فرانس کی وکی حکومت کی طرف سے شمالی افریقہ کے یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک
فرانس کی تین شمالی افریقی نوآبادیوں الجزائر، مراکش اور تیونس میں ہالوکاسٹ کی تاریخ دراصل اُس دور میں فرانس کی تقدیر کے ساتھ وابستہ رہی۔
مئی 1940 میں جرمنی کے حملے کے بعد فرانس کو جلد ہی شکست ہو گئی۔ وزیر اعظم پال رینوڈ نے استعفٰی دے دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے مقبول ہیرو مارشل ہینری پیٹین نے 22 جون کو جرمنی کے ساتھ عارضی صلح کے سمجھوتے پر دستخط کر دئے۔ اِس سمجھوتے کی شرائط کے تحت فرانس کو دو غیر مساوی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ شمالی حصہ جس میں بحر اوقیانوس کا تمامتر ساحلی علاقہ شامل تھا براہ راست جرمن تسلط میں دے دیا گیا۔ پیٹین کو جنوب میں واقع تیسرے حصے پر اختیار دے دیا گیا جس میں میٹروپولیٹن فرانس کا علاقہ اور نو آبادیاں شامل تھیں۔ حکومت میں تبدیلی کے باوجود فرانس کی مسلح افواج کے زیر کنٹرول نوآبادیاتی انتظامیہ زیادہ تر برقرار رہی۔
فرانس کی حکومت کی طرف سے متعارف کرایا جانے والا یہود مخالف وکی قانون دراصل نازی جرمنی ہی سے متاثرہ تھا۔ یہودیوں کے بارے میں سوالات سے متعلق ایک جنرل کمشن 1941 میں خاویر والے کی قیادت میں قائم کیا گیا جس کا مقصد حکومت کے یہود مخالف قوانین کا اطلاق کرنا تھا۔
پہلا یہود مخالف قانوں (جیوئش اسٹیٹیوٹ) کی منظوری 3 اکتوبر 1940 کو دی گئی۔ اِس قانون کے تحت فرانس کے مرکزی علاقے (جسے میٹروپول یا میٹروپولیٹن فرانس کے طور پر بھی جانا جاتا تھا) اور الجزائر میں رہائش پزیر یہودیوں کو اُن کے آباؤاجداد کے مذہب کی بنیاد پر یہودی مانا گیا۔ الجزائر میں اور میٹروپولیٹن فرانس میں یہودیوں پر کھلم کھلا تقریبات منعقد کرنے پر پابندی تھی۔ وہ حکومت کیلئے کام نہیں کر سکتے تھے۔ یہودی اسکولوں کے علاوہ تعلیم نہ دے سکتے تھے۔ فوج کیلئے بھرتی نہ ہوسکتے تھے اور نہ ہی کوئی کام کر سکتے تھے۔ اُنہیں سرکاری ٹھیکوں والے کاروبار میں بھی ملازمت کی اجازت نہ تھی۔ اِس کے علاوہ یہودیوں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ تاہم کچھ استثنائی مثالیں موجود تھیں جن میں سے زیادہ تر یہودی آزمودہ فوجیوں کیلئے تھیں۔
اِس کے برعکس تیونس اور مراکش میں رہنے والے یہودیوں کو ایک مذہبی برادری میں رکنیت کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا۔ اِس امتیاز نے یہودی کمیونٹی کے اداروں کو زیادہ خود مختاری دی۔ یہود مخالف قوانین کا اثر بھی کچھ کم رہا اور یہودیوں کو اجازت رہی کہ وہ اپنی کمیونٹی میں کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ اپنی کمیونٹی کے اندر کسی بھی منصب اور مرتبے پر فائز ہو سکتے ہیں۔
