکومتوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور سوویت اشتراکیت کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ "دنیا بھر کے یہودیوں" کا مقصد فلسطین میں داخل ہو کر اسے محکوم بنانا ہے جو عرب اور مسلم دنیا کیلئے مقدس مقام اور ثقافتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ یہ اقدام تمام تر عرب سرزمین پر قبضے کے پہلے مرحلے کے طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے عالمی نقطہ نظر میں یہودیوں کا مقصد عربوں کو غلام بنانا اور ان کا استحصال کرنا، ان کی زمین پر قبضہ کرنا، ان کا مال ضبط کرنا، مسلمانوں کے مذہبی عقیدے کو کمزور کرنا اور ان کے معاشرے کی اخلاقی ساخت کو بگاڑنا ہے۔ انہوں نے یہودیوں پر اسلام کے دشمنوں کا لیبل لگا دیا، اور یہودیوں اور یہودی رویے کو بیان کرنے کے لئے خراب نسل پرستانہ اصطلاحات کا استعمال کیا، خاص طور پر 1943 اور 1944 میں جب اُنہوں نے ایس ایس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر لئے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہودیوں کی صفات اور کردار اتنا کٹر ہے کہ اسے بدلنا ممکن نہیں۔ بعض اوقات وہ یہودیت کا موازنہ متعدی مرض اور یہودیوں کا تقابل جرثوموں یا بیسلی بیکٹریا سے کرتے۔ کم از کم ایک تقریر میں جو اُن سے منسوب کی گئی، انہوں نے عربوں پر زور دیا کہ یہودی جہاں بھی نظر آئیں اُنہیں وہیں مار دیا جائے۔ انہوں نے فلسطین سے یہودی وطن کو "مٹانے" کی مسلسل وکالت کی اور بعض مرتبہ اُنہوں نے کہا کہ ہر یہودی کو فلسطین اور دیگر عرب ممالک سے باہر نکال دیا جائے۔

الحسینی نے برطانیہ کو یہودیوں کے سہولت کار کے طور پر بیان کیا۔ اُنہوں نے کبھی بھی انہیں بالفور اعلامیہ، تقسیم کے منصوبے اوروھائیٹ پیپر کی وجہ سے معاف نہیں کیا، اور ان پر پہلی جنگ عظیم کے بعد عرب مفادات کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا۔ انہوں نے عربوں کو خبردار کیا کہ برطانیہ (اور امریکہ) کے دوسری عالمی جنگ میں حق خودارادیت کے وعدے دھوکہ دہی تھے۔ ثبوت کے طور پر اُنہوں نے عراق اور شام میں برطانیہ کی مفروضہ بدسلوکیوں اور شمالی افریقہ میں اینگلو امریکن بدسلوکیوں کا حوالہ دیا۔ اُنہوں نے امریکہ اور برطنیہ کے اقدامات کا مقصد یہودیوں کے اثرات کو عربوں پر حاوی کرنے سے منسوب کیا۔

الحسینی نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ جرمنی اور اٹلی کے مشترکہ مفادات پر زور دیا۔ نازی جرمنی عرب اور مسلم دنیا کا فطری اتحادی تھا۔ جرمنی نے نہ صرف کسی بھی عرب ریاست پر کبھی نوآبادیاتی تسلط قائم نہیں کیا بلکہ جرمنی اور عرب ریاست کا دشمن بھی ایک ہی تھا: یہودی، برطانیہ اور سوویت یونین۔ الحسینی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ صرف جرمنی نے "یہودی مسئلے" کے عالمی خطرے کو تسلیم کیا اور اسے عالمی سطح پر "حل" کرنے کیلئے اقدامات کئے۔

