بینو مولر۔ھل، یونیورسٹی آف کولون میں جینیات کے پروفیسر اور ہلاکت خیز سائینس کے مصنف، جینیات اور انسانی نسل کے معیار کو بہتر بنانے سے متعلق بات کر رہے ہیں۔
[تصاویر کے کریڈٹ: گیٹی تصاویر، نیویارک سٹی؛ ید وشیم، یروشلم؛ میکس۔پلینک انسٹی ٹیوٹ فار سائیکئیٹری (ڈوئشے فارشنگسنسٹٹ فیور سائیکئیٹری)؛ ھسٹوریشز آرکائو، بلڈرسیملنگ جی ڈی اے، میونخ؛ بنڈیسرشو کوبلنز، جرمنی؛ ڈوکیومینٹیشن سرشیو دس آسٹر ریشیشن وائڈرسٹینڈیس، ویانا؛ کرائمہلڈ سائنڈر: ڈائی لینڈیشیلانسٹٹ اُشٹسپرنگے اُنڈ ایہرے ورسٹریکئنگ ان نیشنلسوزئیلسٹش وربریشین؛ ایچ ایچ ایس ٹی اے ڈبلیو اے بی ٹی۔ 461 ، این آر۔ 12/32442 ؛ پرائیویٹ کلیکشن ایل۔ اورتھ، اے پی جی بون۔]
بینو مولر۔
نسلیات کے دو حصے ہيں۔ ایک حصہ انسانوں کا جینیاتی تجزیہ ہے، جو ان کی صلاحیتوں، عقل مندی وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے۔ کیا اس کا جینیات سے تعلق ہے یا نہيں اور کس حد تک؟ اور میرے خیال سے یہ صحیح ہے۔ یہ واقعی غلط بات نہيں ہے۔ لیکن بری بات اس وقت ہوتی ہے جب آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہيں کہ کم عقل رکھنے والے افراد کی نس بندی کر دی جائے اور صرف عقل مند افراد کو ہی بچے پیدا کرنے کی اجازت ہونی چاہئیے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ یہ اس چیز کا امتزاج ہے کہ سائنس، یعنی کہ انسانی نسلیات، اور سیاسی فیصلے اور اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ یہ خطرناک ہے۔
ایک طرف ماہر نسلیات کو اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سیاست دانوں کی ضرورت تھی اور دوسری طرف ہٹلر اور نازیوں کو ایسے سائنس دانوں کی ضرورت تھی جن کے مطابق سام دشمنی کا پس منظر سائنسی تھا۔
وہ یہودیوں کو گھٹیا یعنی کہ کم تر نسل کے کہنے سے تو ہچکچاتے تھے لیکن وہ یہ ضرور کہتے تھے کہ وہ الگ ہوتے ہيں اور وہ اتنے مختلف ہوتے ہيں کہ وہ جرمن لوگوں، جرمن آبادی کی ترقی کے لئے برے ہیں، لہذا انہيں علیحدہ کر دینا چاہئیے۔
ان کا ایک ہی مقصد تھا، اور وہ یہ کہ ان سب چیزوں کو پھیلانے سے روکنا جو موذوں نہ ہوں یا جو کم عقل ہوں، جو معاشرے سے مخالفت رکھتے تھے وغیرہ۔ لہذا وہ چاہتے تھے کہ ایسے افراد کی نس بندی کرنے کی حمایت میں قوانین نافذ ہو جائيں۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.