پہلے یہودی قانون کی منظوری کے فوراً ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کے اثرات الجزائر کے یہودیوں پر مرتب ہوئے۔ 7 اکتوبر 1940 کو فرانسیسی حکومت نے کریمیکس حکمنامے کو منسوخ کردیا جس سے الجزائر کے یہودیوں کی فرانسیسی شہریت ختم ہو گئی اور پھر دوبارہ شہریت حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہ رہا۔ 1830 میں الجزائر پر فرانس کے قبضے کے وقت سے الجزائر کے یہودیوں کی ایک مختصر تعداد نے نقل مکانی کر کے فرانس میں سکونت اختیار کر لی۔ 1939 تک شمالی افریقہ کے یہودیوں کی چھوٹی برادریاں پیرس، مارسے اور لیون میں رہنے لگیں۔ کریمیکس حکمنامے کی منسوخی کے باعث اُن کی شہریت بھی ختم ہو گئی اگرچہ مرکزی فرانس میں رہنے والے دیگر یہودی بدستور فرانسیسی شہری رہے کیونکہ کریمیکس حکمنامے کا اُن پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ الجزائر اور نو آبادیوں میں رہنے والے یہودی نازی حراستی کیمپوں میں بھیجے جانے سے محفوظ رہے، میٹروپول میں رہنے والے شمالی افریقہ کے یہودی فرانس کے ہالوکاسٹ کا شکار بننے والوں میں شامل تھے۔
2 جون 1941 کو ایک اور یہودی قانون نے پہلے یہود مخالف قانون کے دائرے کو وسیع کر دیا۔ نو آبادیوں میں رہنے والے یہودیوں کو معیشت اور پیشہ ورانہ زندگی سے مذید خارج کرنے کی ایک کوشش میں وکی حکام نے یہودیوں کو فنانس سے تعلق رکھنے والے پیشوں کو اختیار کرنے پر پابندی لاگو کر دی۔ اِس میں نہ صرف بینکنگ اور اسٹاک مارکیٹ شامل تھی بلکہ وہ جوئے بازی، قرضہ جات کی فراہمی، اناج، لائیو اسٹاک، آرٹ ورک اور لکڑی کی تجارت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہودیوں کو کاروبار کے مالکانہ حقوق رکھنے، کاروبار چلانے یا کاروبار کا نظم و نسق سنبھالنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور ذرائع ابلاغ میں بھی وہ روزگار حاصل نہ کر سکتے تھے۔
پیشہ ورانہ شعبوں میں کوٹے کے تحت یہودی وکلا، ڈاکٹروں، دندان سازوں، دائیوں، نوٹری پبلک اور آرکیٹیکٹس کو کل تعداد میں سے صرف دو فیصد کیلئے لائسنس دئے جاتے۔ یہودی اساتزہ سوائے یہودی اسکولوں کے کہیں اور پڑھا نہیں سکتے تھے۔ اِس قانون کے تحت الجزائر میں یہودی طالب علموں کو سرکاری اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے یکسر خارج کر دیا گیا۔ اِس کے رد عمل میں الجزائر کی یہودی کمیونٹی نے اپنا نجی مرکزی تعلیمی نظام قائم کیا جس میں 70 پرائمری اسکول اور 5 ہائی اسکول شامل تھے۔ اِن اسکولوں میں یہودی اساتذہ تھے۔ الجزائر، اورن اور قسطنطنیہ کی مقامی یہودی مذہبی انتظامیہ اِن کو چلاتی تھی جبکہ وکی انتظامیہ اِس کے قواعد و ضوابط مرتب کرتی تھی۔ وکی حکام نے یہودی طالب علموں کیلئے یونیورسٹی بنانے کے اقدام کو روکنے میں جلد قدم اُٹھایا۔
