زہریلی گیس سے ہلاک کرنے کی کارروائیاں
نازیوں نے 1939 کے آخر میں بڑے پیمانے پر قتل و غارتگری کیلئے زہریلی گیس سے تجربات کا آغاز کیا اور سب سے پہلے ذہنی مریضوں کو ہلاک کیا گیا۔ اسے یوتھینیشیا کہا جاتا ہے۔ یوتھینیشیا یعنی رحم کھاتے ہوئے موت دینا اُن جرمنوں کے منظم قتل کی اصطلاح ہے جنہیں نازیوں نے ذہنی یا جسمانی معذوری کی وجہ سے زندگی کے قابل نہیں سمجھا۔ یوتھینیشیا پروگرام کے تحت گیس سے ہلاک کرنے کیلئے چھ مرکز بنائے گئے۔ اِن میں برن برگ، برینڈن برگ، گریفینیک، ہاڈامار، ہارتھائم اور سونین سٹائن کی تنصیبات شامل ہیں۔ اِن قتل گاہوں میں کیمیائی طور پر تیار کی ہوئی کاربن مونو آکسائیڈ گیس کو استعمال کیا گیا۔
جون 1941 کے بعد سوویت یونین پر جرمن حملے اور گشتی قاتل یونٹوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر گولی مار کر شہریوں کی ہلاکت کے بعد نازیوں نے بڑے پیمانے پر قتل کیلئے گیس سے لیس گاڑیوں کا استعمال کیا۔ یہ گیس گاڑیاں دراصل ایسے بند ٹرک تھے جن کے انجنوں کے اخراج کا رُخ ہوا بند سیل شدہ انداز میں گاڑی کے اندرونی حصے کی جانب تھا۔ گیس گاڑیوں کا استعمال اُس وقت شروع ہوا جب گشتی قاتل یونٹوں نے جنگی تھکن کی شکایت کی اور اُنہوں نے وسیع پیمانے پر بچوں اور عورتوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے سے ذہنی کوفت محسوس کی۔ زہریلی گیس سے ہلاک کرنے کی کارروائی کم خرچ بھی ثابت ہوئی۔ گشتی قاتل یونٹوں یا آئن سیٹزگروپن نے سینکڑوں افراد کو زہریلی گیس سے ہلاک کیا۔ اِن میں بیشتر یہودی، روما (خانہ بدوش) اور ذہنی طور پر معذور افراد تھے۔ 1941 میں ایس۔ ایس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہودیوں کو قاتل کیمپوں میں پہنچانا (تاکہ اُنہیں زہریلی گیس سے ہلاک کر دیا جائے) "حتمی حل" کے حصول کا کارگر طریقہ ہے۔ اُسی برس یعنی 1941 میں نازیوں نے پولینڈ میں چیلمنو کیمپ کھولا۔ پولینڈ کے لاڈز علاقے سے یہودیوں اور روما خانہ بدوشوں کو وہاں گشتی گاڑیوں میں ہلاک کر دیا گیا۔
1942 میں گیس چیمبرز میں وسیع پیمانے پر منظم قتل کا آغاز (ڈیزل انجنوں سے پیدا کی جانے والی کاربن مونوآکسائیڈ گیس سے) بیلزیچ، سوبی بور اور ٹریبلنکا میں ہوا۔ یہ تمام گیس چیمبر پولینڈ میں تھے۔ جب ہلاک کئے جانے والے افراد کو مویشی لانے والی گاڑیوں سے اتارا جاتا تو اُنہیں بتایا جاتا کہ اُنہیں شاور کے دوران (نہاتے ہوئے) جراثیم سے پاک کرنا ضروری ہے۔ نازی اور یوکرین کے گارڈ بعض اوقات قیدیوں پر چلاتے اور اُنہیں زدوکوب کرتے۔ اُنہیں حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے بازو اوپر اُٹھا کر "شاورز" یعنی "غسل خانوں" میں داخل ہوں تاکہ گیس چیمبروں میں زیادہ سے زیادہ افراد سما سکیں۔ گیس چیمبروں میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے اُتنی ہی جلدی اُن کا دم گھٹتا اور وہ ہلاک ہو جاتے۔
نازی مسلسل قتل کرنے کے مزید مؤثر طریقوں کی تلاش میں رہے۔ پولینڈ کے آشوٹز کیمپ میں اُنہوں نے ستمبر 1941 میں تقریباً 600 سوویت جنگی قیدیوں اور 250 بیمار قیدیوں کو زائکلون بی ( جو پہلے گیس کے ذریعے کیڑے مکوڑوں کو ہلاک کرنے کی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا) کے ذریعے ہلاک کرنے کا تجربہ کیا۔ زائکلون بی کی گولیاں ہوا لگنے سے زہریلی گیس کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ گیس کے ذریعے ہلاک کرنے کا یہ سب سے تیز طریقہ ثابت ہوا اور آشوٹز میں قتل عام کیلئے اسے استعمال کرنے کا انتخاب کیا گیا۔ یہودیوں کو کیمپ پہنچانے کی کارروائی کے عروج کے دنوں میں آشوٹز میں روزانہ چھ ھزار تک یہودیوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کیا جاتا رہا۔
اسٹٹتھوف، سیخ سین ھوزن اور ریوین بروئیخ جیسے حراستی کیمپ اگرچہ قتل گاہوں کے طور پر نہیں بنائے گئے تھے پھر بھی وہاں گیس چیمبر موجود تھے۔ یہ گیس چیمبر نسبتاً چھاوٹے تھے اور اُن قیدیوں کو ہلاک کرنے کیلئے تعمیر کئے گئے تھے جنہیں نازی کام کرنے کیلئے نااہل تصور کرتے تھے۔ اِن میں سے بہشتر کیمپ اپنے گیس چیمبروں میں قتل کیلئے زائکلون بی کا ہی استعمال کرتے تھے۔