پال ایگرٹ کو دماغی طور پر کمزور قرار دے دیا گیا۔ گیارہ سال کی عمر میں اسے معذور قرار دے دیا گیا اور اس کو بتائے بغیر اُس کی نس بندی کر دی گئی۔ ھیلگا گراس ہیمبرگ، جرمنی میں بہرے بچوں کے ایک اسکول میں پڑھتی تھی۔ سولہ سال کی عمر میں 1939 میں اُس کی بھی نس بندی کر دی گئی۔ انیس سال کی عمر میں ڈوروتھیا بک کو شائزوفرینیا کی مریض قرار دیا گیا اور اُسے بھی بتائے بغیر اُس کی نس بندی کر دی گئی۔
پال ایگرٹ
ہم تیرہ بچے تھے۔ میرے والد بہت شراب پیتے تھے اور کام کم ہی کرتے تھے۔ میری والدہ ہمارا مشکل سے ہی خیال رکھتی تھیں۔ مجھے کسانوں سے کھانے کے لئے بہت بھیک مانگنی پڑتی تھی تاکہ میرے بھائیوں اور بہنوں کو کھانا میسر آ سکے۔ میرے بھائی اور بہنیں اسکول جاتے تھے۔ صرف میں ہی اسکول نہيں جاتا تھا۔ پھر ایک دن صبح مجھے بیلے فیلڈ کے ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں میرا آپریشن کر دیا گیا۔ انہوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ ہمیں بچوں کی بہت خواہش تھی لیکن بیلے فیلڈ میں میرے آپریشن کی وجہ سے ہم ایسا نہ کر سکے۔
ہیلگا گراس
انہوں نے بہرے بچوں کو بتایا کہ وہ بہرے بچوں کو نہيں چاہتے، لہذا اُن کی نس بندی کر دی جائے گی کیونکہ وہ نہيں چاہتے تھے کہ بہرے بچے بڑے ہو کر مذید بہرے بچے پیدا کریں۔ ہم چھوٹے تھے اور ہم کچھ نہیں سمجھے۔ پھر حکومت کی طرف سے ایک آدمی ہمارے اسکول آیا اور استاد سے کہا کہ وہ ایسے بچوں کا انتخاب کریں جنہیں ہم نس بندی کیلئے ہسپتال بھیج سکیں۔ پھر وقت قریب آتا گیا، میں اس وقت کچن میں صفائی کر رہی تھی جب میری والدہ میرے پاس آئیں اور مجھے اپنے پاس بٹھایا۔ پھر انہوں نے مجھے سمجھایا کہ تمہیں دو دن کے بعد ہسپتال جانا ہو گا۔ میرے والد بہت روئے۔ انہوں نے مجھے دیکھنے سے بھی انکار کر دیا، اور ہسپتال جانے سے پہلے انہوں نے مجھے گلے بھی نہيں لگایا۔ مجھے بہت سالوں کے بعد سمجھ میں آیا۔ میری چھوٹی بہن کا ایک بہت پیارا سا بچہ تھا۔ وہ بچہ اتنا پیارا تھا، میں اسے گود میں پکڑتی تھی۔ اس دن میری بہن بچے کو دودھ پلا رہی تھی جب مجھے احساس ہوا کہ کبھی ماں نہ بننا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ میں نے رونا شروع کر دیا اور میں باتھ روم میں بھاگ گئی اور وہاں جا کر خوب روئی۔ میں جب باہر آئی تو میری بہن نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں صرف خوشی کی وجہ سے رو رہی تھی کہ تمہارا بچہ بہت پیارا ہے
ڈوروتھیا بک
مجھے گھر سے لے جایا گيا اور مجھ سے کوئی ملنے نہيں آیا لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ انہيں مجھ سے ملنے کی اجازت نہيں تھی اور یوں مجھے ایسا لگا جیسے مجھے ہر کوئی تنہا چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ میری نس بندی کر دی گئی ہے تو مجھے احساس ہوا کہ میں کبھی بھی بچوں کے اسکول میں کام نہيں کر سکوں گی اور نہ ہی کسی بھی قسم کا سماجی پیشہ اختیار کر سکوں گی۔ میرے لئے تو جیسے دنیا ہی ختم ہو گئی۔ میری زندگی کا خواب پورا نہيں ہو سکا۔ اب میری کبھی بھی شادی نہيں ہو سکتی تھی اور میں بچے پیدا نہین کر سکتی تھی۔ ہر چيز تباہ ہو گئی۔ اس کے علاوہ میری پوری زندگی پر کمتری کا دھبا لگ گیا۔ لوگوں کے کمتر ہونے کی وجہ سے اُن کی نس بندی کی جاتی تھی۔ پھر میں نے ظروف سازی کا کام کرنا شروع کیا اور مجھے اس میں بہت دلچسپی ہو گئی۔ میں مجسمے بنا سکتی تھی اور مٹی سے چیزیں بنا سکتی تھی۔ یوں مجھے اپنے پیشہ ورانہ کام میں خوشی محسوس ہونے لگی۔ یہ مجسمہ "درد" جیسے خودبخود ہی بن گیا۔ یہ میرے لئے بہت تکلیف کی بات تھی کیونکہ یہ میرے درد کی عکاسی کرتا تھا جس کو مجھے چھپانا پڑتا تھا کیونکہ آپ کسی سے بھی زبردستی نس بندی کئے جانے کے درد کے بارے ميں بات نہيں کر سکتے تھے۔ کسی دماغی بیماری کی وجہ سے زبردستی نس بندی کی جانی آپ کی دماغی ناہلیت کی واضح نشانی تھی۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.