کولون یونیورسٹی میں جینیات کے پروفیسر اور ہلاکت خیز سائینس کے مصنف بینو مولر۔ھل، نازیوں کے رحمانہ قتل کے پروگرام کے بارے میں بتارہے ہيں، اس میں اُنہوں نے آنٹجے کوسیمنڈ، پال ایگرٹاور ایلویرا منتھے سے اقتباسات بھی شامل کئے۔ آنٹجے کوسیمنڈ کی ایک چھوٹی بہن تھی جو معذور تھی۔ اسے 3 سال کی عمر میں دسمبر 1933 میں ایلسٹرڈورف انسٹی ٹیوٹ ھیمبرگ کے یتیم خانے میں داخل کیا گیا اور اسے بالآخر وہاں 1944 میں ہلاک کر دیا گیا۔ پال ایگرٹ 1942-43 کے دوران ڈورٹمنڈ۔ایپلربیک ادارے کے یتیم خانے کے رہائشی تھے جہاں اُنہوں نے وہاں مقیم دیگر یتیموں کو رحمدلانہ موت دیتے ہوئے دیکھا۔ ایلویرا منتھے کو اُن کی بہن کے ساتھ ایک بڑے اور غریب گھرانے سے اُٹھا لیا گیا اور 1938 میں ایک یتیم خانے میں داخل کر دیا گیا۔
[تصاویر کے کریڈٹ: گیٹی تصاویر، نیو یارک سٹی؛ ید واشیم، یروشلم؛ میکس۔پلینک انسٹی ٹیوٹ فیور سائیکئیٹری ۰ڈوئشے فارشنگسینشٹٹ فیور سائیکئیٹری، ھسٹوریشز آرکائو، بلڈرسیملنگ جی ڈی اے، میونخ؛ بنڈے سارشو کوبلینز، جرمنی؛ ڈاکیومینٹیشن سارشو ڈس آسٹیریشیشن وائڈرسٹینڈیز، ویانا؛ کرائمھلڈ سائنڈر: ڈائی لینڈے شیلنشٹٹ اختسپرنگے اُنڈ ایہرے ورسٹرکونگ ان نیشنلسوزئیلسٹشے وربریکن؛ 12/32442 .Nr ,461 .Abt HHStAW ؛ پرئیویٹ کولیکشن .Bonn Orth L ]
بینو مولر۔ھل
رحمانہ قتل کا پروگرام سابقہ پروگراموں سے اس طرح مختلف تھا کہ وہ قانونی نہیں تھا، وہ صرف ہٹلر کے ایک خط کی وجہ سے ممکن ہوا تھا اور اگر کوئی ماضی میں دیکھے تو وہ یہی کہے گا کہ تقریبا تمام ہی تفسیاتی ڈاکٹروں نے اس کی حمایت کی
آنٹجے کوسیمنڈ
کون سوچ سکتا تھا کہ 1933 میں معذور اور بیمار لوگوں کو مار دیا جائے گا؟ یہ خیال کسی کو بھی نہيں آیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایرما – میرے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح – دیر سے بڑی ہوئی۔ اس نے دیر سے چلنا سیکھا، اور اسے ہمیشہ ہی گود میں اٹھایا جاتا تھا اور وہ اپنے ہاتھ سے کھانا نہيں کھا سکتی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی، بڑی بھوری آنکھوں والی ایک خوبصورت بچی۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ میرے گھر والے ایرما کو بھول گئے۔ میری والدہ ہمیشہ بیمار ہی رہتی تھیں اور اتنے سارے بچوں کے ساتھ وہ ایرما کی دیکھ بھال نہيں کر سکتی تھیں۔ میرے والد نے اس سے شروع شروع میں ملاقات کی ہوگی۔ اس کے بعد مجھے ایرما کے بارے میں 1945 میں خبر ہوئی۔ میرے والد نے مجھے بتایا کہ اس کا ویانا میں انتقال ہو گیا تھا۔ اسے بچوں کے ایک وارڈ میں تیرہ مذید بچوں کے ساتھ لے جایا گیا – ان میں سب سے چھوٹا اس وقت تین سال کا ہو گا اور ایرما تیرہ سال کی عمر میں ان سب سے بڑی تھی۔ وہاں ان پر غیرقانونی طبی تجربے کئے جاتے تھے۔ ان بچوں کو بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا اور وہ صرف ڈھانچے بن کر رہ گئے تھے۔ ان میں سے زبادہ تر تو بھوک، تھکن یا دواؤں سے مر گئے، یا انہیں موت کے انجکشن لگا دئیے جاتے تھے۔ بے کار زندگی – اس کو یہ کہا جاتا تھا “بے کار زندگی.” اس کا یہ نام تھا۔
پال ایگرٹ
