جیسے جیسے اتحادی فوجیں نازی جرمنی کے خلاف مسلسل حملوں کے ساتھ یورپ بھر میں پیش قدمی کرتی رہیں، اُن کا سامنا حراستی کیمپوں میں محصور قیدیوں سے ہوتا رہا جنہیں وہ رہا کرتی رہیں۔ بہت سے قیدی جرمنی کے اندرونی علاقوں میں موت کے مارچ سے بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ آزادی پانے کے بعد بیشتر یہودی ہولوکاسٹ کے دوران سام دشمی اور اپنی برادریوں کی تباہی کے باعث مشرقی یورپ کی جانب نہ جا سکے یا پھر وہ جانا نہیں چاہتے تھے۔ وہ لوگ جو لوٹ گئے وہ بھی اکثر اپنی جان کیلئے خطرہ محسوس کرتے رہے۔ ہولوکاسٹ سے زندہ بچنے والے بہت سے بے گھر یہودیوں نے مغرب کی جانب اُن علاقوں کا رُخ کیا جنہیں اتحادی افواج نے آزاد کرا لیا تھا۔ اُنہیں وہاں بے دخل افراد یعنی ڈی پی لوگوں کے کیمپوں اور پناہ گذینوں کے مراکز میں رکھا گیا جہاں وہ یورپ سے روانہ ہونے کا انتظار کرتے رہے۔
آئٹم دیکھیںدوسری جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی لاکھوں بچ جانے والے یہودی بے گھر لوگوں کے کیمپوں میں رہے۔ اتحادیوں نے ایسے کیمپ اپنے مقبوضہ جرمنی، آسٹریا اور اٹلی میں ان پناہ گزینوں کیلئے قائم کئے تھے جو یورپ سے روانگی کے انتظار میں تھے۔ اکثر یہودی بے گھر افراد نے یورپ کو چھوڑ کر فلسطین ہجرت کرنے کو ترجیح دی لیکن بہت سے یہودی امریکہ بھی جانا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے اُس وقت تک بے گھر افراد کے کیمپوں میں رہنے کا فیصلہ کیا جب تک کہ وہ یورپ سے روانہ نہ ہو پائیں۔ 1946 کے اختتام تک یہودی بے گھر افراد کی تعداد تقریباً 250،000 تھی جس میں سے 185،000 جرمنی میں، 45،000 آسٹریا میں اور 20،000 اٹلی میں تھے۔ اکثر بے گھر یہودی پولینڈ کے پناہ گزین تھے۔ ان میں سے بہت سے جنگ کے دوران جرمنی سے بھاگ کر سوویت یونین کے داخلی حصوں کی طرف چلے گئے۔ دوسرے بے گھر یہودی چیکوسلواکیہ، ہنگری اور رومانیہ سے آئے تھے۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.