سن 1933 اور 1945 کے درمیان نازی جرمنی نے اپنے کئی ملین نشانہ بننے والوں کے لئے تقریبا 20،000 کیمپ قائم کئے۔ یہ کیمپ کئی مقاصد کو پورا کرنے کیلئے استعمال کئے جاتے تھے جس میں جبری مشقت کے کیمپ، عارضی وے اسٹیشن کے طور پر استعمال ہونے والے ٹرانزٹ کیمپ اور بنیادی طور پر یا مکمل طور پر اجتماعی قتل کے لئے استعمال ہونے والے کیمپ بھی شامل تھے۔ جرمنوں اور ان کے مدد گاروں نے قتل گاہوں میں ہی تیس لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو ہلاک کر دیا۔ نازی کیمپوں میں قید صرف تھوڑے لوگ ہی بچ سکے۔ ابتدائی حراستی کیمپوں میں زیادہ تر قیدی جرمن کمیونسٹ، سوشلسٹ، اجتماعی ڈیموکریٹس، رومی (خانہ بدوش)، یہووا کے گواہ، ہم جنس پرست اور وہ لوگ جن پر جنسی انحراف کا الزام تھا۔ ان سہولیات کو "حراستی کیمپ" کے نام سے جانا جاتا تھا کیوںکہ اس میں قیدیوں کو جسمانی طور پر ایک ہی جہت میں ارتکاز کرنا پڑتا تھا۔ ستمبر 1939 میں پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد نازیوں نے جبری مشقت کے کیمپوں کو کھولا جہاں ہزاروں قیدی تھکاوٹ، بھوک ، اور کھلے پن کی وجہ سے جان بحق ہو گئے۔

"فائنل حل" کو آسان کرنے کیلئے (یہودیوں کی نسل کشی یا اجتماعی قتل و غارت)، نازیوں نے پولینڈ میں، جہاں یہودیوں کی سب سے زیادہ آبادی تھی، اجتماعی قتل گاہوں کے مراکز قائم کئے۔ قتل گاہوں کے مراکز کو فعال اجتماعی قتل کیلئے بنایا گيا تھا۔ چیلمنو پہلی قتل گاہ تھی جسے سن 1941 میں قائم کیا گیا تھا، جہاں یہودیوں اور رومیوں کو گیس سے مار دیا گیا۔ سن 1942 میں نازیوں نے مقبوضہ پولینڈ کے اندرونی علاقے کے یہودیوں کو منظم طریقہ سے مارنے کیلئے بیلزیک، سوبی بور اور ٹریبلنکا قتل گاہیں کھولیں۔ نازیوں نے مارنے کی کارروائی تیز کرنے کیلئے نیز مجرموں کو بغیر کسی جذبے کے مارنے کے عمل کو تیز کرنے کیلئے گیس چیمبر بنائے (وہ کمرے جس میں موجود لوگوں کو مارنے کیلئے زہریلی گیس بھر دی جاتی تھی)۔ آشوٹز کیمپ کی عمارت میں برکیناؤ اجتماعی قتل گاہ میں چار گیس چیمبر تھے۔ کیمپ کی طرف تیز جلاوطنی کے دوران 6،000 سے زیادہ یہودیوں کو روزانہ گیس سے مار دیا جاتا تھا۔ یہودی نازیوں کی مقبوضہ علاقہ جات میں کبھی پہلے ٹرانزٹ کیمپوں کی جانب مثلا نیدرلینڈ میں، ڈرانچی فرانس میں جلاوطن کئے جاتے تھے، جہاں سے انہیں مقبوضہ پولینڈ کی قتل گاہوں میں لے جایا جاتا تھا۔ عام طور پر قتل گاہوں کی طرف جلاوطنی سے پہلے سب سے آخری مرحلہ ٹرانزٹ کیمپ ہوا کرتے تھے۔