الحسینی نے ایک وسیع عرب فیڈریشن اور بلآخر ایک یونین کا خواب دیکھا جو نوآبادیاتی طاقتوں کے استحصال اور یہودیوں کی طرف سے دراندازی اور غلامی سے عرب عوام اور مسلمانوں کے مذہب کا دفاع کرنے کے قابل ایک عظیم طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے فلسطین کو متنوع عرب علاقوں کے لئے ایک مرکزی اور رابطے کے مقام کے طور پر دیکھا۔ نوآبادیاتی طاقتوں اور یہودیوں کے اثر و رسوخ سے پاک الحسینی کی عرب یونین اقتصادی، ثقافتی اور روحانی طور پر ترقی کرتی اور جدید تصور کے مطابق قرون وسطیٰ کی اسلامی شان و شوکت کی تجدید کرتی۔ انہوں نے ایران، انڈیا اور سوویت یونین کی مسلم برادریوں کے ساتھ قریبی تعلقات کی توقع کی۔

18 دسمبر 1942 کو عرب تارکین وطن نے برلن میں ایک ’اسلای مرکزی ادارہ‘ (اسلامیش زینٹرل انسٹی ٹیوٹ) قائم کیا جس میں الحسینی ایک سینئر اسپانسر اور کلیدی مقرر تھے۔ الحسینی نے اپنی تقریر میں قرآن پاک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہودی "مسلمانوں کے سب سے زیادہ ناقابل مفاہمت دشمن" ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ یہودی "ہمیشہ زمین پر ایک تخریبی عنصر رہیں گے [اور] مکارانہ سازشوں، جنگوں کی ترغیب دینے اور قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی طرف مائل رہیں گے۔ " الحسینی نے اصرار کیا کہ یہودی برطانیہ، امریکہ، اور "بے دین اشتراکی ریاستوں" کی قیادت پر اثرانداز ہوئے اور اُنہیں اپنے کنٹرول میں رکھا۔ اُنہوں نے زور دیا کہ ان کی مدد اور حمایت کے ساتھ "دنیا بھر کے یہودیوں" نے دوسری عالمی جنگ چھیڑی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے دشمنوں کے ظلم و ستم اور جبر سے خود کو آزاد کرانے کے لئے ضروری قربانیاں دینے کیلئے تیار رہیں۔ نازی پروپیگنڈا کاروں نے "اسلامی سینٹرل انسٹی ٹیوٹ" کی افتتاحی تقریب اور الحسینی کی بیانات کی نمایاں طور پر کوریج کی۔ جرمن نیوز نے ان کے ابتدائی بیانات کو فلمایا اور پریس نے ان کے یہود مخالف حملوں کو شائع کیا۔ 23 دسمبر 1942 کو جرمن دفتر خارجہ نے مشرق وسطیٰ کیلئے روزانہ کے عربی زبان کے خبرنامہ کے دوران ان کی تقریر نشر کی۔

1944 کے وسط میں الحسینی مقبوضہ مشرقی علاقوں کے لئے نازی سلطنت کے وزیر اور نازی پارٹی کے ثقافتی دفتر کے سربراہ ایلفریڈ روزن برگ کی طرف سے منعقد کردہ ایک بین الاقوامی یہود مخالف کانگریس میں بات کرنے پر رضامند ہو گئے۔ کانگریس کا مقصد یہود مخالف مقررین کی جانب سے واضح کرانا تھا کہ اتحادی خصوصی طور پر یہودیوں کی ایماء پر دوسری عالمی جنگ لڑ رہے تھے اور ’یہودیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے‘ تحقیقی حکمت عملیاں مرتب کرنے کی خاطر بین الاقوامی ورکشاپس کا اہتمام کرنا ضروری تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق یہ کانگریس 11 جولائی 1944 کو کراکو میں منعقد ہونا تھی مگر جرمنوں کو یہ کانگریس اُس وقت منسوخ کرنا پڑی جب 22 جون 1944 کے بعد جرمن آرمی گروپ سنٹر مشرقی محاذ پر ناکام ہو گیا۔

