آئرین ھیزمے اور رینے سلوکٹن جڑواں بہن بھائی تھے جو چیکوسلواکیا میں 1937 میں پیدا ہوئے۔ انہيں اپنی والدہ کے ساتھ جلاوطن کر کے پہلے تھیریسئن شٹٹ اور پھر آشوٹز بھیج دیا گیا۔ وہ اپنے پر کئے جانے والے تجربات کے بارے میں بتا رہے ہيں۔ کولون یونیورسٹی میں جینیات کے پروفیسر بینو مولر۔ھل نازی طبی تجربات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہيں۔ پولینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک یہودی سائمن روزنکیئر، جسے جلاوطن کر کے آشوٹز۔برکیناؤ بھیج دیا گیا، آشوٹز میں کئے جانے والے طبی تجربات کے بارے میں بتا رہا ہے
[تصویروں کے کریڈٹ: گیٹو تصاویر، نیویارک سٹی؛ ید واشیم، یروشلم؛ میکس۔پلینک۔انسٹیٹیوٹ فیورسائکئیٹری (ڈوئشے فورشنگ سنزژٹٹ فیور سائکئیٹری)، ھسٹوریشز آرکائو، بلڈر سیملنگ جی ڈی اے، میونخ؛ بنڈےسارشیو کوبلینز، جرمنی؛ ڈاکیومینٹیشن سارشو دس آسٹیریشزشن وائڈرسٹینڈز، ویانا؛ کریم ہیلڈ سنڈر: ڈائی لینڈے شیلینشٹٹ اُچٹسپرنگے اُنڈ ایہرےورسٹریکونگ اِن نیشنل سوزیالسٹیش وربریشین؛ HHStAW Abt. 461, Nr 32442/12; پرائیویٹ کولیکشن L. اورتھ، اے پی جی بون۔]
آئرین:
ہمیں اپنی ماں اور بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ لے جایا گيا۔ ہمیں مارچ کراتے ہوئے ایک مویشیوں کی گاڑی تک لے جایا گیا۔
رینے: جب دروازے کھلے تو مجھے جیسے ٹھنڈی ہوا اندر آتی ہوئی محسوس ہوئی اور جرمن افسر چلا رہے تھے “راؤس، راؤس، شنیل، شنیل"
آئرین
میرے خیال میں ہم تقریبا چار مہینوں تک ساتھ تھے۔ اس وقت ایک کارروائی کا اعلان کیا گیا اور چند جڑواں بچوں اور شاید چند ڈاکٹروں اور نرسوں کو علیحدہ کر دیا گیا۔ اس وقت رینے اور میں اپنی ماں سے الگ ہو گئے۔ مجھے صرف اتنا یاد کہ میری ماں کی چیخیں دل دہلانے کے قابل تھیں اور مجھے معلوم تھا کہ ہم انہيں چھوڑنا نہيں چاہتے تھے۔ لیکن ہمیں ان سے زبردستی الگ کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہمیں ایک دوسرے سے بھی الگ کر دیا گیا۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ گاڑی میں سوار تمام کے تمام یعنی تقریبا 3700 افراد کو اس رات مار دیا گیا۔ ان میں ہماری والدہ بھی تھیں۔
رینے:
دواخانے پہنچنے پر مجھے جو یاد ہے وہ یہ ہے کہ میرے بار بار کپڑے اتروائے جاتے تھے اور پھر مجھے دو ٹھنڈی پلیٹوں کے درمیان رکھا جاتا تھا، جنہيں روئنٹگن مشین کہا جاتا تھا، میرے خیال میں یہ ایکس رے کی مشین تھی۔ میرا وزن لیا جاتا تھا، میرا ناپ لیا جاتا تھا، مجھے انجکشن لگائے جاتے تھے اور دھکے دئے جاتے تھے۔
آئرین:
مجھے خاص طور پر مینگلے جانا یاد ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہم جب پہلی دفعہ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے، ہماری والدہ اس وقت ہمارے ساتھ تھیں۔ ہم اس وقت چیک فیمیلئن لیگر میں ہی تھے اور مجھے یہ خاص طور پر اس لئے یاد ہے کہ مجھے صرف اس بات کی فکر تھی کہ رینے رونا شروع کر دے گا اور اس کے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری گردن اور میرے بازؤوں سے خون نکالا جاتا تھا۔ مجھے ڈاکٹر سے سخت نفرت ہے۔ گردن سے خون لینے میں بہت تکلیف ہوتی تھی لیکن مجھے پتہ تھا کہ میں رو نہیں سکتی تھی اور میں نہیں روئی۔ میں کبھی نہيں روئی۔
یہ جڑواں بھائی بہن ساٹھ لاکھ یہودیوں کے منظم قتل عام کے دوران زندہ بچ گئے۔ سوویت فوجیوں نے جنوری سن 1945 میں آشوٹز کو آزاد کرا دیا۔
رینے:
