ربی ابراھم کلوسنر امریکی فوج کے ایک چیپلین تھے۔ وہ مئی 1945 میں ڈاخاؤ حراستی کیمپ میں پہنچے۔ وہ 116 ویں ایویکوئیشن ہسپتال سے منسلک تھے اور بے دخل افراد کے کیمپوں میں پانچ برس تک کام کرتے رہے جہاں اُنہوں نے زندہ بچ جانے والے یہودیوں کی مدد کی۔
میں رات کے وقت ڈاخاؤ پہنچا اور میں نے بڑے گیٹ سے اندر آتے ہوئے بڑے چوراہے کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ اور یقیناً، بہت بے تابی سے صبح کا انتظار کرنے لگا اور جب صبح ہوئی، میں پیدل چلتے ہوئے خاردار تاروں والے گیٹوں کے ذریعے بیرکوں کے حصے میں پہنچا، اور میں نے اُن میں سے ایک بیرک کا انتخاب کیا۔ میں اس میں داخل ہوا جہاں میری ملاقات زندہ بچ جانے والے پہلے شخص سے ہوئی۔ یہ میرے لئے ایک مشکل تجربہ تھا کیونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں کوئی مقصد پورا کر پاؤں گا۔ میں کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ میں کچھ بھی نہیں دے سکتا تھا۔ لوگوں کو سہولتوں کی ضرورت تھی، اُنہیں مختلف طرح کی توجہ چاہئیے تھی، اور میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ بہر حال میں ڈاخاؤ میں تھا اور مجھے محسوس ہوا کہ مجھے کچھ کرنا چاہئیے۔ لہذا میں برکوں میں داخل ہوا اور وہاں بہت پریشانی کے عالم میں کھڑا رہا۔ یہ آزادی کا وقت تھا اور لوگ ابھی بھی بیرکوں میں تھے۔ وہ شیلفوں پر پڑے ہوئے تھے۔ شیلفوں کی تین قطاریں تھیں اور شیلفوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہاں کپڑا نام کی کوئی شے تھی ہی نہیں۔ وہاں صابن بھی نہیں تھا۔ کوئی کرسی یا بیٹھنے کیلئے کوئی بھی چیز نہیں تھی۔ یہ بہت غلیظ صورت حال تھی اور یہاں لوگ یا تو شیلفوں پر پڑے ہوئے تھے یا پھر غیر محسوس طریقے سے ادھر اُدھر چل پھر رہے تھے۔ اُنہوں نے میری طرف کوئی توجہ ہی نہبں کی جیسے میں وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ کوئی بھی شخص مجھے خوش آمدید کہنے یا پھر یہ پوچـہنے کیلئے میری طرف نہیں بڑھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ وہ محض ۔۔۔ میں کسی بھوت کی طرح تھا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.