سن 1933 اور 1939 کے درمیان جرمنی میں یہودیوں کو گرفتار کرنے، انکا اقتصادی بائیکاٹ کرنے، شہریت اور شہری حقوق سے محروم کرنے، حراستی کیمپوں میں قید کرنے، تشدد کرنے اور منظم قتل کے پوگروم کرسٹل ناخٹ ("ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات") کا شکار بنایا گيا۔ یہودیوں نے نازیوں کے اس ظلم و ستم پر متعدد طریقوں سے رد عمل ظاہر کیا۔ جرمن معاشرے سے زبردستی الگ کر دینے کے بعد جرمن یہودی خود اپنے اداروں اور سماجی تنظیموں کی جانب راغب ہوئے اور اُنہوں نے اُنہیں وسعت دی۔ تاہم بڑھتے ہوئے مظالم اور جسمانی تشدد کے نتیجے میں بہت سے یہودی جرمنی سے فرار ہو گئے۔ اگر امریکہ اور برطانیہ یہودیوں کو قبول کرنے پر تیار ہوتے تو مزید یہودی بھی جرمنی چھوڑنے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔
آئٹم دیکھیںجرمن یہودیوں کی خراب صورت حال، جس میں ملک کے اندر اُن پر ظلم و ستم روا رکھا گیا اور ملک کے باہر وہ ناقابل قبول قرار پائے، ایس ایس "سینٹ لوئس" کے سفر سے اس کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ 13 مئی 1939 کو ایک جرمن جہاز ایس ایس "سینٹ لوئس" تقریباً ایک ھزار جرمن یہودیوں کو لیکر جرمنی سے روانہ ہوا۔ ان مہاجرین کی منزل کیوبا تھی لیکن کیوبا پہنچنے سے قبل ہی کیوبا کی حکومت نے اُن کا ملک میں داخلے کا اجازت نامہ ہی منسوخ کر دیا۔ "سینٹ لوئس" جون 1939 میں یورپ لوٹ جانے پر مجبور ہو گیا۔ تاہم برطانیہ، فرانس، بیلجیم اور نیدرلینڈ نے ان پھنسے ہوئے مہاجرین کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ جب جرمن فوجوں نے 1940 میں مغربی یورپ پر قبضہ کر لیا تو "سینٹ لوئس" کے بہت سے مسافر اور دیگر یہودی پناہ گذیں جو ان ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے، نازیوں کی طرف سے یورپ کے یہودیوں کے قتل عام کے منصوبے حتمی حل کا شکار ہو گئے۔
آئٹم دیکھیںجرمن مقبوضہ یورپ کے تمامتر علاقوں میں جرمنوں نے یہودیوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر کے اُنہیں مقبوضہ پولینڈ میں قائم قتل کے مراکز میں جلاوطن کرنا شروع کر دیا۔ کچھ یہودی چھپ جانے کے باعث یا جرمنی کے زیر کنٹرول یورپ سے فرار ہو کر بچ جانے میں کامیاب ہو گئے۔ مقبوضہ یورپ سے فرار کے کچھ راستے مخالف ریاستوں (مثلاً سوویت یونین)، غیر جانبدار ریاستوں (مثلاً سوٹزرلینڈ، اسپین، سویڈن اور ترکی) اور اُن ریاستوں کی جانب بھی لے جاتے تھے جو جرمن حلیف تھیں (مثلاً جرمنی کے قبضے میں آنے سے پہلے اٹلی اور ہنگری)۔ سوویت یونین پر جرمن حملے کے بعد دس لاکھ سے زائد سوویت یہودی پیش قدمی کرتے ہوئے جرمنوں سے بچ کر مشرق کی جانب فرار ہو گئے۔ مزید ھزاروں یہودی بلغاریہ اور رومانیہ میں بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے روانہ ہو کر بحفاظت فلسطین پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
آئٹم دیکھیںدوسری جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی لاکھوں بچ جانے والے یہودی بے گھر لوگوں کے کیمپوں میں رہے۔ اتحادیوں نے ایسے کیمپ اپنے مقبوضہ جرمنی، آسٹریا اور اٹلی میں ان پناہ گزینوں کیلئے قائم کئے تھے جو یورپ سے روانگی کے انتظار میں تھے۔ اکثر یہودی بے گھر افراد نے یورپ کو چھوڑ کر فلسطین ہجرت کرنے کو ترجیح دی لیکن بہت سے یہودی امریکہ بھی جانا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے اُس وقت تک بے گھر افراد کے کیمپوں میں رہنے کا فیصلہ کیا جب تک کہ وہ یورپ سے روانہ نہ ہو پائیں۔ 1946 کے اختتام تک یہودی بے گھر افراد کی تعداد تقریباً 250،000 تھی جس میں سے 185،000 جرمنی میں، 45،000 آسٹریا میں اور 20،000 اٹلی میں تھے۔ اکثر بے گھر یہودی پولینڈ کے پناہ گزین تھے۔ ان میں سے بہت سے جنگ کے دوران جرمنی سے بھاگ کر سوویت یونین کے داخلی حصوں کی طرف چلے گئے۔ دوسرے بے گھر یہودی چیکوسلواکیہ، ہنگری اور رومانیہ سے آئے تھے۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.