جرمن حکومت بحران میں

1919 سے 1932 تک جرمنی میں اتحادی حکومتوں کا ایک سلسہ جاری جاری رہا۔ یہ جرمن تاریخ کا وہ دور تھا جس میں اس کا نام ویمر ریپبلک تھا۔ اس وقفے کے دوران کوئی بھی واحد سیاسی پارٹی پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اقتصادی پالیسیوں پرعدم اتفاق اور بائیں اور دائیں بازو کی پارٹیوں کے درمیان بڑھتی سیاسی مرکزیت نے ایک کام کرنے کے قبل اتحاد کو نہیں بننے دیا۔ اس کے بجائے جون 1930 کے بعد چانسلروں کے ایک سلسلے نے ضروری پارلیمانی اکثریت کی تلاش کی ضرورت کو ختم کر دیا۔ انہوں نے جرمن آئین کے ہنگامی حالات سے متعلق قانون (آرٹیکل 48) میں، جسے بے چینی کے دور میں جمہوریت کو برقرار رکھنے میں مدد کیلئے تیار کیا گیا تھا، تحریف و ترمیم کی جس کے تحت یہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر صدارتی حکم کے تحت آ گیا۔ اس حکومتی ڈھانچے نے اقتصادیات اور پارلیمانی نظام کو استحکام بخشا اورعارضی طور پر خانہ جنگی بند ہو گئی۔

نازی روایت

عدم استحکام کے دور میں نازی پارٹی کہیں اندھیرے سے نکل کر قومی سطح پر مشہور ہوئی۔ نازی پارٹی نے ویمر "نظام" کی بدعنوانی اور بے اثر پذیری کے خلاف خود کو بطور ایک تحریک پیش کر کے ڈرامائی طور پر اپنی عوامی حمایت میں اضافہ کیا۔ اس نے ویمر ریپبلک کوعدم استحکام اور بے عملی کا نمونہ بتا کر اس پر تنقید کی اور اس کی وضاحت میں پہلی عالمی جنگ میں ہار سے ہونے والی تذلیل اور مایوسی اور جنگ کے بعد ورسائی میں ہونے والے معاہدے کی تادیبی شرائط کو پیش کیا۔ نازی پروپیگنڈا کنندگان نے پارٹی کو جرمنی کی واحد اور جامع تحریک کے طور پر پیش کیا جو طبقہ، مذہب اور علاقے سے قطع نظر سبھی غیر یہودی جرمنوں کی آواز تھی۔ نازی نکتہ نظر کے مطابق دیگر تمام سیاسی پارٹیاں دراصل مخصوص مفاد والی جماعتیں تھں جنہیں اپنی منفی مفاد پرستی سے واسطہ تھا۔ نازی پروپیگنڈا کنندگان نے پرتشدد خانہ جنگی کے بعد امن و امان کی عوامی خواہش کے نفاذ کی اپیل بھی کی۔ ہٹلر نے جرمنی کو متحد کرنے، ملک کے چھ ملین بے روزگار لوگوں کو دوبارہ روزگار دے کر اور "روایتی جرمن اقدار" کی بحالی کا عہد کر کے، کافی زیادہ عوامی حمایت حاصل کی۔

