بوخن ولڈ اپنے کئی ایک چھوٹے چھوٹے کیمپوں کے ساتھ نازیوں کے تشکیل کردہ بڑے عقوبتی کیمپوں میں سے ایک تھا۔ یہ کیمپ ایٹرزبرگ کی شمالی ڈھلوانوں پر ایک جنگلاتی علاقے میں 1937 میں تعمیر کیا گیا۔ ایٹرزبرگ مشرقی وسطی جرمنی میں وائمر کے شمال مغرب میں قریب پانچ میل کی مسافت پر ہے۔ نازیوں کے اقتدار سنبھالنے سے قبل وائمر ایک کلیدی ادبی شخصیت یوہان وولف گانگ وان گوئٹے کے آبائی شہر کے طور پر جانا پہچانا تھا۔ گوئٹے اٹھارویں صدی اور اُنیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی کے فراخدل نظریات کی روایت کی پیداوارتھے اور 1919 میں جرمنی کی آئینی جمہوریت کی جائے پیدائش کے طور پر جمہوریہ وائمر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تاہم نازی حکومت کے دور میں وائمر بوخنولڈ عقوبتی کیمپ سے منصوب ہو گیا۔

بوخنولڈ کو سب سے پہلے مردوں کیلئے جولائی 1937 میں کھولا گیا۔ عورتیں 1943 کے آخر یا 1944 کے آغاز تک بوخنولڈ کیمپ کے نظام کا حصہ نہیں تھیں۔ قیدی کیمپ کے شمالی حصے میں ایک ایسے مقام تک محدود تھے جسے مرکزی کیمپ کے طور پر جانا جاتا تھا اور ایس ایس گارڈ بیرکیں اور کیمپ کی انتظامیہ جنوبی حصے میں واقع تھے۔ مرکزی کیمپ کے گرد برقی خار دار باڑھ تھی۔ پھر نگرانی کیلئے ٹاور بنائے گئے تھے اور قطار در قطار خودکار مشین گنوں سے لیس سنتری موجود تھے۔ حراستی مقام کو بنکر کہا جاتا تھا اور یہ مرکزی کیمپ کے داخلہ کے راستے پر واقع تھا۔ ایس ایس اکثر قیدیوں کو اصطبلوں میں گولی مار کر ہلاک کر دیتے اور دوسرے قیدیوں کو میت سوزی کے مقام پر پھانسی دے دیتے تھے۔

بوخنولڈ میں رہنے والے اولین قیدیوں میں سے بیشتر سیاسی قیدی تھے تاہم 1938 میں کرسٹل ناخٹ کے نتیجے میں جرمن ایس ایس اور پولیس نے تقریباً دس ھزار یہودیوں کو بوخنولڈ میں بھیجا جہاں آمد پر اُن کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جاتا۔ اُن میں سے 255 کیمپ میں ابتدائی بدسلوکی کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے۔

بوخنولڈ کی قیدی آبادی میں شامل یہودی اور سیاسی قیدی ہی واحد گروپ نہیں تھےاگرچہ سیاسی قیدیوں نے کیمپ میں اپنے طویل قیام کی وجہ سے کیمپ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ عادی مجرم، یہوواز وِٹنیس، روما، سِنتی خانہ بدوش اور جرمن فوج کے بھگوڑوں کو بھی بوخنولڈ بھیجا جاتا تھا۔ بوخنولڈ اُن چند عقوبتی کیمپوں میں سے ایک تھا جہاں کام چور افراد کو سودمند ملازمتیں مل جاتی تھیں۔ اِن لوگوں کو حکومت معاشرتی زندگی سے باہر قرار دیتی تھی کیونکہ اُنہیں کوئی اور بہتر ملازمت مل ہی نہیں سکتی تھی۔ بعد اذاں کیمپ میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگی قیدی، مزاحمت کار جنگجو، جرمن مقبوضہ ملکوں میں سابق حکومت کے ممتاز عہدیدار اور جبری مشقت پر لگائے گئے غیر ملکی مزدوروں کو بھی رکھا گیا۔

1941 کے آغاز میں متعدد ڈاکٹروں اور سائینسدانوں نے مرکزی کیمپ کے شمالی حصے میں خصوصی بیرکوں کے اندر بوخنولڈ کے قیدیوں پر طبی تجربات کا ایک پروگرام آزمایا۔ اِن طبی تجربات کا مقصد متعدی امراض جیسے ٹائفس، ٹائیفائیڈ، حیضہ اور تشنج کے علاج اور ویکسین کی کارکردگی کو جانچنا تھا۔ اِس کے نتیجے میں سینکڑوں اموات واقع ہوئیں۔ 1944 میں ڈنمارک کے ایک ڈاکٹر کارل ویئرنیٹ نے تجربات کے ایک سلسلے کا آغاز کیا جس کے بارے میں اُن کا دعوٰی تھا کہ ہارمون کی منتقلی سے ہم جنس پرست قیدیوں کا علاج معالجہ ہو سکے گا۔

1944 میں ہی کیمپ کے عہدیداروں نے بوخنولڈ میں انتظامی عمارت کے نزدیک ممتاز جرمن سیاسی قیدیوں کیلئے ایک خصوصی احاطہ بنایا۔ ہٹلر کے 1933 میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے جرمنی کی اشتراکی پارٹی کے سربراہ ارنسٹ تھیئلمین کو اگست 1944 میں اسی جگہ پر ہلاک کر دیا گیا۔