الجزائر میں یہودیوں کے اعلٰی پیشہ ورانہ معیار اور ثقافتی طور پر اُن کے متحد ہونے کے باوصف اِن پابندیوں کے الجزائر کے یہودیوں پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔ مراکش اور تیونس میں کوٹے کی پابندیوں نے ڈاکٹروں اور وکیلوں جیسے پیشہ ور یہودیوں کو بنیادی طور پر متاثر کیا۔ بیشتر یہودی طلبا نے الائنس اسرائیلائیٹ یونیورسل کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور برائے نام طلبا نے یونیورسٹی کا رُخ کیا۔ لہذا وہ اِس قانون سے براہ راست متاثر نہ ہوئے۔ تاہم مراکش میں مقامی کاروباری اور مصنوعات ساز ادارے اور مزدور یونینیں یہود مخالف قوانین کے برے اقتصادی اثرات کا ڈٹ کر مقابلہ کر پائیں۔ یہودیوں کی طرف سے مقابلے بازی کے رجحان کو ختم کرنے کی خواہش میں اِن اداروں نے یہودی اراکین کو نکال دیا اور یہودی ملازمین کو برطرف کر دیا۔ مجموعی طور پر ماتحت علاقوں کے یہودیوں کو مقامی آبادی میں کم شامل کیا گیا اور یوں پیشوں، کاروباروں اور تعلیم میں الجزائر کی نسبت وہ کم متاثر ہوئے۔
وکی حکومت نے تمام یہودی املاک کو بھی آریائی بنانے کی کوشش کی۔ جولائی 1941 میں ایک قانون بنایا گیا جس کے تحت نجی رہائش گاہوں کے سوا تمام یہودی املاک پر قبضہ کر لیا گیا۔ وکی حکام نے یہودیوں کے کاروبار ٹرسٹیز کو سونپ دئے جنہیں کاروبار سے ہونے والے منافع میں سے خود کو ادائیگی کرنے کی اجازت تھی۔ اگرچہ اِن ٹرسٹیز سے کہا گیا تھا کہ وہ یہ کاروبار مناسب یورپی آبادکاروں کے ہاتھ بیچ دیں، اُنہوں نے عمداً اِس اقدام میں تساہل برتا تاکہ کاروبار سے خود اپنے لئے مذید رقوم نکلواتے رہیں۔ ( اِس لالچ کے باعث بہت سے کاروبار اتحادیوں کے شمالی افریقہ پہنچے تک فروخت نہ کئے گئے اور یوں بالآخر وہ اصل مالکان کو واپس لوٹا دئے گئے)۔ وکی اہلکاروں نے ہر نوآبادی میں "آریائی بنانے" کی مہم کو مختلف انداز میں چلایا۔ دوسرے علاقوں کی طرح الجزائر میں اکنامک آریانائزیشن کے نو تشکیل کردہ دفتر کے تحت منظم انداز میں یہ مہم چلائی گئی۔
تیونس میں ہمدرد فرانسیسی اور مسلمان عہدیداروں نے خصوصاً ریزیڈنٹ جنرل ایڈمرل یاں پیئر ایسٹیوا، تیونس کے حکمران احمد پاشا بے اور اُن کے جانشین منصف بے اور یہودی برادری کے حامیوں نے یہودیوں کی بے دخلی اور "آریائی بنانے" کے عمل کو مؤخر کئے رکھا۔ مزید برآن تیونس میں اطالوی عیدیداروں نے اطالوی شہریت رکھنے والے 5 ھزار یہودیوں پر وکی نسلی امتیاز کے قوانین کے اطلاق کی مخالفت کی جس سے اُنہیں آریائی بنانے کی مہم مزید کمزور ہوئی۔ مراکش میں یورپی شہری علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کو میلا کے نام سے موسوم یہودیوں کی روایتی بستیوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا۔
مارچ 1942 میں ویلٹ نے یہودی کمیونٹی کے اداروں کی نگرانی کیلئے الجزائر کے یہودیوں کی جنرل یونین کی تشکیل کی۔ یہ تنظیم اُس یہودی کونسل کے مشابہ تھی جس میں وکی حکام نے یہودی کمیونٹی کے نمایاں ارکان کو خدمات انجام دینے کیلئے کہا اور یوں اِس تنظیم کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ اِس کے ارکان کا تقرر بھی اتحادیوں کے شمالی افریقہ پہنچنے سے کچھ ہی قبل ستمبر 1942 میں کیا گیا۔ ایسا ادارہ مراکش یا تیونس میں بالکل ضروری نہیں تھا کیونکہ یہودی کمیونٹی کے ادارے جنگ سے پہلے ہی نوآبادیاتی حکام کے زیر نگرانی تھے۔ سارہ سسمان اسٹینفورڈ یونیورسٹی