یہودی بچوں کو بچانے سے روکنے کی کوششیں

1943 کے موسم بہار میں الحسینی کو جرمنی کے محوری شراکت کاروں کی جانب سے ہزاروں یہودی بچوں کی بحفاظت فلسطین منتقلی کے بارے میں برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کے ساتھ ہونے والے مزاکرات کا علم ہوا۔ انہوں نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ ساتھ ہنگری، رومانیہ، اور بلغاریہ کی حکومتوں کے خلاف احتجاج کے ذریعے ریسکیو آپریشن کو روکنے کی کوشش کی۔ اس اقدام کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے الحسینی نے تجویز دی کہ بچوں کو پولینڈ بھیج دیا جائے جہاں انہیں "سخت کنٹرول" کے تحت رکھا جائے۔ اگرچہ بچوں کو فلسطین بھجوانے کے بجائے اُنہیں پولینڈ میں ہلاک کر دئے جانے سے متعلق اُن کی ترجیح بالکل واضح تھی، اُن کے خطوط کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہ خطوط وصول کرنے والی تینوں حکومتوں میں سے کسی نے بھی بچوں کو پولینڈ منتقل نہیں کیا۔ اس کے علاوہ جرمنوں نے الحسینی کی مداخلت سے پہلے اور اس کے باوجود ریسکیو آپریشن کو ناکام بنا دیا۔

عربوں کو محوری افواج میں بھرتی کرنے کی کوششیں

عرب دنیا کی قیادت کے دعوے کو درست ثابت کرنے کیلئے الحسینی نے اپنے زیر کنٹرول مسلح یونٹوں میں ہتھیار اُٹھانے کی عمر والے یورپی عرب معاشروں کے عرب مہاجرین اور اراکین کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ ان یونٹوں کو بغاوت کو بڑھانے کے لئے عرب زمین پر تعینات کیا جانا تھا جس میں اُنہوں نے شدت بڑھانے کا منصوبہ بنایا اور اُن کا ہدف یہ تھا کہ مستقبل میں یہ فوجی دستے پین عرب ریاست کی فوج کے مرکز کی شکل اختیار کریں گے۔ یہ دستے عرب ممالک کی قیادت کے لئے ان کے سپریم کمانڈر کے طور پر الحسینی کے دعوے کی ضمانت بھی فراہم کرتے۔

1941 سے نازی حکومت نے اتحادیوں کے خلاف جرمنی کی مسلح فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے یورپ کے اندر اور باہر سے غیر ملکی نفری بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ جرمن پروپیگنڈا کاروں نے شدید اینٹی کمیونسٹ جذبات ابھارنے کیلئے "صلیبی جنگوں" کی حمایت کی حوصلہ افزائی کی جو "یہودی بالشویزم" سے مغربی تہذیب کو بچائے گی اور سوویت یونین کے لوگوں کوآزاد کرانے اور برطانوی، امریکی، اور یہودی "پلوٹوکریٹک" سامراج کی مذمت کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس بھرتی مہم کے حصے کے طور پر 1945 میں 500,000 غیر جرمن افراد نے ویفن ایس ایس ڈویژن میں شمولیت اختیار کی۔ عراقی بغاوت کے خاتمے کے ایک ماہ بعد جولائی 1941 میں ایبویہر نے عربوں کو تربیت دینے کے لئے ایک جرمن عرب تربیتی محکمہ ڈیوئش۔ارابیش لیہربٹائلونگ - یعنی ڈی اے ایل قائم کیا۔ زیادہ تر طلباء اور پناہ گزین یورپ میں ویہرماخٹ (جرمن مسلح افواج) میں فوجیوں کے طور پر مقیم تھے۔ 1941 کے موسم خزاں میں جرمنی میں آمد کے بعد الحسینی نے ٹریننگ ڈپارٹمنٹ میں مزید بھرتیوں کے عمل کو آگے بڑھایا جن میں اطالوی جنگی قیدیوں میں شامل عرب فوجی بھی شامل تھے۔ یونٹ کو عرب فوج کا تصور دیتے ہوئے، جس کی کمان عرب افسروں کے ہاتھ میں ہو اور وہ کمان کی زبان کے طور پر عربی زبان کو استعمال کریں۔ الحسینی تربیتی افسروں کے ساتھ جھگڑ پڑے جو ویہرماخٹ کے اندر ایک عرب اسپیشل آپریشنز یونٹ قائم کرنا چاہتے تھے۔ الحسینی کے اس مطالبے کے باوجود کہ تربیتی کیمپ کو 1942 میں شمالی افریقہ منتقل کیا جائے تاکہ وہ مصر میں اُن کے مجوزہ پین۔عرب آپریشنز مرکز کو تعاون فراہم کر سکے، جرمنوں نے اسے 20 اگست کو مشرقی یوکرائن میں اسٹیلینو (آجکل: لوھانسک) منتقل کر دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ عرب رضاکار جنوب میں کاکیشیا اور ایران میں داخل ہوں گے اور پھر عراق میں برطانیہ کے خلاف نبرد آزما ہوں گے۔ 1943 کی ابتداء میں جرمنوں نے تربیتی محکمے کو تیونس منتقل کر دیا جہاں اس کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ 13 مئی 1943 کو باقی فوجیوں نے اتحادیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔

