پورے جرمن مقبوضہ یورپ میں جرمنوں نے ان لوگوں کو گرفتار کیا جنھوں نے ان کے تسلط کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور جنہیں نسلی یا سیاسی اعتبار سے کم تر سمجھا گيا۔ جرمن تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو زیادہ تر جبری مشقت کے کیمپوں یا حراستی کیمپوں میں بھجوا دیا گیا۔ جرمنوں نے تمام تر مقبوضہ یورپی علاقوں سے یہودیوں کو جلا وطن کر کے پولینڈ میں واقع قتل کے مراکز میں بھجوا دیا جہاں اُنہیں منظم طریقے سے قتل کر دیا گیا یا پھر اُنہیں حراستی کیمپوں میں منتقل کیا گیا جہاں اُنہیں جبری مشقت کیلئے استعمال کیا گیا۔ مغربی یورپ میں واقع ویسٹربورک، گورز، میشیلن اور ڈرینسی عبوری کیمپوں اور اٹلی میں قائم بولزینو اور فوسولی ڈی کیپری حراستی کیمپوں کو یہودیوں کو جمع کرنے کے مراکز کے طور پر استعمال کیا گیا جنہیں بعد میں ریل گاڑیوں کے ذریعے قتل کے مراکز میں منتقل کیا گیا۔ ایس ایس رپورٹوں کے مطابق جنوری 1945 میں حراستی کیمپوں میں رجسٹرڈ قیدیوں کی تعداد سات لاکھ سے زائد تھی۔
آئٹم دیکھیںجرمنی میں پہلے حراستی کیمپ ایڈولف ہٹلر کے جنوری سن 1933 میں چانسلر بننے کے بعد ہی قائم کئے گئے۔ اسٹارم ٹروپرز (ایس اے) اور پولیس نے فروری 1933 سے یہ حراستی کیمپ قائم کرنے شروع کئے۔ یہ کیمپ اُں لوگوں کو قید میں رکھنے کیلئے بنائے گئے تھے جنہیں مبینہ طور پر حکومت کا سیاسی مخالف ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ کیمپ جرمنی بھر میں مقامی سطح پر قائم کئے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کیمپوں کی اکثریت کو بند کر کے ان کی جگہ مرکز کے تحت منظم کئے جانے والے کیمپ قائم کئے گئے جو ایس ایس (شٹز اسٹیفل؛ نازی ریاست کے ایلیٹ گارڈ) کی براہ راست نگرانی میں کام کرتے تھے۔ ڈاخاؤ وہ واحد حراستی کیمپ تھا جو 1933 میں قائم ہوا اور 1945 تک جاری رہا۔ یہ نازی حراستی کیمپوں کیلئے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا تھا جنہوں نے پرانے کیمپوں کی جگہ لی تھی۔
آئٹم دیکھیںنازی کیمپوں کا نظام ستمبر 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے بعد برابر بڑھتا گیا کیونکہ جنگی سازوسامان کی پیداوار کیلئے جبری مشقت کی اہمیت بڑھ گئی۔ 1942-1943 میں اسٹالنگراڈ کی جنگ میں جرمنی کی ناکامی کے بعد جرمنی کی جنگی معیشت میں مزدوروں کی کمی ایک خطرہ بن گئی۔ اس کی وجہ سے حراستی کیمپوں کے قیدیوں کو جرمن فوجی کارخانوں میں بطور جبری مزدور استعمال کرنے کا رجحان بڑھ گيا۔ خاص طور پر 1943 اور 1944 میں سینکڑوں ذیلی کیمپ صنعتی علاقوں کے اندر یا اس کے قریب قائم کئے گئے۔ ذیلی کیمپ عام طور پر وہ چھوٹے کیمپ ہوتے تھے جو اصل کیمپوں کی انتظامیہ کے تحت ہوتے تھے اور جو ان کو قیدیوں کی مطلوبہ تعداد مہیا کرتے تھے۔ پولینڈ میں آشوٹز، وسطی جرمنی میں بوخن والڈ، مشرقی جرمنی میں گروس روزن،مشرقی فرانس میں نیٹزویلر سٹرٹ ھاف، برلن کے قریب ریونزبروئک اور بالٹک کوسٹ پر ڈینزگ کے قریب شٹٹ ھاف جیسے کیمپ جبری مشقت کے ذیلی کیمپوں کے بہت بڑے نیٹ ورکوں کے انتظامی مراکز بن گئے۔
آئٹم دیکھیںجرمنی میں اولین حراستی کیمپ ہٹلر کے جنوری سن 1933 میں چانسلر بننے کے بعد ہی قائم کئے گئے۔ اسٹارم ٹروپرز (ایس اے) اور پولیس نے یہ حراستی کیمپ ایسے لوگوں سے نمٹنے کیلئے قائم کئے جنہیں حکومت کا مخالف خیال کیا گیا۔ یہ تمام کیمپ جرمنی بھر میں مقامی سطح پر قائم کئے گئے۔ رفتہ رفتہ ان کیمپوں میں سے اکثر کو بند کر کے ان کی جگہ مرکز کے تحت حراستی کیمپ قائم کئے گئے۔ یہ کیمپ ایس ایس (شٹزاسٹیفل؛ یعنی نازیوں کے ایلیٹ گارڈ) کے مکمل دائرہ اختیار میں تھے۔ 1939 تک سات بڑے حراستی کیمپ قائم کئے جا چکے تھے۔ ڈاخاؤ کے علاوہ یہ کیمپ برلن کے شمال میں سیخسین ھاؤسن (1936)، وائمر کے قریب بوخن والڈ (1937)، ہیمبرگ کے نزدیک نیوئن گامے (1938)، فلوسینبیوئرگ (1938)، ماؤٹہوسن (1938) اور ریوینزبروئک (1939) تھے۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.