دوسری جنگ عظیم نے قومی وسائل پر بوجھ سمجھے جانے والے "غیرمطلوبہ افراد" کو قتل کرنے کے نئے پروگراموں کے لئے ایک بہانہ فراہم کردیا. 1920 کی دہائی میں چند ڈاکٹروں اور فانون سازوں کی طرف سے پیش کردہ دلائل کو استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے رحمانہ قتل کا لفظ استعمال کرکے قتل کا جواز فراہم کیا گیا اور سینکڑوں سیاسی پناہ کے اداروں کے ڈائریکٹروں، بچوں کے ڈاکٹروں، دماغی امراض کے ڈاکٹروں، فیملی ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھرتی کیا گیا۔ نسلی امتیاز کے اقدامات کی حیثیت سے رحمانہ قتل کو مسترد کرنے والوں نے بھی "دھرتی کی بہتری کے لئے" قتل کی حمایت کرنا شروع کردی۔

اس کا پہلا نشانہ جرمن شیرخوار اور بڑے بچے تھے۔ رائش کی وزارتِ داخلہ نے تمام دائیوں اور ڈاکٹروں کو ہدایات جاری کردیں کہ سنگین پیدائشی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کا اندراج کرایا جائے۔ تین ماہر ڈاکٹر ہر کیس کا جائزہ لیتے تھے اور عام طور پر بچوں کو دیکھے بغیر ہی قتل کے لئے منتخب کرلیتے تھے۔ سرکاری اہلکار بچوں کے والدین کو موت کی من گھڑٹ وجوہات بیان کردیتے۔ 1939 اور 1945 کے درمیان سرکاری ہسپتالوں اور کلینکوں میں قائم کردہ بچوں کے وارڈوں میں 5 ہزار سے زائد لڑکوں اور لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گيا۔

اجتماعی گیسنگ: آپریشن T-4
اکتوبر 1939 میں جب ہٹلر نے "ناقابل علاج" مریضوں کے لئے رحمانہ قتل کا اختیار دیا تو اس پروگرام کی توسیع کرکے اس میں بچوں کے علاوہ بڑوں کو بھی شامل کیا جانے لگا۔ آپریشین T-4- جس کا نام پروگرام کے صدر دفتربرلن کے مقام ٹیئر گارٹن شٹراسے - 4 میں واقع ہونے کی وجہ سے رکھا گیا تھا – اس کا نشانہ زیادہ تر نجی، سرکاری اور چرچ کی زیرنگرانی چلائے گئے اداروں میں بالغ مریض تھے۔ غیر سود مند سمجھے جانے والے افراد کو خاص طور پر خطرہ لاحق تھا۔ جنوری 1940 سے اگست 1941 کے درمیان 70ھزار سے زائد افراد کو جرمنی اور آسٹریا میں واقع خصوصی عملے کے ساتھ چھ سہولیات میں سے کسی ایک پر لے جا کر شاور کی طرح لگنے والے گیس چیمبروں میں گیس دے کر ماردیا گیا۔ قتل کی ان کارروائیوں کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگاہی اور بے چینی کی وجہ سے ہٹلر گیس دے کر مارنے کے پروگرام کو روکنے پر مجبور ہوگیا۔ رحمانہ قتل دوسری شکلیں اختیار کرنے لگے: ملک بھر کے ہسپتالوں اور دماغی امراض کے اداروں میں مریضوں کو بھوکا رکھ کر یا ضرورت سے زیادہ دوا دے کرماردیا جاتا تھا۔ 1939 اور 1945 کے درمیان مختلف رحمانہ قتل کے پروگراموں میں ایک اندازے کے مطابق 2 لاکھ کے لگ بھگ افراد مارے گئے۔