الحسینی اور الکیلانی کی درخواست پر جرمن سلطنت کے سلامتی کے مرکزی دفتر نے اُن کے وفد کے ارکان کی میزبانی کی اور اُنہیں جولائی 1942 کے شروع میں اورینئن برگ حراستی کیمپ کا تفصیلی مگر نامکمل دورہ کرایا گیا۔ کماندانٹ نے قیدیوں کے لئے کیمپ کے تجربہ کی "تعلیمی" اہمیت پر عربوں کو لیکچر دیا؛ وفد نے گھریلو اوزار اور قیدیوں کے بنائے ہوئے سامان کا معائنہ کیا۔

وہاں عربوں نے یہودی قیدیوں میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ الحسینی کے ایک ادارے کے طور پر ایس ایس کے ساتھ پہلے اہم روابط 1943 کے موسم بہار میں شروع ہوئے۔ اس وقت سے قبل جرمنی میں ان کے اہم روابط دفتر خارجہ اور ابویہر کے ساتھ تھے۔ 24 مارچ 1943 کو ایس ایس مرکزی دفتر کے سربراہ گوٹلوب برجر نے بوسنیا کے مسلمان باشندوں کیلئے ایس ایس بھرتی کی مہم کی تیاری میں منعقدہ ایک اجلاس میں شرکت کے لئے الحسینی کو مدعو کیا۔ برجر الحسینی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اُس نے 3 جولائی 1943 کو الحسینی کی رائخسفوہرر ایس ایس کے سربراہ ہینرچ ھملر سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ 6 اکتوبر کو الحسینی نے ھملر کو سالگرہ کی مبارکباد بھجوائی اور امید ظاہر کی کہ "آنے والے سال میں ہمارا تعاون مزید بڑھے گا اور ہمیں ہمارے مشترکہ مقاصد کے قریب لائے گا۔"