مجھے اس بات نے پُرجوش رکھا کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں ہے۔ میں نے اسے ایک دفعہ دیکھا بھی تھا۔ میرے خیال میں ہم نے ایک دوسرے کو ایک باڑ یا شاید دو باڑوں کے پیچھے سے دیکھا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے سے بات نہيں کی، صرف ایک دوسرے کو دیکھا اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہم زندہ ہیں، ہمیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ اس احساس نے کبھی مجھے چھوڑا نہيں اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ صرف اسی وجہ سے ہوا تاکہ میں آئرین سے مل سکوں۔
پروفیسر بینو مولر۔ھل
اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کی موت پہلے سے طے ہے، تو گویا آپ اس شخص پر کوئی بھی تجربہ کر سکتے ہيں۔ افسوس کی بات ہے لیکن اگر آپ میں ذرہ بھر انسانیت نہ ہو تو ہی آپ اس قسم کی بات کر سکتے ہیں۔
سائمن روزنکیئر
مجھے برکیناؤ لے جایا گيا۔ وہاں بہت سے دوسرے بچے تھے اور انہوں نے مجھے نکالا اور شُمان نے کہا کہ یہ سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والا جرمن یہودی ہے، اس کا خیال رکھنا۔ وہاں جڑواں بچے تھے، اور پھر آخرکار مینگیلے آیا۔ انہوں نے میرے فیطے پکڑ کر مجھے انجکشن لگائے۔ ایک بندے نے سوال جواب کرنے والے بچوں کو سینے میں انجکشن لگایا۔ ایک لڑکا میرے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ وہ گر گیا اور کمانڈر اسے باہر لے گیا۔ جب وہ آپ کو فیطے میں انجکشن لگائيں تو آپ کو چیخنا نہیں چاہئیے۔ اگر آپ چيخے تو آپ کو مار دیا جاتا ہے۔ آپ کو صرف اپنے دانت پیسنے ہوتے ہيں جیسے آپ کو کچھ محسوس نہيں ہو رہا ہو۔ آپ سمجھ رہے ہيں بس ان کو کسی بھی طرح سے غصہ مت دلاؤ، ورنہ آپ مر گئے۔ میں اپنے بارے میں اور اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچ رہا تھا، کہ کیا میں ان سے کبھی ملوں گا بھی یا نہيں۔ میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا "مجھے امید ہے کہ آپ لوگ زندہ ہیں اور میں آپ سے ملنے آ رہا ہوں" میں اپنی ماں سے بات کر رہا تھا۔ مجھے نہيں معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ کیا میں کبھی بھی آپ لوگوں کو دیکھوں گا یا نہيں، کیونکہ میرے سب دوست تو واپس نہيں آ رہے ہيں۔ آنسو، بس آپ صرف روتے ہی رہ جاتے ہو مجھے اپنے گھر والوں سے بہت محبت تھی لیکن مجھے نہيں معلوم کہ میں کبھی بھی انہيں دیکھ پاؤں گا یا نہيں اور میں نے کبھی بھی کسی کو نہيں دیکھا۔
میں یقینا سال کے اختتام پر بوخن والڈ پہنچا تھا۔ مجھے اپریل سن 1945 میں رہا کر دیا گیا۔ میں دروازے تک پہنچا اور پتہ ہے کون آیا؟ امریکی۔
میں نے جب جوین سے شادی کی، میں نے اس سے کہا کہ مجھے بہت سے بچے چاہئیں۔ لیکن وہ حاملہ نہیں ہو پائی، تو میں بہت سے ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے اخبار میں لوگوں کی نس بندی کرنے کے بارے میں پڑھا۔ اس میں تصویریں بھی تھیں۔ پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا، پتہ ہے، میرے خیال میں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا اور مجھے خیال نہيں آیا۔ پھر میں ڈاکٹروں کے پاس گیا اور میں نے انہیں آشوٹز اور برکیناؤ کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے اس وقت مجھے کہا کہ بھول جاؤ، ایک بچہ گود لے لو، اور انہوں نے ہمیں تحریری اجازت دے دی۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ایلیسن.
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.