مقبوضہ پولینڈ میں نسلی صفائی

جہاں جرمن رائش ميں خفیہ رحمانہ قتل کے پروگرام چل رہے تھے، ھائن رش ھملر کی قیادت میں ایس ایس کے اہلکار مقبوضہ پولینڈ میں مفروضے کے طور پر حیاتیاتی خطرات سمجھے جانے والے افراد کو دہشت زدہ کر رہے تھے یا پھر ختم کر رہے تھے۔ ھملر، جسے ہٹلر نے نسلی اعتبار سے پولینڈ کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی، اس کی کوشش یہ تھی کہ پولینڈ کے باشندوں کی حالت اپنے جرمن "مالکان" کی غلامی کرنے والے مزدوروں کی طرح کردے۔ نازی منصوبوں کے تحت پولینڈ کے سیاسی راہنماؤں اور دانشوروں کو اجتماعی قتل وغارت یا گرفتاری کے ذریعے ختم کیا گیا؛ پولینڈ کے باشندوں، یہودیوں اور روما (خانہ بدوشوں) کو جلاوطن کرکے مملکت میں ضم کردہ علاقوں سے باہربھیجا گیا؛ دوبارہ آباد ہونے والے جرمنوں نے نوآبادکاری کی اور نسلی اعتبار سے اہم پولز کو جرمن بنایا گیا۔ نسلی صفائی میں تربیت یافتہ سینکڑوں ماہرین نے ہزاروں افراد کی جینیاتی اورنسلی "موژونیت" کی پڑتال کی۔

جرمنی کے باشندے پولینڈ سے تعلق رکھنے والے اور دیگر یہودیوں کو "انسانوں سے نچلی ذات" سمجھ کر حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ 1939 کے موسم خراں سے لے کر 1941 کے موسم گرما تک نازیوں نے بیس لاکھ کے قریب یہودیوں کو شہروں اور قصبوں میں جمع کرنے کے بعد انہيں نشان زد حصوں یا یہودی بستیوں میں علیحدہ کردیا۔ وارسا اور دوسرے شہروں میں سیل شدہ یہودی بستیاں بنانے کا کچھ دباؤ جرمنی کے عوامی صحت کے افسران کی طرف سے آیا جنہوں نے یہودیوں کو ٹائفس اور دوسری بیماریوں کے پھیلاؤ سے وابستہ قرار دیا۔

یہودیوں کا اجتماعی طور پر گیس کے ذریعے قتل
نازیوں کی طرف سے نسلی صفائی کے نتیجے میں یورپ کی یہودی برادری تقریباً مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ "یہودی مسئلے کے حتمی حل" کی شروعات میں ایس ایس اور پولیس کے خصوصی سکواڈ نے جرمن فوج کے پیچھے سوویت یونین جا کردس لاکھ سے زائد یہودیوں کو کھل عام گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ لیکن مردوں، عورتوں اور بچوں کو آمنے سامنے گولی ماردینے کے نتیجے میں میدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ھائین رش ھملر نے فتل کرنے کے "زیادہ صاف" اور "زیادہ مؤثر" طریقہ تلاش کرنا شروع کیا۔ اس نے رحمانہ قتل کے پروگرام کے بارے میں سوچ کر گیس کے ذریعے قتل کرنے کا پروگرام شروع کیا۔ تاہم یہ قتلِ عام زیادہ وسیع پیمانے پر شروع کیا گیا۔

تقریبا بیس لاکھ افراد کو، جن کی اکثریت پولش یہودیوں پر مشتمل تھی، قتل کے لئے چیلمنو، سوبی بور، ٹریبلنکا اور بیلزیک جو مقبوضہ اور ملحق پولینڈ میں الگ تھلگ کیمپ تھے، جہاں متعین کیا گیا T-4 کا عملہ گیس کی تنصیبات اور لاشیں جلانے کی بھٹیوں کو چلاتا تھا۔ آش وٹز اور برکیناؤ میں جرمنی کے مقبوضہ علاقوں سے جلاوطن ہونے والے دس لاکھ سے زائد یہودی ختم ہوگئے۔ نازی ڈاکٹروں نے صحت یاب بالغان کو جبری مشقت کے لئے منتخب کیا۔ یہ موت سے بچاؤ کی ایک عارضی صورت تھی جس کے بعد بالغان اور بچوں دونوں کو کیمپ پر ہونے والے نسلی طور پر نس بندی کرنے اور جینیاتی تحقیق کے تجربات کیلئے استعمال کیا گیا۔

جنگ کے بعد نازیوں کی نسلی صفائی کی پالیسیوں کو مختلف طریقوں سے برتنے اور انہيں قانونی قرار دینے میں مدد فراہم کرنے والے بائیومیڈیکل ماہرین میں سے کسی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی اُن سے اپنے اعمال کی وجہ سے کسی بھی قسم کی جواب دہی طلب کی گئی۔ زیادہ تر اپنے پیشوں پر بھی قائم رہے۔