باہر سے تو وہ بچوں کا ہوم لگتا تھا۔ اندر سے وہ بچوں کا ایک حراستی مرکز تھا۔ ڈاکٹر صرف اپنی انگلی گھماتا تھا، اور نرس ہر بار کچھ لکھ لیتی تھی، چار پانچ سال کے پانچ یا چھ بچے ہوتے تھے۔ انہيں صبح کسی نہ کسی بیماری کے لئے ڈاکٹر کے دفتر جانا ہوتا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ بچے لاپتہ ہو جاتے تھے۔ ایک دن ایک نرس نے مجھ سے پوچھا: "پال، کیا تم یہ گندی چادریں لانڈری میں پہنچا دو گے؟" میں نے سوچا، کیوں نہيں؟ مجھے وہاں سے نکل کر تازہ ہوا کھانی تھی۔ کارٹ کو دھکا دیتے ہوئے مجھے وہ ضرورت سے زیادہ بھاری محسوس ہوئی۔ میں نے نظر بچا کر چادروں کے نیچے جھانکا۔ اس میں تو وہ مردہ بچے تھے جنہيں صبح انجکشن دے کر مار دیا گیا تھا۔ مجھے انہيں لانڈری تک لے جانا تھا، جس سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ہی ایک لاشیں جلانے کی بھٹی تھی۔
بین مولر ھل
جرمن نفسیاتی ڈاکٹر اپنے مریضوں کے متعلق ایسے ناقابل یقین الفاظ استعمال کرتے تھے۔ وہ انہيں todehuellsen – یعنی کہ مردہ اور بے کار کہتے تھے۔ گھٹیا – یعنی کہ کمتر نسل رکھنے والے لوگ، اور ایسے برے الفاظ استعمال کرنا ایک عام سی بات تھی۔ میرے خیال میں اگر آپ اپنے مریضوں کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ آپ انہيں ایک نہ ایک دن پھینک ہی دیں گے۔
ایلویرا منتھے
ساڑھے پانچ سال کی عمر میں مجھے ایک بچوں کے ہوم میں بھیج دیا گیا جو نازیوں کے ساتھ کام کرتا تھا۔ وہاں کے بچوں کو دماغی مریض قرار دے دیا گیا – ہمارے کمرے کے پیچھے چھوٹے بچے تھے۔ ایک دن مجھے بچوں کے رونے کی آواز آنا بند ہو گئی۔ یہ 1940 کی بات ہے۔ میں اس وقت اس ادارے میں دو سال سے تھی۔ اس کے بعد میں نے اندر جھانکا تو سارے بستر خالی تھے۔ میں بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئی جہاں بڑی عمر کے معذور بچے تھے۔ وہاں بھی سارے بستر خالی تھے۔ اس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ میری بہن کو لے جایا جا رہا ہے۔ میں نے اپنی بین کے بالوں میں کنگھی کی، اس کو گلے لگایا، اور پھر وہ چلی گئی۔ میری تو جیسے دنیا ہی ختم ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ اب تو میں پاگل ہو جاؤں گی۔ اس کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ہم سب کو لے جایا جائے گا۔ صرف آٹھ پچے رہ گئے۔ بس کو ایک عمارت میں لے جایا گیا اور ہمیں وہاں سے نکلنا پڑا۔ وہاں تین عورتیں اور ایک آدمی تھا اور میں آدمی کے پیچھے چلی گئی۔ انہوں نے چلانا شروع کر دیا :"اپنے کپڑے اتارو۔ جوتے وہاں رکھو، کپڑے یہاں رکھو۔ جلدی کرو!" "نہیں" میں نے اپنے آپ سے کہا "تم اپنے کپڑے نہيں اتارو گی۔ یہاں کچھ گڑبڑ ہے" اس نے سب سے چھوٹے بچے کو پکڑ کر اس کے کپڑے اتار دئے – انہيں پھاڑا نہيں، لیکن انہیں زور سے کھینچا اور وہ پچہ ننگا ہو گیا۔ جیسے میں کوئی بہت بری فلم دیکھ رہی تھی۔ میں صرف دیکھتی رہی۔ اس دوران دوسرے بچوں کے کپڑے اتار دئے گئے اور وہ ایک ایک کر کے بچوں کو لے گئی، وہ میز کے سامنے کھڑی ہوئی، اور گیس چیمبر کھول کر بچوں کو اس کے اندر دھکا دے دیا۔ ظاہر ہے مجھے اس وقت تو نہيں معلوم تھا کہ وہ گیس چیمبر ہے، لیکن مجھے وہاں خطرہ محسوس ہوا۔ سارے بچے گیس چیمبر میں ہیں اور میں اپنے سارے کپڑے بہن کر ڈاکٹر بنکے کے پیچھے چھپی ہوئی ہوں۔ ان کا جسم کافی بڑا تھا۔ اس لئے کسی نے مجھے دیکھا نہيں۔ پھر مجھ پر کوئی چیخا "فورا کپڑے اتارو ورنہ تمہيں مار پڑے گی" میرے جب سارے کپڑے اتر گئے تو بنکے نے میرا بایاں بازو پکڑا۔ سمجھو یہ میز ہے، میں وہاں بیٹھی تھی اور وہاں گیس کا چیمبر تھا۔ اس نے مجھے میز کے سامنے کھینچا "تمہارا نام کیا ہے؟"ایلویرا ھیمپل". "تمہاری عمر کیا ہے؟" "آٹھ سال" "واپس کپڑے پہن لو"
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.