ایک اجتماعی تحریک میں شریک ہونے کی اپیل

نازی نظریے اور پروپیگنڈے کا ایک کلیدی مقصد ایک "قومی برادری" (ووکس جیمین شافٹ) کی تشکیل تھا۔ یہ"آریائی" نسل کے سبھی جرمنوں کی ایک نسلی یونین تھی جو طبقہ، مذہب، اور علاقائی تفریق سے اوپر تھی۔ سیاسی تنازعہ اور سماجی دشواریاں جو سابقہ ویمر دور کی پارلیمانی جمہوریت کی خصوصیت بن چکی تھیں، نئی نیشنل سوشلسٹ سوسائٹی میں اس کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ گزشتہ سالوں کے ویمر آئین میں شامل ذاتی حقوق کے تحفظ کی جگہ پر نازی پروپیگنڈہ کنندگان نے فرد کے بارے میں سوچنے سے قبل قومی برادری کی عمومی فلاح کے بارے میں سوچنے کو اولیت دی۔ "خالص نسل" کے سبھی جرمنوں کو "قومی کامریڈز"( ووکسجین وسین) کہا گیا اوران پر ایسے لوگوں کی ذمہ داری ڈالی گئی جو ان سے غریب تھے اور انہیں فلاح عام کیلئے اپنا وقت، تنخواہ، اور یہانتک کہ زندگی لگانے کیلئے کہا گیا۔ اصولی طور پر نہ تو کمتر پیداوار نہ ہی معتدل اقتصادی حالات سماجی، فوجی، یا سیاسی پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ نازی پروپیگنڈا نے جرمنوں میں "قومی برادری" کے تصور کو عام کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا جو اتحاد، قومی افتخار و عظمت، اور ماضی کے سماجی درجہ بندی کے سخت نظام کو توڑنے کیلئے بے قرار تھے۔ اس طرح پروپیگنڈا نے جرمن عوام کو ایک ایسے مستقبل کیلئے تیار کیا جس کی وضاحت قومی اشتراکیت پسند نظریات کے ذریعہ کی گئی تھی۔

عوام الناس کو جنگ کیلئے تیار کرنا

جنگ کے دور کے پروپیگنڈا کنندگان اکثر فوجی قوت کے استعمال کو اخلاقی طور پر درست اور ضروری بتا کر صحیح ٹھہراتے تھے۔ موسم گرما 1939 میں جب ہٹلر نے پولینڈ پرحملہ کرنے کے اپنے منصوبے کو حتمی شکل دی تو جرمنی میں عوام میں تناؤ اور خوف کا ماحول پیدا ہو گیا۔ سڑکوں پر جنگ کی حمایت میں کوئی بھیڑ نہیں نکلی جیسا کہ انہوں نے 1914 کی پہلی عالمی جنگ کے وقت کیا تھا۔ اس جنگ کی یادیں اور دو ملین جرمن فوجیوں کی اموات نے عوام کے ذہن کو کافی متاثر کیا تھا۔ نازی پروپیگنڈا مشین کو ایک نئی جنگ کیئے عوامی حمایت حاصل کرنے کا کام دیا گیا۔

دوسری عالمی جنگ کے پورے دورانیے میں نازی پروپیگنڈا کندگان نے علاقائی برتری حاصل کرنے کیلئے فوجی جارحیت کو اخلاقی طور پر اپنے تحفظ کا قدم بتایا جو "آریائی تہذیب کی بقا کیلئے ضروری تھا۔" انہوں نے جرمنی کو غرملکی جارحیت پسندوں کے ممکنہ شکار کے طور پر پیش کیا جس کے نتیجے میں امن کے علمبردار ایک ملک کو جرمن عوام کا تحفظ یقینی بنانے اور کمیونزم کے خلاف یورپ کی مدافعت کیلئے ہتھیار اٹھانے پڑے ۔

1944 میں موسم گرما کے اواخر میں مغرب میں برطانوی اور امریکی فوجوں اور مشرق میں سوویت یونین کے بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باوجود نازی قیادت نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور شہریوں کو متوقع صورتحال کو ٹالنے کیلئے خون کی آخری بوند تک لڑنے کی ترغیب دی۔ نازی پروپیگنڈا کنندگان نے اس خطرے سے آگاہ کیا کہ اگر اتحادی فوجی جنگ جیت جاتے ہیں تو جرمنوں کی زندگی اور ثقافت پوری طرح تباہ و برباد ہو جائے گی۔ انہوں نے غلط طور پر کرشمائی ہتھیاروں یا فیوہرر اور جرمن عوام کے مستحکم جذبے کے ذریعہ جیت کو یقینی بتایا۔ ہار کے بعد ہٹلر کی حکومت نے مزید دہشت اور پروپیگنڈا پھیلانا شروع کر دیا جس کا مقصد جوش اور جذبے کو تحریک دینا تھا۔