ہم کیسے جانتے ہیں جو ہم جانتے ہیں

"نیورمبرگ مقدمے کا مقصد محض یا پھر اصولی طور پر نازی جرمنی کے لیڈروں سے اقبال جرم کرانا ہی نہیں تھا... اس کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ مجھےشروع ہی سے یہ لگا کہ اس کا مقصد ہٹلر کے دور حکومت کا ایک ریکارڈ تشکیل دینا تھا جو تاریخ کی کسوٹی پر پورا اُتر سکے "
—رابرٹ اسٹورے، سربراہ امریکی استغاثہ ٹیم

بین الاقوامی فوجی عدالت (آئی ایم ٹی) کے مقاصد فیصلے صادر کرنے اور سزا دلوانے سے کہیں ماورا تھے۔ عدالت کے تخلیق کار دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور اس کے حلیفوں کی جانب سے دل دہلا دینے والے جرائم کے ارتکاب کا ریکارڈ عمداً جمع کر رہے تھے جن میں ہولوکاسٹ کے جرائم بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے چیف پراسیکیوٹر رابرٹ جیکسن کو تشویش تھی کہ "جب تک ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا، مستقبل کی نسلیں یقین نہیں کریں گی کہ سچ کس حد تک خوفناک تھا۔"

شخصی گواہی پر خصوصی انحصار کے الزام سے بچنے کیلئے، جسے بعد کی نسلیں متعصبانہ تصور کر سکتی ہیں، پراسیکیوٹرز نے مقدمہ کی بنیاد مجموعی طور پر ان ہزاروں دستاویزات پر رکھنے کا فیصلہ کیا جو خود جرمنوں نے لکھی تھیں۔ ان ضخیم دستاویزات کا عدالت کی چار سرکاری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، ان کی اہمیت کیلئے ان کا تجزیہ کیا گیا اور استغاثہ کے وکلاء اور مقدمہ کے دیگر شرکاء میں تقسیم کے لئے ان کو دوبارہ مرتب کیا گیا۔ استغاثہ نے نمونے، ڈایاگرام، اور حراستی کیمپوں میں نازی فوٹوگرافروں کی طرف سے لی گئی تصاویر کے ذریعے دیگر ثبوت پیش کیے۔

مقدمہ کو تشکیل دینے کے لئے انیس تحقیقاتی ٹیموں نے جرمن ریکارڈز کا باریک بینی سے جائزہ لیا، گواہوں سے انٹرویو کیے اور مظالم کے مقامات کا دورہ کیا۔

نیورمبرگ میں پیش کردہ عینی شہادتوں نے معلومات کی وہ بنیاد رکھی جس کے حوالے سے ہم آجکل ہولوکاسٹ کے بارے میں جانتے ہیں۔اس میں آشوٹز میں قتل کی مشینری، آئینسیٹزگروپن (گشتی قاتل یونٹس) کی طرف سے کئے جانے والے ظلم و ستم ، وارسا یہودی بستی کی تباہی اور ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل کے شماریاتی تخمینے کی تفصیلات شامل ہیں۔