نازی جرمنی میں نسلی عصبیت کے بڑھتے ہوئے اقدامات کے باعث بہت سے یہودی اور حدف بننے والے دیگر افراد ملک چھوڑنے کی کوشش پر مجبور ہو گئے۔ سن 1933 میں نازی پارٹی کے اقتدار میں آنے سے لیکر 1939 تک تین لاکھ سے زیادہ یہودی جرمنی اور آسڑیا سے ہجرت کر گئے

تاہم بہت سے لوگوں کے لئے کوئی محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنا نہایت ہی مشکل تھا۔ مغربی قومیں پناہ گزینوں کے امڈتے سیلاب سے گھبرا گئیں، خاص طور پر کرسٹل ناخٹ (نومبر 9-10, 1938 کے "ٹوٹے ہوئے شیشے کی رات") کی اصطلاح سے موسوم منظم قتلِ عام کے بعد۔ اگرچہ 85 ھزار یہودی مہاجرین مارچ 1938 اور ستمبر 1939 کے درمیان امریکہ پہنچے تاہم بہت سے مہاجرین کیلئے امریکہ میں امیگریشن کی پابندیوں کے باعث یہ تعداد امیگریشن کے خواہشمندوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ سن 1938میں مہاجرین کی صورتِ حال پر غور کرنے کیلئے 32 ملکوں کی ایوین کانفرنس منعقد ہوئی ۔ کانفرنس کے دوران جمہوریہ ڈومینکن کے علاوہ کوئی بھی ملک مہاجرین کا کوٹہ بڑھانے کیلئے تیار نہیں تھا۔ سن 1939 میں کیوبا اور امریکہ دونوں نے اُن 900 مہاجرین کو لینے سے انکار کردیا جو ہیمبرگ جرمنی سے بحری جہاز کے ذریعے پہنچے تھے۔ اِن میں سے بیشتر مسافر جبری کیمپوں یا قتل گاہوں میں مارے گئے۔

1930کی دہائی کے دوران پچاس ھزار سے زائد یہودی ہوانا کے نقل مکانی کے سمجھوتے کے تحت فلسطین پہنچ گئے۔ تاہم 1939 میں برطانوی پارلیمان کی طرف سے قرطاسِ ابیض جاری کئے جانے کے ساتھ ہی برطانوی حکام نے یہودیوں کی فلسطین کیلئے امیگریشن کو انتہائی محدود کر دیا۔ جیسے جیسے اُنہیں قبول کرنے والے علاقے کم ہوتے گئے ھزاروں یہودیوں نے شنگھائی چین کا رُخ کرنا شروع کر دیا جو اُن چند مقامات میں سے ایک تھا جہاں ویزے کی شرط موجود نہیں تھی۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب نازیوں کی طرف سے کئے جانے والے قتلِ عام کی اطلاعات مغربی دنیا میں پہنچیں تب بھی امریکی محکمہ خارجہ امیگریشن کی سخت پاندیوں کو نرم کرنے میں ناکام رہا۔ اُدھر برطانوی پاندیوں کے باوجود یہودیوں کی ایک محدود تعداد غیر قانونی طریقے اور دیگر ذرائع سے فلسطین پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ برطانیہ نے خود بھی مہاجرین کو قبول کرنے کی تعداد انتہائی محدود کر دی تھی۔ تاہم برطانوی حکومت نے دس ھزار کے لگ بھگ ایسے یہودی بچوں کی برطانیہ آمد کی اجازت دے دی جو اپنے کسی رشتہ دار کے بغیر تنہاء وہاں پہنچے تھے۔ یہ اقدام "کنڈر ٹرانسپورٹ" یعنی "بچوں کی نقل مکانی" کے ایک خاص پروگرام کے تحت اُٹھایا گیا تھا۔ تاہم 1943 میں اتحادیوں کی برمودہ کانفرنس کے دوران اِس بارے میں کوئی ٹھوس تجویز سامنے نہیں آئی۔

اِس معاملے میں ایک غیر جانبدار ملک سوٹزرلینڈ نے تقریباً 30 یہودیوں کو قبول کیا لیکن ھزاروں دیگر کو سرحد سے ہی لوٹا دیا۔ ہسپانیہ نے بھی مہاجرین کی ایک محدود تعداد کو قبول کیا مگر فوراً ہی بعد اُنہیں پرتگالی بندرگاہ لزبن روانہ کر دیا۔ وہاں سے ھزاروں مہاجرین 1940-1941 میں بحری جہازوں کے ذریعے امریکہ پہنچ گئے تاہم ھزاروں دیگر افراد امریکہ میں داخل ہونے کیلئے ویزا حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

جنگ کے بعد لاکھوں بے دخل افراد یعنی DPs کو اتحادیوں کے زیر انتظام قائم کئے گئے کیمپوں میں پناہ ملی۔ اِن کیمپوں میں وہ ایک ایسے وطن کا انتظار کر رہے تھے جہاں وہ اپنی زندگیوں کو از سر نو استوار کر سکیں۔ اُس وقت امریکہ میں امیگریشن پر پابندیاں بدستور موجود تھیں اور فلسطین میں بھی امیگریشن شدید طور پر محدود تھی۔ 1945 اور 1948 کے درمیان برطانیہ نے غیر قانونی طور پر فلسطین پہنچنے والے ھزاروں مہاجرین کو بحیرہ روم کے جزیرے قبرص میں موجود حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا۔

یہودی بے گھر لوگوں کیلئے بڑے کیمپ، 1945-1946

1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی یہودی مہاجرین بڑی تعداد میں اِس نئی خود مختار ریاست میں پہنچنا شروع ہو گئے۔ امریکہ نے بھی نظر ثانی شدہ پالیسی کے تحت 1945 اور 1952 کے درمیان چار لاکھ بے دخل افراد کو امریکہ آنے کی اجازت دے دی۔ اِن میں سے 20 فیصد کے لگ افراد ہالوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والے لوگ تھے۔ پناہ کی تلاش ہالوکاسٹ سے پہلے اور بعد کے سالوں میں مسلسل جاری رہی تھی۔