بوخنولڈ: جبری مشقت اور ذیلی کیمپ:

دوسری عالمی جنگ کے دوران بوخنولڈ کیمپ کا نظام جبری مشقت کے حصول کیلئے ایک اہم ذریعہ بن گیا۔ قیدیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور فروری 1945 میں اُن کی تعداد ایک لاکھ بارہ ھزار تک پہنچ گئی۔ کیمپ کے حکام نے بوخنولڈ کے قیدیوں کو جرمن سازوسامان تیار کرنے کے ادارے ڈیوئش آؤسرسٹونگز ورک یعنی ڈی۔اے۔ڈبلیو کیلئے استعمال کیا۔ یہ کاروبار ایس ایس کی ملکیت تھا اور وہی اس کا انتظام چلاتے تھے۔ کیمپ کی ورکشاپوں میں اور کیمپ کے پتھر توڑنے کے کارخانوں میں اِن قیدیوں سے کام لیا گیا۔ فروری 1942 میں گسٹلوف کمپنی نے بوخنولڈ کا ایک ذیلی کیمپ قائم کیا تاکہ قیدیوں کو اسلحہ سازی کے کام میں استعمال کیا جا سکے اور پھر مارچ 1943میں کیمپ کے مقابل گولہ بارود کا ایک بڑا پلانٹ لگایا گیا۔ 1943 میں کیمپ کو ریل کے ذریعے وائمر کے باربردار یارڈز سے مربوط کر دیا گیا تاکہ جنگی سازوسامان کی فراہمی میں سہولت ہو سکے۔

بوخنولڈ نے جرمنی بھر میں واقع کم سے کم 88 ذیلی کیمپوں کا انتظام سنبھالا۔ رھائن لینڈ میں ڈزل ڈورف سے لیکر مشرق میں سرحد کے ساتھ بوہیمئن کی ماتحت ریاست تک یہ کیمپ موجود تھے۔ ذیلی کیمپوں میں قیدیوں کو زیادہ تر اسلحے کے کارخانوں، پتھر توڑنے کی مشینوں اور تعمیراتی منصوں کیلئے استعمال کیا گیا۔ گاہے گاہے بوخنولڈ کیمپ کے تما تر سلسلے سے قیدیوں کا انتخاب کیا جاتا۔ ایس ایس عملہ جسمانی طور پر کمزور اور کام کرنے کیلئے نااہل قیدیوں کو برن برگ کی قتل گاہوں میں روانہ کر دیتا جہاں "رحمدل" موت دینے کے ماہر انہیں آپریشن 14f13 کے ایک حصے کے طور پر گیس کے ذریعے ہلاک کر دیتے۔ یہ آپریشن ایسے قیدیوں کو ہلاک کرنے کا توسیعی پروگرام تھا جو یا تو بیمار تھے یا جسمانی طور پر نڈھال۔ دوسرے قیدی جو کام کرنے کے اہل نہ ہوتے کیمپ ڈاکٹر اُنہیں فینول کا ٹیکہ لگا کر ہلاک کر دیتا۔

بوخنولڈ کی آزادی:

جب سوویت فوجیں پولینڈ پر حاوی ہو گئیں تو جرمنوں نے خطرے کے تحت جرمن مقبوضہ علاقوں سے عقوبتی کیمپوں کے ھزاروں قیدیوں کا انخلاء کیا۔ طویل وحشیانہ مارچ کے بعد دس ھزار سے زیادہ کمزور اور نڈھال قیدی آشوٹز اور گراس روزن سے بوخنولڈ پہنچے۔ جنوری 1945 میں وہاں پہنچنے والے قیدیوں میں سے بیشتر یہودی تھے۔

اپریل 1945 کے آغاز میں امریکی جوجیوں نے کیمپ تک رسائی حاصل کر لی۔ جرمنوں نے بوخنولڈ کے مرکزی کیمپ سے تقریباً 28 ھزار اور ذیلی کیمپوں سے مذید قیدیوں کو نکال لیا۔ اِن قیدیوں کی تقریباًً ایک تہائی تعداد راستے کی تکان کے باعث موت کا شکار ہو گئی یا آمد کے فوراً بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر ایس ایس نے اُنہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ بوخنولڈ میں خفیہ مزاحمتی تنظیم نے جس کے ارکان کے پاس کیمپ میں کلیدی انتظامی منصب تھے متعدد جانیں بچائیں۔ اُنہوں نے نازی احکام کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور انخلاء میں تاخیر کرائی۔

11 اپریل 1945 کو آزادی کی توقع میں بھوکے پیاسے قیدیوں نے نگران ٹاوروں پر دھاوا بول دیا اور کیمپ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اُسی سہ پہر کو امریکی افواج بوخنولڈ میں داخل ہو گئیں ۔ امریکی فوج کے تھرڈ ڈویژن کے فوجیوں کو کیمپ میں 21 ھزار سے زائد افراد ملے۔ جولائی 1937 سے اپریل 1945 کے درمیان یورپ کے تمام ملکوں سے تقریباً ڈھائی لاکھ قیدیوں کو بوخنولڈ میں قید کیا گیا تھا۔ بوخنولڈ میں موت کا شکار ہونے والوں کی اصل تعداد کا محض اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کا کبھی اندراج ہی نہیں کیا گیا۔ بوخنولڈ کیمپ کے پورے نظام میں کم سے کم 56 ھزار مرد قیدیوں کو قتل کیا گیا جن میں سے تقریباً 11 ھزار یہودی تھے۔