جب ایس ایس نے ویفن ایس ایس کے ایک نئے ڈویژن کیلئے فروری 1943 میں بوسنیائی مسلمانوں کی بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا تو ایس ایس مرکزی دفتر کے سربراہ برجر نے 30 مارچ اور 11 اپریل سے بوسنیا میں بھرتی مہم میں الحسینی کا فہرست میں اندراج کیا۔ 29 اپریل کو برجر نے اطلاع دی کہ 24,000 سے27,000 تک افراد نے بھرتیوں میں شمولیت اختیار کی ہے اور کہا کہ "یروشلم کے مفتی اعظم کے دورے سے بھرتیوں پر ایک غیر معمولی اور کامیاب اثر پڑا ہے۔" الحسینی اور ایس ایس دونوں نے بار بار 13 ویں ایس ایس ماؤٹین ڈویژن (جسے "ہینڈشر" کے طور پر جانا جاتا ہے) کی کامیابی کا حوالہ دیا۔ الحسینی نے ڈویژن کے فوجی آئمہ سے بات کی اور اسلام کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے "مسلمانوں اور ان کے اتحادی جرمنی کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے" اور مسلمانوں اور جرمنوں کو درپیش مشترکہ دشمنوں یعنی دنیا بھر کے یہودی، انگلینڈ اور اس کے اتحادیوں اور بالشویزم کی شناخت کی اہمیت پر زور دیا۔ تاہم یہ یونٹ عام طور پر غیر مؤثر رہے اور انہیں بوسنیا کے باہر تعینات نہیں کیا جا سکا جہاں بے اختیار کروشیائی حکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان یونٹوں نے شمال مشرقی بوسنیا کی مسلم کمیونٹیز میں انتظامی اور دفاعی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ جب بلقان میں فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اکتوبر 1944 میں خطے سے جرمن فوج انخلاء پر مجبور ہو گئی تو 13ویں ڈویژن کے تقریباً 3,000 فوجیوں نے ملازمت چھوڑ دی جبکہ باقی فوجیوں نے بغاوت کر دی جس کی وجہ سے ہملر کو اس کی ابتدائی تعیناتی کے محض آٹھ ماہ بعد اس یونٹ کو برخاست کرنا پڑا۔ 13 ویں ویفن ایس ایس ماؤٹین ڈویژن نے نہ تو بوسنیا اور نہ ہی ہنگری میں یہودیوں کی جلاوطنی میں حصہ لیا تھا۔ فروری سے اکتوبر 1944 تک بوسنیا میں اپنی تعیناتی کے دوران ممکنہ طور پر "ہینڈشر" اہلکاروں نے انفرادی یہودیوں کی گرفتاری اور قتل میں حصہ لیا جو پناہ گاہوں میں چھپے ہوئے پائے گئے یا جنہیں بطور ان کے حمایتی پکڑا گیا۔ تاہم اُن کے ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے دستاویزی ثبوت نہیں دئے جا سکتے۔

دفتر خارجہ اور ایس ایس دونوں سے امداد لیتے ہوئے الحسینی نے ترکی میں انٹیلی جنس نیٹ ورک ترتیب دیا، فلسطین اور شام سے روابط برقرار رکھے اور تخریب کاری کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی۔ اگرچہ جنگ کے تقریباً آخر تک فنڈز دستیاب تھے، یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ آیا ان فنڈز کی فراہمی سے الحسینی کے رابطوں میں مدد دینے کے سوا نازی حکومت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوا ہو۔ 1944 کے دوران ابویہر اور ایس ایس کی سیکورٹی سروس سیشرھائیٹزڈیئنسٹ (ایس ڈی) نے مشرق وسطیٰ میں کئی کمانڈو کارروائیاں مکمل کرنے کی کوشش کی۔ ایک مشن میں ایک مخلوط جرمن عرب پانچ رکنی کمانڈو ٹیم شامل تھی جسے ایس ڈی نے اکتوبر 1944 کے اوائل میں وادی ارون میں ہتھیار، دھماکہ خیز مواد اور جرمن-عرب لغات کے ساتھ اُتارا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی نقصان پہنچا سکتے، اُنہیں برطانوی فورسز نے گرفتار کر لیا۔ تحقیقات کے دوران کمانڈوز نے بتایا کہ روانگی سے پہلے اُن میں سے ہر کسی کو الحسینی نے ذاتی طور پر ہدایات دیں اور اُنہوں نے اسلام کا موازنہ قومی اشتراکیت سے کیا، اور اُن سے وعدہ کیا کہ فلسطین میں عرب جدوجہد نازی جرمنی کیلئے مددگار ثابت ہو گی۔

