1933 اور 1945 کے درمیان کئی ہزار لوگوں نے تشدد اور عدم تشدد کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے نازیوں کے خلاف مزاحمت کی۔ نازیوں کے ابتدائی مخالفوں میں کمیونسٹ، سوشلسٹ اور ٹریڈ یونینوں کے راہنما شامل تھے۔ اگرچہ بڑے دھارے کے چرچ سے متعلقہ دینی رہمناؤں نے نازی نظام سے تعاون کیا یا پھر اس کی پالیسیوں سے اتفاق کیا لیکن انفرادی طور پر ڈائٹرخ بون ہوفر جیسے جرمن مذہبی ماہرین نے اِس نظام کی مخالفت کی۔ بون ہوفر کو1945 میں پھانسی دے دی گئی۔ جرمنی کے امراء کے قدامت پسند طبقے اور جرمن فوج کے جنرل اسٹاف میں چند ایسے چھوٹے گروپ موجود تھے جو نازی حکومت کے مخالف تھے۔ جولائی 1944 میں ان لوگوں کے ایک اتحاد نے اڈولف ہٹلر کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

جرمنی کے باہر نازیوں کے دیگرمقبوضہ علاقوں میں بھی مزاحمت ہوئی۔ فرانس میں جنرل چارلس ڈی گال نے دشمنوں سے تعاون کرنے والی وشی حکومت کے خلاف کھلی مزاحمت پر زور دیا تھا۔ اپریل 1940 میں ڈنمارک پر جرمنوں کے قبضے کے بعد وہاں ایک مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔ ان کی سرگرمیوں میں مخبروں کو جان سے مار دینا، جرمنی کی فوجی تنصیبات پر حملہ کرنا اور ریلوے لائنوں کو سبوتاج کرنا شامل تھا۔ فروری 1941 میں ڈچ لوگوں نے یہودیوں کے ساتھ وحشی سلوک اور انکو گرفتار کرنے کے خلاف احتجاج میں عام ہڑتال شروع کر دی۔ تما متر یورپی ممالک میں زیر زمین مزاحمتی تحریکوں نے خطروں میں گھرے لوگوں کو جعلی دستاویزات مہیا کیں یا چھپنے کے لئے محفوظ مقامات اور بھاگنے کے راستوں کا انتظام کیا۔

سویت یونین، چیکوسلواکیا، یوگوسلاویہ، یونان اور پولنڈ میں پارٹی کے نام سے موسوم چھاپہ ماروں نے مسلح مزاحمت اور نازیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ مئی 1942 میں چیک ایجنٹوں نے بوہیمیا اور موراویا کے نازی گورنر رائن ہارڈ ہیڈرچ کو قتل کر دیا۔ بدلے میں نازیوں نے چیک گاؤں لیڈٹز کے تمام مردوں کو مار ڈالا۔ اگست 1944 میں پولنڈ کی اندرونی فوج نے بغاوت شروع کر دی جسے بعد میں وارسا پولس بغاوت کے نام سے جانا گیا۔ نازیوں نے دو مہینوں کے اندر بغاوت کچل دی۔ اسی ماہ کے دوران سلاوک حامیوں نے جرمنی نواز ہلنکا حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد یعنی سلاوک قومی جدوجہد شروع کر دی۔

یہودیوں کی مزاحمت کے علاوہ نشانہ بننے والے دوسرے گروپوں نے بھی نازیوں کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع کر دی۔ مئی 1944 میں ایس ایس کے اہلکاروں نے روما خانہ بدوش قیدیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیرکوں کو چھوڑ کر آشوٹز خانہ بدوش خاندانوں کے کیمپ میں چلے جائیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ اُنہیں گیس چیمبروں میں مرنے کیلئے بھیج دیا جائے۔ چاقوؤں اور کلہاڑوں سے لیس ان روما خانہ بدوشوں نےجانے سے انکار کردیا اور یوں ایس ایس کے اہلکار پیچھے ہٹ گئے۔ روحانی مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرمنی اور دوسری جگہوں کے جہوواز وھٹنس کے پیروکاروں نے عدم تعاون کے ذریعے مزاحمت کی۔ ان میں سے کچھ نے جرمن فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا اور جبری مشقت کے کیمپوں میں مذہبی تعلیم کے غیر قانونی گروپ منظم کئے۔

دوسری غیر متشدد مزاحمتوں میں یہودیوں کو پناہ دینا (بعض اوقات موت کے خطرہ کے ساتھ)، اتحادیوں کی ممنوعہ نشریات سننا اور نازیوں کے خلاف خفیہ اخبارات شائع کرنا شامل تھے۔ نازیوں کے ظلم و ستم کے سامنے مزاحمت کی سرگرمیوں نے بعض اوقات جرمن سرگرمیوں میں خاصی حد تک رکاوٹ ڈالی، زندگیوں کو بچایا یا پھر محض ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کا حو صلہ بڑھایا۔ مذید مطالعہ کیلئےاینٹ ڈمباخ اور جڈ نیو بورن۔ "سوفی شول اینڈ دا وھائیٹ روز"۔ آکسفورڈ: ون ورلڈ، 2006پیئر جالانٹ اور یوجین سیلیانوف۔ "آپریشن ولکائری: دا جرمن جنرلز پلاٹ اگینسٹ ہٹلر"۔ نیو یارک: کوپر اسکائر پریس، 2002فرینک میک ڈونو۔ "آپوزیشن اینڈ رزسٹینس اِن نازی گرمنی"۔ کیمبریج: کیمبریج یونیورسٹی پریس، 2001ھانس مومسین۔ "آلٹرنیٹوز ٹو ہٹلر: جرمن رزسٹینس انڈر دا تھرڈ ریخ"۔ پرنسٹن: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2003باب مور۔ "رزسٹینس اِن ویسٹرن یورپ"۔ آکسفورڈ: برگ، 2000