سایوں میں گزرنے والی زندگی: چھپے ہوئے بچے اور ہالوکاسٹ
1945 میں جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو یورپ کے 60 لاکھ یہودی ہلاک ہو چکے تھے۔ وہ ہالوکاسٹ کے دوران مارے جا چکے تھے۔ موت کا شکار ہونے والوں میں دس لاکھ سے زائد بچے تھے۔
نسل پرستی کا تعصب پر مبنی نظریہ جس کے تحت یہودیوں کو ایسی زہریلی جونکیں قرار دیا جاتا تھا جو صرف خاتمے کے قابل تھے۔ نازیوں نے ایسے وسیع پیمانے پر قتل و غارتگری کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ یورپ میں بسنے والے تمام یہودیوں کو تباہی کیلئے چن لیا گیا۔ اِن میں بیمار اور صحت مند، امیر اور غریب، مذہبی طور پر قدامت پسند اور عیسایت اپنانے والے، بوڑھے اور نوجوان یہاں تک کہ نوزائیدہ بچے بھی شامل تھے۔
ہزاروں یہودی بچے اِس قتل و غارتگری (خونریزی) سے بچ نکلے۔ تاہم اِن میں سے بیشتر بچوں کے بچنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ چھپے ہوئے تھے۔ اُن کی شناخت کو چھپایا گیا تھا اور جسمانی طور پر بھی اُنہیں بیرونی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھا گیا تھا۔ اِن بچوں کو مسلسل خوف اور خطرے کا سامنا تھا۔ وہ سایوں کی آڑ میں زندگی گزار رہے تھے جہاں لاپرواہی سے دیا گیا کوئی بیان، ان بچوں پر الزام تراشی یا پھر متجسس ہمسایوں کی سرگوشیاں اِن کی بازیابی کا باعث بنتیں اور بالآخر وہ موت کا شکار ہو جاتے۔