جب الحسینی کو علم ہوا کہ برطانیہ نے فلسطین میں یہودی فوجی دستہ تشکیل دے دیا ہے، الحسینی نے 3 اکتوبر 1944 کو ہملر کو مشورہ دیا کہ نازی جرمنی ایک عرب مسلم فوج کے قیام کا اعلان کرے جو "یہودی برطانوی منصوبوں کو ناکام بنائے" اور "عظیم تر جرمن سلطنت کی طرف سے مشترکہ جدوجہد میں حصہ لے۔" 2 نومبر کو دفتر خارجہ نے بالفور اعلامیہ کی سالگرہ کے موقع پر بیان جاری کیا لیکن اعلامیے کے متن میں الحسینی سے مشورہ نہیں لیا گیا۔ الحسینی نے ربن ٹروپ سے شکایت کی کہ بیان "مناسب نہیں" تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ لفظ "مسلمان" کو خارج کر دیا گیا تھا اور یہ کہ مجوزہ فوج کے لئے جرمن توثیق کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔ بیان میں بین السطور عرب آزادی اور اتحاد کا حوالہ دیا گیا تھا جس سے الحسینی کی پالیسی کی کامیاب تکمیل کی غمازی ہوتی تھی۔

الحسینی کی مابعد جنگ سرگرمیاں
7 مئی 1945 کو جرمنی کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے دن الحسینی برن، سوئٹزر لینڈ پرواز کر گئے۔ سوئس حکام نے سیاسی پناہ کے لئے ان کی اپیل کو رد کر دیا، انہیں حراست میں لے لیا اور انہیں فرانسیسی سرحدی حکام کے حوالے کر دیا۔ فرانسیسی حکام نے الحسینی کو پیرس کے قریب ایک ولا میں نظر بند رکھا۔ اگرچہ ابتداء میں برطانیہ الحسینی کو تحویل میں لینا چاہتا تھا مگر اُنہیں بین الاقوامی عدالت سے سزا دلوانے میں بڑی رکاوٹیں حائل تھیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور فرانس دونوں عرب دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کو پھر سے بحال کرنے کے خواہشمند تھے۔ لہذا انہوں نے الحسینی کو حراست میں رکھنے کے حوالے سے سنگین خطرات محسوس کئے۔ 1945 کے آخر میں یوگوسلاو حکومت نے الحسینی کی حوالگی کے لئے اپنی درخواست واپس لے لی۔

29 مئی 1946 کو معروف الدواليبی کی طرف سے جاری کردہ پاسپورٹ کے ساتھ الحسینی فرانسیسی حراست سے فرار ہو کر مصر کے شہر قاہرہ پہنچ گئے۔ قاہرہ میں انہوں نے فلسطین میں یہودی ریاست کے لئے صیہونی مطالبات کی مخالفت جاری رکھی۔ انہوں نے 1947 کے اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کو مسترد کر دیا جس کے خلاف انہوں نے اپنی پوری زندگی کام کیا تھا۔ الحسینی نے اپنی باقی زندگی فلسطینی قومیت کی حمایت اور اسرائیل کی ریاست کے خلاف تحریک چلانے کے لئے وقف کر دی۔ انہوں نے صیہونی مخالف، یہود مخالف، اور اسرائیل مخالف پروپیگنڈا تیار کرنے اور پھیلانے کا کام جاری رکھا۔ 4 جولائی 1974 کو بیروت لبنان میں ان کا انتقال ہو گیا۔

مزید معلومات کے لئے، دیکھیں:

1. حاجی امین الحسینی: یروشلم کے مفتی
2. حاجی امین الحسینی: یروشلم کے مفتی اعظم اور مسلمان رہنما
3. حاجی امین الحسینی: ٹائم لائن