ہالوکاسٹ کے دوران حراستی کیمپوں کے قیدیوں پر ٹیٹو نشان صرف ایک ہی مقام پر لگائے جاتے تھے اور وہ آش وٹز کیمپ کامپلیکس تھا جس میں مرکزی کیمپ، آش وٹز نمبر ایک، آش وٹز نمبر دو یعنی آش وٹز برکیناؤ اور آش وٹز نمبر تین جس میں مونووٹز اور ذیلی کیمپ شامل تھے۔ یہاں آنے والے ہر قیدی کو کیمپ کا ایک سیریل نمبر دیا جاتا جو اُ ن کے قیدی یونیفارم کے بازو پر سی دیا جاتا تھا۔ جن قیدیوں کو کام کیلئے منتخب کیا جاتا تھا صرف اُنہی کو سیریل نمبر دئے جاتے تھے۔ جن قیدیوں کو براہ راست گیس کی بھٹیوں میں لے جایا جاتا تھا اُنہیں کوئی نمبر نہیں دیا جاتا تھا اور نہ ہی کوئی ٹیٹو نشان لگائے جاتے تھے۔

ابتداء میں ایس ایس حکام اُن قیدیوں پر نشان لگاتے جو ظبی مرکز میں تھے یا پھر جنہیں سزائے موت ملنا ہوتی، اُن کے سینے پر کیمپ کا سیریل نمبر لکھا جاتا تھا۔ جب اِن قیدیوں کو ہلاک کر دیا جاتا تو کیمپ سیریل نمبر والے اُن کے کپڑے اتار دئے جاتے۔ کیمپ پر ہلاکتوں کی تعداد بتانے اور پھر کپڑے اتارنے کے بعد ان لاشوں کی شناخت کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ چنانچہ ایس ایس حکام نے اندراج کئے گئے قیدیوں کی لاشوں کی شناخت کیلئے ٹیٹو نشان بنانے کا طریقہ اختیار کر لیا۔

ابتداء میں ایک مخصوص دھاتی اسٹیمپ (جس میں لگائے جانے والے نمبر بدلے جا سکتے تھے) سوئیوں سے بنائی جاتی تھی۔ یہ سوئیاں تقریباً ایک سینٹی میٹر لمبی ہوتی تھیں۔ اس کی مدد سے سیریل نمبر کو ایک ہی جھٹکے میں قیدی کے سینے کی بائیں جانب اوپر کی طرف جڑ دیا جاتا اور پھر خون رستے زخم میں سیاہی بھر دی جاتی تھی۔

جب دھاتی اسٹیمپ کا طریقہ عملی نہ رہا تو پھر ایک ہی سوئی والے آلے کو متعارف کرایا گیا جس سے سیریل نمبر کے ہندسوں کو جلا کر اندر کھود دیا جاتا۔ پھر اس ٹیٹو نشان کی جگہ تبدیل کر کے بائیں بازو کےاوپری حصے میں باہر کی جانب کھود دیا جاتا۔ لیکن 1943 میں کئی قیدیوں کے نمبر اُن کے بائیں بازو کے اوپر کے حصے میں اندرونی جانب کھودے جاتے۔ ٹیٹو یا پھر جلد پر نشان کھودنے کا عمل عام طور پر اندراج کے وقت کیا جاتا جب ہر قیدی کو کیمپ کا سیریل نمبر دیا جاتا تھا۔ گیس کی بھٹیوں میں براہ راست جھونکے جانے والے قیدیوں کو نمبرنہیں دئے جاتے تھے اور اُن کے جسموں پر کبھی نشان نہیں کھودے جاتے تھے۔

آش وٹز میں ٹیٹو بنانے یعنی نشان کھودنے کا طریقہ 1941 کے موسم خزاں میں متعارف ہوا۔ جب ھزاروں کی تعداد میں سوویت جنگی قیدی کیمپ پہنچے اور ھزاروں موت میں منہ میں چلے گئے۔ ایس ایس حکام نے شناختی عمل کیلئے قیدیوں پر نشان کھودنے کا آغاز کیا۔ آش وٹز نمبر دو یعنی برکیناؤ میں ایس ایس عملے نے مارچ 1942 میں ٹیٹو نشان بنانے شروع کر دئے تاکہ وہاں آنے والے قیدیوں کی بڑی تعداد کی شناخت کی جا سکے جو اس کیمپ میں پہنچنے کے بعد ہی بیمار ہوئے اور پھر فوری طور پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس وقت تک آش وٹز میں اندراج کئے جانے والے قیدیوں کی اکثریت یہودی تھی۔ 1943 کے موسم بہار میں ایس ایس حکام نے تمام آش وٹز کامپلیکس میں پہلے سے اندراج شدہ اور نئے آنے والے قیدیوں پر ٹیٹو نشان بنانے کا عمل شروع کیا۔ اِن میں خواتین قیدی بھی شامل تھیں۔ اِس نشان زدگی سے مُستثنٰی صرف وہ افراد تھے جو قومیت کے اعتبار سے جرمن تھے یا پھر ری ایجوکیشن یعنی وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور کئے جانے والے قیدی تھے جنہیں الگ احاطے میں رکھا گیا۔ ری ایجوکیشن قیدی اور لیبر ایجوکیشن قیدی یورپی قومیتوں والے غیر یہودی قیدی تھے۔ (لیکن آش وٹز میں بنیادی طور پر جرمن، چیچک، پولش اور سوویت شہری رکھے گئے تھے) جو جرمن کنٹرول والے علاقوں میں شہری مزدوروں پر لاگو کئے گئے سخت اور کڑے لیبر نظام سے بھاگ نکلے تھے۔

قیدیوں کے نمبروں کا پہلا سلسلہ مئی 1940 میں متعارف ہوا جو نشان زدگی کے آغاز سے بہت پہلے کی بات ہے۔ نمبروں کا پہلا سلسلہ مرد قیدیوں کیلئے مختص ہوا اور جنوری 1945 تک استعمال میں رہا۔ اِس کا اختتام 202,499 پر ہوا۔ وسط مئی 1944 تک مرد یہودی قیدیوں کو اس سلسلے سے ہی نمبر مخصوص کئے گئے۔ اندراج کے نمبروں کا ایک نیا سلسلہ اکتوبر 1941 میں متعارف ہوا اور 1944 تک زیر استعمال رہا۔ اِس سیریز سے تقریباً 12 ھزار سوویت قیدیوں کو نمبر دئے گئے (بعض جنگی قیدی آش وٹز میں قتل ہو گئے جن کا اندراج کبھی نہیں ہوا اور اُن کو کبھی کوئی نمبر الاٹ نہیں ہوا)۔ نمبروں کا تیسرا سلسلہ یا سیریز مارچ 1942 میں متعارف ہوئی جب خاتون قیدیوں کی آمد شروع ہوئی۔ تقریباً 90,000 خواتین قیدیوں کیلئے نمبروں کا ایک ایسا سلسلہ مختص ہوا جو مارچ 1942 میں خواتین قیدیوں کیلئے بنایا گیا۔ یہ سیریزمئی 1944 تک زیر استعمال رہی۔ آش وٹز میں متعارف کرائے جانے والے نمبروں کا ہر نیا سلسلہ "1" سے شروع ہوا۔ بعض یہودی قیدیوں پر (سب کو نہیں) اُن کے سیریل نمبر کے نیچے تکونے نشان کھودے گئے۔

عام سیرہز سے بہت زیادہ نمبروں والے سلسلے سے بچنے کیلئے ایس ایس حکام کو 1944 میں نیا سلسلہ متعارف کرانا پڑا جب ھنگری کے یہودی بڑی تعداد میں وہاں پہنچے۔ وسط مئی 1944 میں نمبروں کا یہ نیا سلسلہ متعارف ہوا۔ یہ سلسلہ حرف A کے ساتھ "1" سے شروع ہوا اور اِس کا اختتام 20,000 پر ہوا۔ جب یہ سیریز 20 ھزار تک پہنچی تو پھر ایک نئی سیریز حرف B کے ساتھ متعارف ہوئی۔ تقریباً 15 ھزار قیدیوں کو B کے ساتھ نمبر مختص کئے گئے۔ وجہ معلوم نہیں لیکن عورتوں کیلئے A کے ساتھ شروع ہونے والی سیریز 20 ھزار پر ختم نہیں ہوئی بلکہ 30 ھزار تک جاری رہی۔

جنوری 1942 میں نمبروں کے ایک الگ سلسلے کا آغاز ری ایجوکیشن قیدیوں کیلئے ہوا جن کو جنرل سیریز سے نمبر مختص نہیں کئے گئے تھے۔ اس نئی سیریز سے نمبر اُن ری ایجوکیشن قیدیوں کو دئے گئے تھے جو ہلاک ہوگئے تھے یا پھر اُنہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ اِن کے جنرل سیریز کے پرانے نمبر اُن نئے "جنرل" قیدیوں کو الاٹ کر دئے گئے۔ یہ آش وٹز کی تاریخ میں واحد مثال تھی جب نمبروں کو دوبارہ استعمال کیا گیا۔ تقریباً 9 ھزار قیدیوں کا ری ایجوکیشن سیریز میں اندراج کیا گیا اور وہ بھی نمبر "1" سے شروع ہوئی۔ اِس سیریز میں تقریباً 2 ھزار سیریل نمبر تھے۔

فروری 1943 میں ایس ایس حکام نے آش وٹز میں اندراج کئے جانے والے روما (خانہ بدوش) قیدیوں کو نمبروں کی دو الگ سیریز جاری کیں۔ اِن میں سے ایک عورتوں کیلئے اور ایک مردوں کیلئے مخصوص ہوئی۔ اگست 1944 تک پرانی سیریز سے 10,094 نمبر اور اُس کے بعد دوسری سیریز سے 10,888 نمبر جاری ہوئے۔ خانہ بدوش قیدیوں کو سیریل نمبر کے ساتھ حرف Z (خانہ بدوشوں کے جرمن زبان میں لفظ زیگیونر ہے) دیا گیا۔

کیمپ حکام نے مزید 4 لاکھ سے زائد قیدی سیریل نمبر مختص کئے(اِن میں تقریباً 3 ھزار نمبروں کی گنتی شامل نہیں جو اُن پولیس قیدیوں کو دئے گئے جو جیلوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث آش وٹز میں لائے گئے تھے اور قیدیوں کی فہرست میں روزمرہ کی گنتی میں شامل نہیں تھے)۔